وجود

... loading ...

وجود

استعفے اور لطیفے

هفته 02 جنوری 2021 استعفے اور لطیفے

یکم جنوری کے ساتھ نئے سال کا آغاز ہو چکاہے ویکسین کے باوجود ابھی تک کورونا کا پھیلائو جاری ہے اِس لیے ماہرین کہتے ہیں وبا پر جلد قابو پا بھی لیا گیا تو جتنی تباہی ہو چکی کئی دہائیوں تک اثرات محسوس ہوتے رہیں گے رواں برس ملکی مسائل کا خاتمہ ہو سکے گا؟اِس سوال کا جواب دینا بھی آسان نہیںکیونکہ ماضی میں اشرافیہ نے عوامی مسائل کے حل میں دلچسپی نہیں لی بلکہ بے اعتنائی کا مظاہرہ کیا ہے عین ممکن ہے معاشرتی رویے یکسر تبدیل ہو جائیں گزرے برس حل طلب ملکی مسائل ختم نہیں ہوسکے بلکہ ریلوے ،پی آئی اے ،اسٹیل مل جیسے اِداروں میں موجودخرابیوں میں میں اضافہ ہواہے اب بھی نئے سال کے آغاز پر بجلی ،پٹرول اور ایل پی جی کے نرخ بڑھا کر خلوص ظاہر کیا جا چکا جانے مستقبل میں ترکش کے کون سے تیر چلائے جائیں گے توقعات کی بجائے خدشات دامن گیرہیں ۔

اقتدار مستحکم کرنا کسی کا دل پسند مشغلہ ہے تو کوئی اقتدار میں آنے کو بے چین ہے اِن حالات میں مسائل کے خاتمے کی توقع مناسب نہیں ملک میں وسائل کی قلت یا ہُنر مندوں کا قحط نہیں بلکہ وسائل اور ہُنرمندوں سے استعفادے کی بجائے قرض لینے کو ہی نسخہ کیمیا سمجھ لیاگیا ہے جس سے ملک پر قرضوں کے انبار اورعوامی مسائل میں ہو تاجارہا ہے کسی نے اپنی عقل و دانش سے کام لیکر مسائل حل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گزرے برس کے دوران مسائل کا خاتمہ تو نہیں ہوسکا البتہ ملک سے دائیں اور بائیں بازو کی سیاست ضرورختم ہو چکی ہے اسلام پسند اور لبرل آج ایک پلیٹ فارم پر اِکٹھے ہیں کاش سیاست کے لیے فکری جکڑ بندیاں ختم کرنے کی طرح ملک وقوم کی بہتری کے لیے بھی سبھی ایک ہو جائیں۔

آئی پی پیز کو ادائیگیوںکا دبائو خطرناک حد تک بڑھ چکا بجلی ،گیس اور پیٹرول کے نرخوں میں اضافہ کو معیشت کی بحالی سے تعبیر کیا جارہا ہے آٹے اور چینی کا بحران کمی وبیشی کے ساتھ نہ صرف موجود ہے بلکہ ماہرین تو سردیوں میںبہت کم ملنے والی گیس کے بحران میں مزید اضافے کی نشاندہی کرنے لگے ہیں ایک طرف عوام کی سہولت کے لیے احساس پروگرام اور ہیلتھ کارڈ کا کریڈٹ لینے کاشور تو ساتھ ہی ریلوے ،تعلیمی اِداروں اور ہسپتالوں کی نجکاری پر کام جاری ہے روزگار کے مواقع تو نہیں بڑھے مگر پی آئی اے اور اسٹیل مل کے ہزاروں ملازمین کو نکال دیا گیا ہے تعمیراتی شعبے کے لیے باربار پیکج کا اعلان کرنے کے باجود گروتھ نظر نہیں آرہی بلکہ جمود کا تاثر ہے کسی طرف طائرانہ نگاہ ڈالیں تو بہتری کے آثار مفقود ہیں اِن حالات میں معیشت کی بحالی کے دعوے پر یقین کرنے کو دل آمادہ نہیں جانے ملک کی قسمت میں ایسے رہنما کیوں ہیں جنھیں تباہی بھی خوشحالی نظر آتی ہے ۔

