... loading ...
بریٹ ا سٹیفنس
منصبِ صدارت چھوڑنے سے ایک دن پہلے صدر براک اوباما نے قدامت پسند رائٹرز کے ایک چھوٹے سے گروپ کو بات چیت کے لیے مدعو کیا۔ ان میں سے کوئی بھی ٹرمپ کا حامی نہیں تھا۔ سب لوگ وائٹ ہائوس کے روز ویلٹ روم میں بیٹھے تھے۔ ماحول اتنا خوشگورار نہیں تھا۔ براک اوباما ریپبلکن پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے متفکر تھے۔ کسی نے ٹرمپ کے دورِ صدارت میں ایک عالمی تھرمو نیوکلیئر جنگ چھڑنے کے امکان کا ذکر کیا۔ ٹرمپ کے چار سال گزر جانے کے بعد یہ مناسب ہو گا کہ ان کے دورِ صدار ت کے بارے میں جو پیش گوئی کی گئی تھی اور جو کچھ حقیقت میں ہوا‘ دونوں کا موازنہ کیا جائے۔پیشگوئی یہ تھی کہ ا سٹاک مارکیٹ کبھی دوبارہ سنبھل نہیں سکے گی۔ ہم شمالی کوریا اور ایران کے ساتھ جنگ میں ملوث ہو جائیں گے۔ فری پریس کو جبر کاسامنا کرنا پڑے گا، ولادیمیر پیوٹن بلیک میلنگ کے ذریعے ٹرمپ پر حکمرانی کریں گے۔ ٹرمپ کے مقرر کیے ہوئے جج الیکشن کے بارے میں ہونے والے فیصلوں کو منسوخ کر دیں گے۔ ٹرمپ کبھی اپنا آفس نہیں چھوڑیں گے مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ٹرمپ کے دورِ صدارت میں کچھ ناخوشگوار باتیں ضرور ہوئی ہیں مگر اتنے بھی غلط کام نہیں ہوئے جنہیں عدالت کی مدد سے روکا نہ جا سکتا ہو (مثلاً ڈی اے سی اے پر وگرام کو روکنے کی کوشش) یا جنہیں کانگرس کی مدد سے روکنے کی کوشش کی گئی ہو (روس کے خلا ف پابندیاں نرم کرنے کی خواہش) یا اپنے ماتحتوں کی مدد سے نقصان پہنچانے کی کوشش (شام سے امریکی فوجیں واپس بلانے کی کوشش) یا پریس کے ذریعے ہونے والے انکشافات (تارکین وطن کو فیملی سے جدا کرنے کی پالیسی) سول سرونٹس کی مدد سے غلط فیصلوں کی درستی (کورونا وائرس کے بارے میں غلط انفارمیشن دینے کی کوشش) ووٹرز کی مدد سے انہیں مسترد کیا جانا (موجودہ صدارتی الیکشن) ان کے مقرر کردہ ججوں کی طرف سے ان کے ہی خلاف ہونے والے فیصلے (الیکشن کے حوالے سے کیے گئے چیلنجز) وغیرہ۔ ہاں! کووڈ کی آفت سے نمٹنے میں ان سے غلط فیصلے ہوئے ہیں مگر جو لوگ ان پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ کووڈ سے لاکھوں امریکیوں کی موت واقع ہوئی ہے انہیں کم از کم یہ بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ یہ عالمی وبا جس بڑے پیمانے پر پھیلی‘ یہ کسی بھی صدر کے لئے ایک سنگین چیلنج ہوتا۔کووڈ سے امریکا میں ہونے والی اموات (ہر ایک لاکھ میں 91 اموات) فرانس کے مقابلے میں سنگین ہیں جہاں ہر ایک لاکھ میں 87 افراد کی موت واقع ہوئی مگر برطانیہ اور کئی دوسرے ملکوں کے مقابلے میں یہ شرح بہتر ہے۔ برطانیہ میں ہر ایک لاکھ میں سے97، ا سپین میں 102 اور اٹلی میں 107 شہریوں کی موت واقع ہوئی ہے حالانکہ وہاں سخت لاک ڈائون نافذ کیا گیا تھا اور پوری لیڈر شپ بھی اس وبا کے خلاف مہم میں شامل تھی۔ ٹرمپ کے ابتدائی مخالفین سمیت میرے بہت سے قدامت پسند ساتھی اس بات کے قائل ہو چکے ہیں کہ ٹرمپ کے اقدامات میں بدنظمی کا عنصر تو شامل تھا مگر ان کی ذات اور طرزِ عمل کی مخالفت میں ایک جائز نفرت کے ساتھ ساتھ ان کی بدحکومتی کے نتائج کے حوالے سے بے جا خوف کا ملا جلا امتزاج شامل تھا۔ میرے ساتھیوں کی سوچ کے برعکس ٹرمپ مسولینی ثانی نہیں تھے۔ آپ انہیں ایک شیخی خور آرچی بنکر ثانی کہہ سکتے ہیں جسے ایک آئینی نظام کے ساتھ پابند کیا جا سکتا ہے مگرٹرمپ کے دورِ صدارت کی تباہ کاری ان کاموں سے نظرنہیں آتی جو وہ کھلے عام کرچکے ہیں۔ ان کا پہنچایا ہوا نقصان نظر نہیں آتا۔
