... loading ...
(مہمان کالم)
رچرڈ فریڈمین
آپ کو یہ بات بتانے کے لیے کسی سائیکاٹرسٹ کی ضرورت نہیں کہ 2020ء ایک وحشیانہ سال تھا؛ تاہم اگر ہم پیچھے مڑ کر دیکھیں تو یہ بالکل واضح طور پر نظر آتا ہے کہ نفسیاتی طور پر ہم ایک سنگین ذہنی آزمائش سے گزرے ہیں۔کووڈ۔19 کے مہلک چیلنج پر ہمارے ردعمل سے ہی ہمیں پتا چلا کہ ہمارے نزدیک کس چیز کی اہمیت ہے اور حقیقت میں ہم کون ہیں۔ یہی سوالات انسانیت کے لیے ایک آئینہ ثابت ہوئے ہیں۔کووڈ نے انجانے میں ہمیں اپنے دوستوں، فیملی اور بیرونی دنیا سے کاٹ کر رکھ دیا۔ ہم میں سے اکثریت کو یہ جاننے کا ناخوشگوار موقع ملا کہ اس دوران ہم نے کیا کچھ کھویا اور ہم اس کے بغیر کیا کچھ کر سکتے تھے؟
کیا ہم اپنی روز مرہ روٹین کے ساتھ بہت زیادہ لگائو رکھتے ہیں؟ کسی مشکل کی گھڑی میں ہم کس قدر لچکدار رویے کا مظاہرہ کر سکتے ہیں؟ ان سوالات کے جواب بعض اوقات حیران کن ہوتے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ 2020ء نے طبی وجہ سے ہمیں اتنا ڈپریس نہیں کیا کیونکہ عوام کی اکثریت نے ایک ٹراما کا سامنا کرنے کے باوجود پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر کی کسی طبی سہولت سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ انسانوں کے اندر ایک حیران کن لچک پائی جاتی ہے۔ بہت سے لوگوں کو احساس ہوا کہ اگر وہ جسمانی طور پر اپنوںکے قریب نہیں بھی رہ سکتے پھر بھی ورچوئل ٹیکنالوجی یعنی زوم اور فیس بک کی مدد سے اپنے دوستوں اور فیملی کے ساتھ تعلقات برقرار رکھ سکتے ہیں۔ یہا ں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے۔ ہمیں لوگوں کے ساتھ ایسے بامعنی روابط برقرار رکھنے کے لیے کس قسم کے عناصر کی ضرورت ہو گی؟ آئیں! اس پہلو پر ذرا غور کرتے ہیں۔ اپنے کسی پیار ے کو چھو کر، سن کر یا ٹیکسٹ میسج کرنے سے ایک سکون سا کیوں ملتا ہے؟ ریسرچرز نے ایسے چھوٹے بچوں‘ جنہیں قدرے ذہنی دبائو والے ماحول کا سامنا کرنا پڑا تھا‘ پر کی گئی ایک ا سٹڈی کے ذریعے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی۔ انہیں سامعین کے ایک گروپ کے سامنے میتھ حل کرنے اور بات چیت کرنے کے لیے کہا گیا۔ اس کے بعد انہیں والدین کے ساتھ رابطہ کرنے کے بارے میں ایک عمومی سا فارم دیا گیا جس میں انہیں ذاتی طور پر، ٹیکسٹ میسج کی مدد سے یا بغیر کسی مدد کے اپنے والدین سے رابطہ کرنا تھا۔ اس کے بعد ریسرچرز نے ان بچوں سے پوچھا کہ وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں؟ اس کے بعد ان کے ا سٹریس ہارمون کارٹیسول کے علاوہ ان کے پرو سوشل یا سماج نواز ہارمون آکسی ٹوسن کی پیمائش کی گئی۔ حیران کن طور پر دیکھا گیا کہ ٹیکسٹ میسج کے ذریعے رابطہ کرنے والوں اور کوئی رابطہ نہ کرنے والوں میں خاص فرق نہیں پایا گیا؛ تاہم ٹیلی فون کے ذریعے رابطہ کرنے والوں اور چھو کر یا بول کر رابطہ کرنے والوں میں ایک موثر مماثلت نظر آئی۔ ایک بات بڑی واضح انداز میں محسوس ہوئی کہ اپنے پیاروں اور دوستوں کے ساتھ محبت کا بانڈ محسوس کرنے کے لیے ان کے ساتھ ملنا اتنا ضروری بھی نہیں ہے۔ یہ قول غالباً ہیلن کیلر کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے ’’بصارت سے محرومی اشیا کے ساتھ آپ کا رابطہ منقطع کرتی ہے جبکہ سماعت سے محرومی لوگوں کے ساتھ ا?پ کا تعلق ختم کر دیتی ہے‘‘۔ میں نے دیکھا ہے کہ ٹیکنالوجی کی دستیابی کے باوجود کئی لوگوں کے لیے قرنطینہ کی پابندی کر نا ایک طرح سے ناممکن تھا حالانکہ وہ ہائی رسک گروپس میں شامل تھے۔ وہ لوگوں کے ساتھ ملنا جلنا اور پارٹیاں کرنا چاہتے تھے جبکہ انہوں نے ریستورانوں کے اندر بیٹھ کر کھانے کھائے۔ شاید انہوں نے کووڈ سے پہلے کبھی خود کو اتنے خطرے میں نہیں پایا ہو گا۔
وہ اپنا اچھی طرح خیال رکھتے تھے مگر یہاں وہ اپنی خوشی اور دوستوں کی صحبت انجوائے کرنے کے لیے اپنی زندگیوں کو دائو پر لگانے کے لیے بھی تیار تھے۔ ہم نے بھی اتنے بڑے رسک میں اپنی برداشت کو ا?زمایا اور ہم جاننا چاہتے تھے کہ تحفظ سے ہماری کیا مراد تھی۔ کچھ کے نزدیک یہ کسی انسان کو جسمانی طور پر چھونے سے گریز کرنا اور کبھی اپنے گھر سے باہر نہ نکلنا تھا۔ دوسری طرح کے وہ لوگ ہیں جو دوستوں کے ساتھ میل ملاپ کو ضروری سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم نے ایک مطلوبہ وقت تک خود کو قرنطینہ کر لیا تھا اور یہی کافی تھا۔ اسی تجربے سے ہمیں ایک دوسرے پر اعتبار کرنے اور اپنی میموری پر انحصارکرنے کے بارے میں بھی بہت کچھ معلوم ہوا۔ کیا ہم یہ بات دانستہ طور پر فراموش کر جاتے ہیں کہ اپنے کسی دوست سے ملنے سے ایک دن پہلے ہم گھر سے باہر کی دنیا میں گئے تھے۔ کئی ایک نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنی سیفٹی کو ہر چیز پر مقدم رکھیں گے۔ میری ایک ستر سالہ دوست نے تقریباً مزاحیہ انداز میں بتایاکہ مجھے یقین ہے کہ دوستوں سے میل ملاپ کے حوالے سے میرے شوہر پر کبھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا ’’اس نے مجھے بتایا تھا کہ وہ شاپنگ کیلئے گئے ہوئے تھے مگر ان کی ایک انسٹا گرام پوسٹ سے مجھے پتا چل گیا کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ تھے‘‘۔ اس نے بتایا ’’اس نے 2020ء میں یہ سیکھا ہے کہ ہر کوئی مجھ سے زیادہ سوشل ہے اور یہ کہ میں لمبے عرصے تک مطالعہ کر سکتی ہوں نہ زیادہ دیر تک ادھر ادھر گھوم سکتی ہوں‘‘۔ میرے لیے یہ بات اس لیے حیران کن ہے کہ میں ایک عرصے سے اسے جانتا ہوں کہ وہ ایک سوشل خاتون ہے اور اسے دوستوں کو پارٹیوں پر بلانا اور ان کے ساتھ طویل گفتگو کرنا بہت پسند ہے۔ شاید لاک ڈائون میں پھنسنے کے تجربے سے ہٹ کر بھی اسے ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے دوستوں کی صحبت کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ ہم میں سے کچھ کا خیال ہے کہ تنہائی اتنی بھی بری نہیں ہوتی جتنا ہم اس سے خوفزدہ تھے۔ ماہرین نفسیا ت تو ہمیں اس بات کی یاد دہانی کرانا پسند کرتے ہیں کہ ہم انسان بہت جلد بوریت کا شکار ہو جاتے ہیں اور خود کو انٹرٹین نہیں کر سکتے۔ شاید ماہرین کی پیشگوئی کے مطابق ہم خود کو اپنی ہی کمپنی میں بہتر محسوس کریں۔ کچھ ایسے بھی تھے جن میں اس جبری تنہائی کے دوران دوسروں کیلئے ایثار اور قربانی کا جذبہ بیدار ہوا۔ مجھے ہسپتال میں اپنے ساتھیوں کا خیال آرہا ہے جنہوں نے اس مہلک کووڈ کے دنوں میں بڑی جانفشانی اور خلوص سے انسانوں کی خدمت کی اور یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ ان دنوں میں رضاکارانہ طور پر اپنی فیملی سے دور رہیں گے تاکہ انہیں کسی قسم کا انفیکشن نہ ہو۔ میرے ایک دوست نے کہا ’’ہم صرف اپنا فرض نبھا رہے ہیں‘‘۔ تو اس دوران ہم اپنے ا سٹریس یا ذہنی دبائو کے ساتھ کیسے نمٹے؟ بہت بہتر طریقے سے! سرویز سے پتا چلا ہے کہ ہم پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال زیادہ بے چین اور ڈپریس تھے۔ ہم جو کچھ بھی بہتر قدم اٹھا سکتے تھے‘ ہم نے اٹھایا۔ اب ہم 2021ء کے لیے ایک اچھی سی خواہش رکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