سیاسی سمندر میں جنم لینے والی جواربھاٹے کی شدت میں کچھ کمی ضرور آئی ہے اور عمران خان سے استعفے کے طلب گار خود مستعفی ہونے کے خواہشمند ہیں لیکن اکتیس جنوری تک وزیرِ اعظم سے استعفے کا مطالبہ کرنے والے اکتیس دسمبر تک اپنی جماعتوں کے تمام ممبران سے بھی استعفے نہیں لے سکے واقفانِ حال کا دعویٰ ہے کہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے کئی اہم رہنما اپنی قیادت سے گزشتہ چند ہفتوں سے فاصلہ اختیار کر چکے ہیں وہ جذباتی فیصلے کی بجائے پارلیمانی سیاست کرنا چاہتے ہیں اسی بنا پر استعفے اور لطیفے میں فرق مٹ گیا ہے، مستعفی ہونے والے صفائیاں پیش کرتے پھرتے ہیں جاوید عباسی اور سجاداعوان نے سیکرٹری قومی اسمبلی اور اسپیکر کے روبرو پیش ہوکر استعفوں کو جعلی کہہ کر تصدیق سے انکار کر دیا ہے حالانکہ ذرائع کہتے ہیں دونوں نے جذبات میں آکر قیادت کو بھیجی جانے والی استعفے کی ایک کاپی قومی اسمبلی کوبھی ارسال کر دی اب اگر قانونی پہلوئوں کی روشنی میں اسپیکر فرانزک آڈٹ کراتے تو دستخط جعلی یا اصلی ہونے کا ابہام دور ہوجاتامگر اسد قیصر نے ممبران کا موقف مان کر سیاسی کشیدگی بڑھانے سے اجتناب کیا جب سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی اورنواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر اعوان کے بھائی ایسا طرزِ عمل اپنائیں گے تو دوسرے ممبرانِ اسمبلی کی سنجیدگی کا اندازہ لگاناکون سا مشکل کام ہے۔

بادی النظر میں استعفوں کی دھمکی سے حکمرانوں کو ڈرانے کی کوشش سے اپوزیشن کی کمزوریاں بے نقاب ہونے لگی ہیں سیاسی استحکام کے لیے دونوں طرف بات چیت کے لیے تھوڑی سی لچک دکھائی جائے تو مذاکرات نتیجہ خیز ہوسکتے ہیں مگر گفتگو کی بجائے دبائو بڑھایا جا رہا ہے نواز شریف کے پاسپورٹ کی تجدید کی بجائے سولہ فروری کو منسوخ کرنے کا عندیہ دبائو بڑھانے کی کوشش ہے مگر اِس طرح کے فیصلوں سے پُرسکون سیاسی سمندر میں طلاطم خیز موجیں دوبارہ جنم لے سکتی ہیں یہ تو بھلا ہو پی پی کا جس نے استعفوں کے فیصلے میں رخنہ ڈالا اورپی ڈی ایم قیادت کو ضمنی اور سینٹ الیکشن میں حصہ لینے پر رضا مند کر لیا محمد علی درانی کی جیل میں شہباز شریف سے ملاقات سے شروع ٹریک ٹو ڈپلو میسی کے اثر سے مُفر ممکن نہیں لیکن جب تک دونوں طرف سے نرمی اختیار نہیں کی جاتی سیاسی حالات اتھل پتھل ہونے کا امکان رَد نہیں کیاجاسکتا اینٹ سے اینٹ بجا دینے والے بیان کا آصف زرداری کفارہ ادا کرنے کی کوشش میں ہیں اسی سے بظاہر حکومت پر دبائو کم ہورہا ہے اور پی پی کی طرح مسلم لیگ ن بھی کسی نوعیت کے الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کی بجائے مقابلہ کرنے پر رضامند ہوئی ہے جس سے اور کچھ ہو نہ ہوسینٹ الیکشن سے پہلے بدمزگی کا کم ہی امکان ہے ۔

وزیرِ اعظم نے بطوراپوزیشن رہنما دعویٰ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر لوٹی ہوئی دولت واپس لا کر نہ صرف غیرملکی قرض اُتاریں گے بلکہ ملک میں خوشحالی لائیں گے انھوں نے تو مختلف شعبوں میں اصلاحات لانے کا بھی وعدہ کیا تھا لیکن نصف مدت گُزارنے کے باوجود ابھی تک ایسا کچھ نہیں کر سکے آن لائن ویبینارسے خطاب کرتے ہوئے ایف بی آر کے سابق چیئرمین شبر زیدی نے ایک ہوشربا انکشاف کیا ہے کہ پاکستانی تاجروں کے مالٹا جیسے غیر ملکی بینکوں میں 150 ارب ڈالر موجود ہیں جن کے نام وپتے بھی معلوم ہیں ایک تاجر سے ملاقات کی روداد بھی سنائی علاوہ ازیں اپنی کتاب میں تفصیلات بتاتے ہوئے رقوم پر تاجروں کو ایک یا دوفیصد معمولی منافع ملنے کا انکشاف کیا ہے یہ رقوم واپس لاکر حکومت کارکردگی دکھاسکتی ہے وعدے پورے کرنے کانادرموقع ہے بدعنوان سیاستدانوں سے تو سرمایہ نکلوا نہیں سکے اگر تاجروں کو ہی قائل کر لے تو قرضوں سے دبائو کا شکار معیشت کو نئی اکسیجن مل سکتی ہے لیکن پہلے سرمایہ محفوظ ہونے کا یقین دلانا ہو گاپکڑ دھکڑ کے ماحول سے سرمایہ دار بدظن ہوتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر