... loading ...
مصنوعی خیالات سے زیادہ بڑا دشمن کوئی نہیں۔انسان کو اپنے مخالفین سے کہیں زیادہ ان مصنوعی خیالات سے لڑائی کرنا پڑتی ہے۔ دنیا کے عظیم لوگ اپنے اندر سے اُبھرے ہیں۔ عظیم مفکر شاعر علامہ اقبالؒ نے گِرہ کھول دی تھی:
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغِ زندگی
قائد اعظمؒ ایسے ہی ایک عظیم رہنما تھے، جن کا اپنا رہنما اُن کے من سے اُبھرتا تھا۔ برصغیر کے منچ پر تب کوئی دوسرا شخص نہ تھا، جس کی زندگی مصنوعی خیالات سے اس طرح پاک رہی ہو، جیسے قائداعظمؒ کی۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا تبحر علمی انسان کو ہکا بکا کردیتا ہے، مگر مصنوعی خیالات ’’ آزادیٔ ہند ‘‘کی بعد از وفات شائع ہونے والی تحریر تک اُن کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ گاہے خیال آتا ہے، مولانا ابوالکلام آزاد ایسے بے مثال وبے بدل عالم جب تہران سے دہلی جاتے ہوئے19؍جولائی 1951ء کو کراچی رُکے اور اپنے سب سے بڑے مخالف حضرت قائداعظمؒ کے مزار پر تشریف لے گئے تو اُنہوں نے کیا دعا کی ہوگی؟شاید کوئی ایسا اعتراف جو ’’آزادی ہند‘‘ میں بھی نہ ہوسکتا ہو!!ہائے ہائے مولاناابوالکلام آزاد نے جامع مسجد دہلی کے میناروں کی سرگوشی سن لی تھی، مسلمانوں نے آزادی کی جس نماز کی نیت باندھی تھی، اُس کی اذان نہ سنی۔منتشر مسلمانوں کاہندؤں سے احتراز اور آزادی پر ارتکاز نہ دیکھا۔مختار مسعود نے عجیب فقرہ لکھا: لکھتے ہوئے ابوالکلام کی پشت اور محمد حسین (آزاد)کا چہرہ قاری کی جانب ہوتا ہے‘‘۔ مسلمانان برصغیر کی تقدیر کے فیصلے کے وقت بھی ابوالکلام آزاد پشت کیے بیٹھے تھے۔ ہجوم در ہجوم کب نجوم در نجوم میں ڈھلے،شعاؤں کی ایک انجمن بنے اور بے خودِ جنوں میں ہندوستان بانٹ کر پاکستان لے گئے ، پتہ ہی نہ چلا۔ مگر اس کو پتہ تھا، صرف ایک رہنما قائدا عظم جانتے تھے۔ جو اپنی زندگی میں کبھی مصنوعی خیالات نہ پالتے تھے ۔
ڈھونگی گاندھی کو چھوڑئیے!اُن کی مصنوعی زندگی کا احوال خود گاندھی کے ساتھ طویل رفاقت رکھنے والے اندو لال یاجنک اپنی کتاب’’Gandhi As I Know Him‘‘ میں 1943 میں لکھ گئے۔ مہا تما بننے کے شوق میں جو ایک اچھے انسان کے اوصاف سے بھی محروم رہ گئے۔بقول یگانہ چنگیزی
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
جعلی تاریخ اور مصنوعی خیالات میں زندہ رکھے گئے گاندھی مگر دوسرے ہیں۔پھر بھی سروجنی نائیڈو کو اس مصنوعی زندگی کا پردہ چاک کرنا پڑا۔ گاندھی ریل گاڑی کے تیسرے درجے میں سفر کرتے ، مگر اول درجے سے بڑھ کر سہولتوں کا اہتمام کیا جاتا ، پھر اُن کی مصنوعی سادگی کا ڈھول پیٹنے کے لیے پرستاروں کا ایک ہجوم بھی ساتھ رکھا جاتا۔ بلبلِ ہند سے رہا نہ گیا تو بولیں:گاندھی جی کو غریب رکھنے پر قوم کو بہت خرچ کرنا پڑتا ہے‘‘۔قائدِ اعظم ایک مختلف آدمی تھے، بہت ہی مختلف، ریا سے پاک۔ زندگی جن پر خود مہربان ہوجاتی ہے۔ قائداعظم کو جب ریل کے تیسرے درجے میں سفر کے لیے کہا گیا تو انکار کردیا ۔اپنے سفر پر گاندھی کی مانند قومی دولت کے بجائے ذاتی پیسہ صرف کرنے والے قائد نے کہا:مجھے اپنی طرزِ زندگی کے تعین کا پورا اختیار ہے‘‘۔