... loading ...
دوستو،کورونا وائرس اگرچہ تمام عمر کے لوگوں کو لاحق ہوتا ہے تاہم اس کی شدت کا انحصار عمر، جنس اور صحت سمیت کئی دیگر عوامل پر ہوتا ہے۔ جنس کے حوالے سے کئی تحقیقات میں سائنسدان یہ انکشاف بھی کر چکے ہیں کہ یہ وائرس خواتین کو کم لاحق ہوتا ہے اور ان میں اس کی شدت کی شرح بھی کم پائی گئی ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق ان تحقیقات میں سائنسدانوں نے اس کی مختلف وجوہات بیان کی ہیں۔ ایک وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ خواتین میں ایسے پروٹینز زیادہ پائے جاتے ہیں جو کورونا وائرس سے ان کو مردوں کے مقابلے میں زیادہ محفوظ رکھتے ہیں۔یونیورسٹی آف البرٹا کے سائنسدانوں کی ایک ٹیم کا کہنا ہے کہ خواتین میں اے سی ای 2ری سیپٹرزکی تعداد مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ چونکہ یہ ری سیپٹرز کورونا وائرس کے خلیوں میں داخل ہونے اور اپنی تعداد بڑھانے کے حوالے سے انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں چنانچہ خواتین میں ان کی تعداد زیادہ ہونا انہیں وائرس سے مردوں کے مقابلے میں زیادہ محفوظ رکھ رہا ہے۔ سائنسدانوں نے اس کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی ہے کہ خواتین میں ایک اضافی ایکس کروموسوم پایا جاتا ہے جو انہیں کورونا وائرس سے بچاتا ہے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے سائنسدانوں نے اپنی تحقیق میں یہ دعویٰ کر رکھا ہے کہ خواتین ارتقائی لحاظ سے مردوں کی نسبت مختلف نفسیاتی عادات کی مالک ہوتی ہیں اور یہی عادات انہیں کورونا وائرس سے زیادہ محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ خواتین میں اپنا خیال رکھنے کی جبلت زیادہ پائی جاتی ہے۔ وہ ہاتھ زیادہ دھوتی ہیں اور دیگر اسی نوع کی عادات ایسی ہیں جو مردوں میں کم پائی جاتی ہیں۔اس کے علاوہ مرد خواتین کے مقابلے میں اپنے ٹیسٹ کروانے میں بھی زیادہ غفلت برتتے ہیں۔ یہ عادات مردوں کو کورونا وائرس کا زیادہ شکار بنا رہی ہیں۔
گزشتہ ہفتے برازیل کے صدر جائر بولسونارو کی جانب سے دنیا بھر میں بنائی جانے والی کورونا وائرس کی ویکسین کے حوالے سے دلچسپ بیان سامنے آیا ہے، انہوں نے ویکسین کو دنیا کے لیے بڑا خطرہ قرار دے دیا۔ غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق برازیلین صدر کا کہنا ہے کہ اس ویکیسن کے لگانے سے انسان مگرمچھ میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ انھوں نے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ فائزر-بائیو این ٹیک کی اس دوا کے لگانے سے خواتین کی داڑھی نکل کر آسکتی ہے۔ واضح رہے کہ رواں برس جب یہ وبا سامنے آئی تو جائر بولسونارو نے اسے صرف ایک معمولی زکام قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ برازیل میں کورونا ویکسین کے ٹیکوں کی مہم کے باوجود وہ خود کو اس ویکسین کا ٹیکہ نہیں لگوائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ۔۔ہم کسی بھی طرح کے سائیڈ ایفیکٹس کے ذمہ دار نہیں ہوں گے، اگر آپ مگرمچھ بن جائیں تو یہ آپ کا قصور ہے۔واضح رہے کہ فائزر سے کورونا کی ویکسینیشن کا سلسلہ برازیل میں جاری ہے جبکہ اس دوا کا تجربہ امریکا اور برطانیا میں بھی کیا جاچکا ہے۔ برازیلین صدر کا کہنا تھا کہ اگر آپ سپر ہیومن بن جائیں، یا اگر کوئی عورت اپنے چہرے پر داڑھی اگوالے اور ایک آدمی مختلف آواز میں بولنا شروع ہوجائے تو اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہے۔ اپنے ملک میں مہم سے متعلق انھوں نے کہا تھا کہ یہ ویکسین بالکل فری ہے، لیکن یہ ضروری نہیں ہے۔
شاید برازیلین صدر کے بیان سے متاثر ہوکر ایک شہری نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیس کردیا۔۔حکومت کو کورونا ویکسین کی خریداری سے روکنے کے لیے وکیل درخواست گزار نے ویکسین سے متعلق ایک صفحے پر نقشے کی صورت میں تفصیلات عدالت میں پیش کردیں،وکیل نے کہاکہ ویکسین کے ذریعے ہمارے جسم میں سور اور بندر کا ڈی این اے ڈالا جائے گا،عدالت نے درخواست گزار کے دلائل سننے کے بعد درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ اسلام آبادہائیکورٹ میں حکومت کو کورونا ویکسین خریداری سے روکنے کی درخواست پر سماعت،شہری طارق کھوکھر کی درخواست پر سماعت جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کی۔ جسٹس میاں گل حسن نے کہاکہ ویکسین میں کوئی مسئلہ ہے تو آپ ویکسین نہ لگوائیں؟،وکیل درخواست گزار نے کہاکہ نہیں لگوائیں گے تو کہیں بھی ٹریول نہیں کر سکیں گے، اس ویکسین سے لوگوں کی اموات ہوں گی اوروہ کورونا میں ڈال دیں گے۔وکیل درخواست گزار نے ویکسین سے متعلق ایک صفحے پر نقشے کی صورت میں تفصیلات عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ۔۔ ویکسین کے ذریعے ہمارے جسم میں سور اور بندر کا ڈی این اے ڈالا جائے گا،عدالت نے درخواست گزار وکیل سے استفسار کیاکہ وہ صرف ہمیں بندر بنائیں گے؟،وکیل طارق نے کہاکہ نہیں، یہ دنیا بھر میں ایسا ہی ہو گا ہم تو بالکل ہی ان کے غلام ہوں گے، اس وقت گویابطور قوم ہم سب حوالات میں ہیں آئندہ جیل میں ہوں گے۔
لاہور ہائی کورٹ نے اپنی نوعیت کی منفرد درخواست دائر کرنے پر شہری کو کڑی سزا دے دی، شہری کا مؤقف تھا کہ ملک میں کورونا وائرس نام کی کوئی بیماری نہیں ہے۔عدالت نے دعوی مسترد کرتے ہوئے شہری پر 2 لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا۔ لاہور ہائیکورٹ میں ملک میں کورونا وائرس نہ ہونے کا دعویٰ کرنے سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی، سماعت کے بعد عدالت نے اسے غیر ضروری قرار دے کر مسترد کر تے ہوئے دعویٰ کرنے والے شہری پر 2لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا۔درخواست گزار نے کہا کہ کورونا بہت سنگین ہوچکا ہے، جواب میں عدالت نے کہا کہ آپ تو کہتے ہیں کہ ملک میں کورونا وائرس ہی نہیں ہے، جس پر درخواست گزار کا کہنا تھا کہ پاکستان میں لاکھوں لوگ ہرسال ملیریا سے مرجاتے ہیں۔عدالت نے درخواست گزار سے کہا کہ آپ کیا چاہتے ہیں کہ ملیریا کا علاج نہ کرائیں؟ جج نے شہری کو متنبہ کیا کہ آپ کورونا وائرس کے نہ ہونے سے متعلق دلائل دیں۔درخواست گزار کا کہنا تھا کہ یہ تمام نشانیاں اور بیماریاں زمانہ جاہلیت کی ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ مجھے اصل بات بتائیں آئیں بائیں شائیں نہ کریں۔آپ کوئی اتھارٹی نہیں ہیں، عدالت کیلئے اتھارٹی کا بیان مستند ہوتا ہے کیونکہ ڈاکٹر کی ملیریا رپورٹ کو لوگ مانیں گے ہائی کورٹ جج کے کہنے پر نہیں۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔’’حوصلہ کبھی مت ہارو، کامیابی کا دن دُور نہیں۔‘‘ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