ٹرمپ نے جو سب سے بڑی تباہی پھیلائی وہ سماجی عدم اعتماد تھا۔ اعتماد اور اعتبارکو کسی بھی کامیاب سوسائٹی کا طرہ امتیاز سمجھا جا تا ہے۔ مجھے اس بات کا ادراک اس وقت ہوا جب میں واشنگٹن پوسٹ میں سابق وزیر خارجہ جارج شلز کا ایک اہم آرٹیکل پڑھ رہا تھا۔ ان کی جوانی جنگ عظیم دوم لڑنے میں گزری، پھر وہ ا سٹیل پلانٹس میں لیبر مقدمات لڑتے رہے اور آخر میں سوویت یونین کے ساتھ امن کی راہ ہموار کی۔ ان کی زندگی کا حاصل پیغام یہ تھا کہ ’’جب کمرے میں اعتماد کی فضا پائی جاتی تھی خواہ یہ کمرہ کوئی بھی ہو‘ کوئی فیملی روم ہو یا سکول روم، کوئی لاکر روم ہو یا آفس روم، کوئی گورنمنٹ روم ہو یا کوئی ملٹری روم‘ تو ہمیشہ اچھی باتیں وقوع پذیر ہو سکتی ہیں‘‘۔ جارج شلز مزید لکھتے ہیں ’’جب کمرے میں اعتماد موجود نہ ہو تو کبھی اچھی چیزیں دیکھنے کو نہیں ملتیں‘‘۔ جارج اپنے تجربے کی بنا پر جن باتوں کی تصدیق یا توثیق کرتے ہیں وہ ہمارے عظیم لٹریچر میں بدرجہ اتم مل جاتی ہیں۔ اعلیٰ اعتبار اور اعتماد کی حامل سوسائٹیز۔ کینیڈا یا سویڈن کو دیکھ لیں‘ لوگ ہمیشہ پھلنے پھولنے اور آگے بڑھنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ جس سوسائٹی میں اس اعتماد کا فقدان پایا جا تا ہے وہاں ایسا نہیں ہوتا۔ ہمارے اداروں میں اس وقت جو اعتماد اور بھروسے کی کمی نظر آتی ہے اس میں ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کا قصور اتنا زیادہ نہیں ہے مگر پوری زندگی میں مجھے کوئی ایک بھی ایسا شخص یاد نہیں آ رہا جسے سیاسی عد م اعتماد کا اتنا بڑا مجسمہ قرار دیا جا سکتا ہو یا اور جو اتنے پْرجوش اور جارحانہ انداز میں اسے فروغ بھی دے رہا ہو۔
ٹرمپ نے اپنے حریفوں کو یہ سکھا دیا ہے کہ وہ ان کی زبان سے نکلے کسی لفظ پر بھی اعتبار نہ کریں اور اپنے حامیوں اور پورے ملک کو انہوں نے نصیحت کی کہ وہ کسی پر بھروسہ نہ کریں۔ انہوں نے بے اعتباری کا ایک ٹائم بم اس تہذیب کی بنیادوں میں رکھ دیا ہے جو سچ اور جھوٹ، ثبوت اور واہمے میں تمیز نہیں کر سکتی۔ انہوں نے لاکھوں کروڑوں افراد کی اس طرح تربیت کر دی ہے کہ وہ ہر حکم کو آنکھیں بند کر کے بجا لاتے ہیں۔ ان کا نظریہ یہ ہے کہ آپ جس بھی جھوٹ یا الزام سے بچ نکل سکتے ہیں‘ وہی سچ ہے۔ ان کے خیر خواہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایسی باتیں تو دوسرے فریق میں بھی خاص طور بل کلنٹن میں بھی پائی جاتی ہیں۔ یہ سچ ہے! مگر میری حیرانی کی ایک ہی وجہ ہے کہ جو لوگ بھی اخلاقی بنیادوں پر بل کلنٹن کے خلاف اعتراض اٹھاتے ہیں‘ وہ اخلاقی بنیادوں کی عد م موجودگی میں ٹرمپ کی حمایت کس طرح کر سکتے ہیں۔ شاید امریکی عوام کو اس بات کا اندازہ لگاتے کئی عشرے گزر جائیں کہ ٹرمپ نے ان چار برسوں میں امریکا کو کس قدر نقصان پہنچایا ہے اور اب اس نقصان کی تلافی کسی طرح ممکن ہے۔اچھی خبر یہ ہے کہ ابھی تک کوئی تھرمو نیوکلیئر جنگ نہیں ہوئی۔ بری خبر یہ ہے کہ ایک مختلف قسم کی تابکاری‘ جس نے پہلے اداروں پر ہمارے اعتبار اور اعتماد کو توڑا پھر دوسروں پر اعتماد کو مجروح کیا اور آخر میں ہمارے اپنے اوپر اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچائی۔ اب ا س آئسو ٹوپ کی آدھی زندگی کی پیمائش نہ بھی کریں تو کیا فرق پڑتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