قائد اپنی زندگی گزارتے تھے، اس لیے اِسے بسر بھی خود کرتے تھے۔ یہ خود اعتمادی مصنوعی خیالات سے پاک ایک بے ریا زندگی میں ہی میسر آسکتی ہے۔ یہ اعتماد انفرادی سطح پر اُن کے مکمل طرزِ زندگی میں جھلکتا تھا،اور اجتماعی زندگی میں پاکستان بن کر متشکل ہوا۔ بیچارے گاندھی کے قائداعظم لکھنے سے کیا ہوتا ہے؟ابوالکلام آزاد نے یہ غلط لکھا : مسٹر جناح کے لیے سب سے پہلے قائدا عظم یعنی بہت بڑے قائد کے خطاب کو رواج دیا‘‘۔ قائداعظم کے خطاب نے خود محمد علی جناح کا انتخاب کیا تھا۔ وگرنہ تاریخ کو ٹٹولیے خود مولانا ابوالکلام آزاد کے لیے بھی ایک وقت میں ’’قائدا عظم‘‘ کے لقب کو رواج دینے کی کوشش کی گئی، مگر ناکام ہوئی۔مسلمان اپنا ذہن گاندھی سے نہیں بناتے تھے، البتہ کانگریسی مسلم رہنماؤں کے متعلق نہیں کہا جاسکتا۔ یہ قائد اعظم تھے، جب بمبئی میں ایمپائر ٹھیٹر سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر گاندھی کہا تو مجمع کے ایک حصے نے اِصرار کیا کہ اُنہیں گاندھی نہیں’’ مہاتما گاندھی‘‘ کہا جائے تو قائد نے انکار کردیا۔ آدمی اپنے گردوپیش سے بے نیاز ہو، اور تاریخ کا قبلہ اُس کی جانب ہو، ایسا شخص کسی مصنوعی خیال کا قیدی نہیں ہوسکتا، وہ کسی مصلحت کا نقاب نہیں اوڑھ سکتا۔ گاندھی چاہتے تھے، قائدا عظم ’’پیر سابر متی‘‘(گاندھی ) کے آشرم میں تشریف لاکر اُن سے ملیں۔قائداعظم نے انکار کردیا۔ تب گاندھی نے خط لکھ کر اُن سے ممبئی میں اُن کے گھر پر ملاقات چاہی۔ یہ وقت تھا جب مسلمان کانگریس کو اپنے پاؤں کی ٹھوکر پر رکھنے کوتیار ہوگئے تھے۔ مسلم لیگ اب مسلمانوں کی توجہ کا مرکز بن رہی تھی۔ گاندھی کی سوچ واضح تھی، مسلمانوں کو کانگریس کے کھونٹے سے باندھے رکھا جائے۔تاریخ یہاں یہ سوال کیوں مرتب نہیں کرتی کہ کیایہ کوئی دانا آدمی تھا جو اس خواہش کی تکمیل قائداعظم کے ذریعے کرانا چاہتا تھا؟گاندھی اپریل 1938ء میں ساڑھے تین گھنٹے تک تنہائی میں قائداعظم کو آمادہ کرتے رہے اور مایوس اُٹھے۔ملاقات کا حال خود گاندھی کے جواہر لال نہرو کے نام خط سے پتہ چلتا ہے:میں کام کررہا ہوں، مگر یہ خیال میرے لیے تکلیف دہ ہے کہ میں نے خود پر وہ اعتماد کھو دیا ہے جو ایک ماہ پہلے تک مجھ میں تھا‘‘۔ایک گاندھی پر کیا موقوف، قائداعظم نے تب برصغیر کے ہر مخالف رہنما پر اپنا یہی نقش چھوڑا۔
ماونٹ بیٹن کا حال بھی مختلف نہ تھا۔ تقسیم کے ابتدائی دنوں کے تعصبات سے آزاد ماحول میں قیام پاکستان کے 36برسوں بعد لیری کولنز اور ڈومینک لیپری نے آخری وائسرائے اور بھارت کے پہلے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا انٹرویو کیااور اس سے تقسیم ہند کو روکنے کی کوششوں کی ناکامی پر بات کی تو ماؤنٹ بیٹن نے اعتراف کیا : میں نے محسوس کیا جب تک یہ شخص زندہ ہے، کچھ بھی نہیں کیاجاسکتا،
دوسروں کو قائل کیا جاسکتا ہے۔ ساری طاقت اس شخص ہی کے پاس ہے اور اِس شخصِ واحد نے ویسا ہی کیا‘‘۔ اتنا ہی نہیں انٹرویو میں وہ آگے تسلیم کرتا ہے ’’میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں جناح کے سامنے ناکام ہو گیا‘‘۔
