... loading ...
یکم جنوری کے ساتھ نئے سال کا آغاز ہو چکاہے ویکسین کے باوجود ابھی تک کورونا کا پھیلائو جاری ہے اِس لیے ماہرین کہتے ہیں وبا پر جلد قابو پا بھی لیا گیا تو جتنی تباہی ہو چکی کئی دہائیوں تک اثرات محسوس ہوتے رہیں گے رواں برس ملکی مسائل کا خاتمہ ہو سکے گا؟اِس سوال کا جواب دینا بھی آسان نہیںکیونکہ ماضی میں اشرافیہ نے عوامی مسائل کے حل میں دلچسپی نہیں لی بلکہ بے اعتنائی کا مظاہرہ کیا ہے عین ممکن ہے معاشرتی رویے یکسر تبدیل ہو جائیں گزرے برس حل طلب ملکی مسائل ختم نہیں ہوسکے بلکہ ریلوے ،پی آئی اے ،اسٹیل مل جیسے اِداروں میں موجودخرابیوں میں میں اضافہ ہواہے اب بھی نئے سال کے آغاز پر بجلی ،پٹرول اور ایل پی جی کے نرخ بڑھا کر خلوص ظاہر کیا جا چکا جانے مستقبل میں ترکش کے کون سے تیر چلائے جائیں گے توقعات کی بجائے خدشات دامن گیرہیں ۔
اقتدار مستحکم کرنا کسی کا دل پسند مشغلہ ہے تو کوئی اقتدار میں آنے کو بے چین ہے اِن حالات میں مسائل کے خاتمے کی توقع مناسب نہیں ملک میں وسائل کی قلت یا ہُنر مندوں کا قحط نہیں بلکہ وسائل اور ہُنرمندوں سے استعفادے کی بجائے قرض لینے کو ہی نسخہ کیمیا سمجھ لیاگیا ہے جس سے ملک پر قرضوں کے انبار اورعوامی مسائل میں ہو تاجارہا ہے کسی نے اپنی عقل و دانش سے کام لیکر مسائل حل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گزرے برس کے دوران مسائل کا خاتمہ تو نہیں ہوسکا البتہ ملک سے دائیں اور بائیں بازو کی سیاست ضرورختم ہو چکی ہے اسلام پسند اور لبرل آج ایک پلیٹ فارم پر اِکٹھے ہیں کاش سیاست کے لیے فکری جکڑ بندیاں ختم کرنے کی طرح ملک وقوم کی بہتری کے لیے بھی سبھی ایک ہو جائیں۔
آئی پی پیز کو ادائیگیوںکا دبائو خطرناک حد تک بڑھ چکا بجلی ،گیس اور پیٹرول کے نرخوں میں اضافہ کو معیشت کی بحالی سے تعبیر کیا جارہا ہے آٹے اور چینی کا بحران کمی وبیشی کے ساتھ نہ صرف موجود ہے بلکہ ماہرین تو سردیوں میںبہت کم ملنے والی گیس کے بحران میں مزید اضافے کی نشاندہی کرنے لگے ہیں ایک طرف عوام کی سہولت کے لیے احساس پروگرام اور ہیلتھ کارڈ کا کریڈٹ لینے کاشور تو ساتھ ہی ریلوے ،تعلیمی اِداروں اور ہسپتالوں کی نجکاری پر کام جاری ہے روزگار کے مواقع تو نہیں بڑھے مگر پی آئی اے اور اسٹیل مل کے ہزاروں ملازمین کو نکال دیا گیا ہے تعمیراتی شعبے کے لیے باربار پیکج کا اعلان کرنے کے باجود گروتھ نظر نہیں آرہی بلکہ جمود کا تاثر ہے کسی طرف طائرانہ نگاہ ڈالیں تو بہتری کے آثار مفقود ہیں اِن حالات میں معیشت کی بحالی کے دعوے پر یقین کرنے کو دل آمادہ نہیں جانے ملک کی قسمت میں ایسے رہنما کیوں ہیں جنھیں تباہی بھی خوشحالی نظر آتی ہے ۔
سیاسی سمندر میں جنم لینے والی جواربھاٹے کی شدت میں کچھ کمی ضرور آئی ہے اور عمران خان سے استعفے کے طلب گار خود مستعفی ہونے کے خواہشمند ہیں لیکن اکتیس جنوری تک وزیرِ اعظم سے استعفے کا مطالبہ کرنے والے اکتیس دسمبر تک اپنی جماعتوں کے تمام ممبران سے بھی استعفے نہیں لے سکے واقفانِ حال کا دعویٰ ہے کہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے کئی اہم رہنما اپنی قیادت سے گزشتہ چند ہفتوں سے فاصلہ اختیار کر چکے ہیں وہ جذباتی فیصلے کی بجائے پارلیمانی سیاست کرنا چاہتے ہیں اسی بنا پر استعفے اور لطیفے میں فرق مٹ گیا ہے، مستعفی ہونے والے صفائیاں پیش کرتے پھرتے ہیں جاوید عباسی اور سجاداعوان نے سیکرٹری قومی اسمبلی اور اسپیکر کے روبرو پیش ہوکر استعفوں کو جعلی کہہ کر تصدیق سے انکار کر دیا ہے حالانکہ ذرائع کہتے ہیں دونوں نے جذبات میں آکر قیادت کو بھیجی جانے والی استعفے کی ایک کاپی قومی اسمبلی کوبھی ارسال کر دی اب اگر قانونی پہلوئوں کی روشنی میں اسپیکر فرانزک آڈٹ کراتے تو دستخط جعلی یا اصلی ہونے کا ابہام دور ہوجاتامگر اسد قیصر نے ممبران کا موقف مان کر سیاسی کشیدگی بڑھانے سے اجتناب کیا جب سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی اورنواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر اعوان کے بھائی ایسا طرزِ عمل اپنائیں گے تو دوسرے ممبرانِ اسمبلی کی سنجیدگی کا اندازہ لگاناکون سا مشکل کام ہے۔
بادی النظر میں استعفوں کی دھمکی سے حکمرانوں کو ڈرانے کی کوشش سے اپوزیشن کی کمزوریاں بے نقاب ہونے لگی ہیں سیاسی استحکام کے لیے دونوں طرف بات چیت کے لیے تھوڑی سی لچک دکھائی جائے تو مذاکرات نتیجہ خیز ہوسکتے ہیں مگر گفتگو کی بجائے دبائو بڑھایا جا رہا ہے نواز شریف کے پاسپورٹ کی تجدید کی بجائے سولہ فروری کو منسوخ کرنے کا عندیہ دبائو بڑھانے کی کوشش ہے مگر اِس طرح کے فیصلوں سے پُرسکون سیاسی سمندر میں طلاطم خیز موجیں دوبارہ جنم لے سکتی ہیں یہ تو بھلا ہو پی پی کا جس نے استعفوں کے فیصلے میں رخنہ ڈالا اورپی ڈی ایم قیادت کو ضمنی اور سینٹ الیکشن میں حصہ لینے پر رضا مند کر لیا محمد علی درانی کی جیل میں شہباز شریف سے ملاقات سے شروع ٹریک ٹو ڈپلو میسی کے اثر سے مُفر ممکن نہیں لیکن جب تک دونوں طرف سے نرمی اختیار نہیں کی جاتی سیاسی حالات اتھل پتھل ہونے کا امکان رَد نہیں کیاجاسکتا اینٹ سے اینٹ بجا دینے والے بیان کا آصف زرداری کفارہ ادا کرنے کی کوشش میں ہیں اسی سے بظاہر حکومت پر دبائو کم ہورہا ہے اور پی پی کی طرح مسلم لیگ ن بھی کسی نوعیت کے الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کی بجائے مقابلہ کرنے پر رضامند ہوئی ہے جس سے اور کچھ ہو نہ ہوسینٹ الیکشن سے پہلے بدمزگی کا کم ہی امکان ہے ۔
وزیرِ اعظم نے بطوراپوزیشن رہنما دعویٰ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر لوٹی ہوئی دولت واپس لا کر نہ صرف غیرملکی قرض اُتاریں گے بلکہ ملک میں خوشحالی لائیں گے انھوں نے تو مختلف شعبوں میں اصلاحات لانے کا بھی وعدہ کیا تھا لیکن نصف مدت گُزارنے کے باوجود ابھی تک ایسا کچھ نہیں کر سکے آن لائن ویبینارسے خطاب کرتے ہوئے ایف بی آر کے سابق چیئرمین شبر زیدی نے ایک ہوشربا انکشاف کیا ہے کہ پاکستانی تاجروں کے مالٹا جیسے غیر ملکی بینکوں میں 150 ارب ڈالر موجود ہیں جن کے نام وپتے بھی معلوم ہیں ایک تاجر سے ملاقات کی روداد بھی سنائی علاوہ ازیں اپنی کتاب میں تفصیلات بتاتے ہوئے رقوم پر تاجروں کو ایک یا دوفیصد معمولی منافع ملنے کا انکشاف کیا ہے یہ رقوم واپس لاکر حکومت کارکردگی دکھاسکتی ہے وعدے پورے کرنے کانادرموقع ہے بدعنوان سیاستدانوں سے تو سرمایہ نکلوا نہیں سکے اگر تاجروں کو ہی قائل کر لے تو قرضوں سے دبائو کا شکار معیشت کو نئی اکسیجن مل سکتی ہے لیکن پہلے سرمایہ محفوظ ہونے کا یقین دلانا ہو گاپکڑ دھکڑ کے ماحول سے سرمایہ دار بدظن ہوتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