تاریخ ساز لوگ تصورات کے کبھی قیدی نہیں ہوتے، وہ مصنوعی خیالات کی آویزش میں نہیں پڑتے۔ ایک صاف ستھری زندگی شعار کرتے ہیں۔ کوئی چھوٹا آدمی اُسے اپنی قامت پر قیاس کرتا ہے، تو کچھ اور نہیں آسمان پر تھوکتا ہے۔ سیاسی ثقافت میں خاندانی کثافت چھپانے والے مکروہ چہرے ، ہنڈولے کی طرح ڈولتے خاندانی کردار، عشرت کی نفسیات کے ساتھ بدعنوانی حیات کرنے والے کم قامت لوگوں کا یہ مسئلہ ہے کہ وہ آسمان کو چھونے والے عظیم لوگوں کو اپنی سطح پر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔مولانا رومؒ نے ایسے ہی لوگوں کے لیے کہاتھا کہ ریشم کا کیڑا ریشم میں اور تعفن کا کیڑا تعفن میں ہی رہتا ہے‘‘۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے گاندھی تک سب کو اپنے آگے ناکام کرنے والے اوربرصغیر کی قسمت کو اپنے ہاتھ کی لکیروں میں لے کر جینے والے کے لیے یہ کون سا مشکل تھا کہ وہ ایک لفظ ’’سیکولر‘‘ نہ استعمال کر پاتے۔ عوامی مطالبے کے باوجود گاندھی کو مہاتما نہ کہنے والے ، اِصرار کے باوجودریل کے تیسرے درجے میں سفر نہ کرنے والے قائد کے لیے یہ کون سا مشکل تھا کہ وہ کسی لبرل زندگی کی حمایت کر جاتے۔
تقسیم ہند کا پورا غلغہ ہی مذہبی بنیاد رکھتا تھا ۔ برصغیر کی پوری سیاست کا سانچہ بھی اسی سے تیار ہوا۔ لکیر کے دونوں طرف جو لوگ تھے، اُن کی تمام لفظیات اسی سے برآمد ہوئیں۔ جب قائدا عظم ابھی مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک پر پورا شرح صدر نہ رکھتے تھے اور برصغیر کی سیاست میں مسلمانوں کے لیے مخصوص قیادت کی ذمہ داری کی تلاش علامہ اقبالؒ ایسے جلیل القدر مفکرین کو پیش آئندہ حالات کی روشنی میں پریشان کیے رکھتی تھی، تب بھی قائدا عظم کو ’’ہندو مسلم اتحاد ‘‘کے سفیر کے طور پر پکارا گیا۔کیا یہاں قدیم وجدید یا سیکولر رہنما کی کوئی اصطلاح وضع نہ کی جاسکتی تھی۔ معاملہ دو مذاہب کے ماننے والوں کا تھا، چنانچہ اصطلاح بھی وہیں سے آئی۔ قائد نے مقدمہ بھی مسلمانوں کی سیکولر زندگی کا نہیں ، بلکہ مذہبی تشخص کا لڑا۔مسلمانوں کو مذہب پر نیوٹرل (سیکولر) رکھ کر ہندو مذہب کے غلبے کے ساتھ سیاسی اقتدار میں شریک کرنے کے لیے ہندو تب تیار تھے۔ برصغیر کی سیاست کا سارا مقدمہ ہندو برہمن کے خلاف مختلف مذہبی اکائیوں کی مذہبی آزادیوں کے حقوق کاتھا۔ اس کے لیے اب تاریخ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ آج کے بھارت کو کھنگال لیں۔ وہاں ہر روز پاکستان کے مذہبی جواز برآمد ہوتے رہتے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ نئی اکائیوں کی جدوجہد میں بھی کہیں پر’’ سیکولر‘‘جدوجہد کی کوئی اصطلاح سنائی نہیںدیتی ۔آج بھی نہیں، کیونکہ ہندوستان میں برہمن اپنے غلبے کی ساری توجیہات ثقافت کی سطح پر اُتر کر بھی اپنے مذہب سے ہی کرتے ہیں۔اور اس کے مقابلے میں ’’سیکولر ‘‘ لفظ کسی جدوجہد پر اُکساتا ہی نہیں یہ چند سر پھروں کی عیاشیوں ، بے ہودگیوں اور بدعنوانیوں کے خوامخواہ جوا زکی ضرورت ہے۔ انسان اپنے حقیقی تصور ِآزادی کا شرف یہاں سے لاہی نہیں سکتا۔البتہ آسمان پر تھوکنے والوں کی بات دوسری ہے۔
٭٭٭