وجود

... loading ...

وجود

مولانا فضل الرحمان اور ہواکا جھونکا

جمعرات 24 دسمبر 2020 مولانا فضل الرحمان اور ہواکا جھونکا

جمعیت علمائے اسلام میں داخلی انتشار کی کھڑکی کھل گئی۔ عقیدت کا بہاؤاور نظم وضبط کا رچاؤ اس کی ایک پہچان ہے، مگر اب نہیں۔ مولانا فضل الرحمان وقت کے دائرے میں تاریخ کا وہی وار سہہ رہے ہیں جو کبھی وہ دوسروں پر کرتے تھے۔ مولانا خان محمد شیرانی کا موقف نک سک سے غلط ہی ہو، مگر مولانا فضل الرحمان کے لیے ایک چیلنج تو پیدا ہوگیا۔ بلوچستان سے مولانا شیرانی اس طرح گونجے ہیں کہ ’’مولانا فضل الرحمان خود ایک سلیکٹڈ ہیں‘‘۔ اتنا ہی نہیں، اُن کے الزامات میں ایک تحقیر بھی ہے۔ اُنہوں نے جے یوآئی کے دھرنے سے لے کر استعفیٰ مہم تک ہر معاملے کو مشکوک بنا دیا۔ سرگوشیاںہیں کہ جے یوآئی کی صفوں میں بھی مولاناشیرانی کے اس موقف کی ایک حمایت موجود ہے۔ مولانا شیرانی کی گُچھے اور لچھے دار گفتگو کو سلجھائیں تو دو، سِرے ہاتھ آتے ہیں۔ اسرائیل کی حمایت اور مولانا فضل الرحمان کی مخالفت۔ مگر اس سے بھی بڑھ کر دو شاندار تبصرے بھی۔

کون نہیں جانتا، مولانا فضل الرحمان کا سیاسی وجود تعقل پسندی، عملیت پسندی اور افادیت پسندی کا جاندار وشاندار شاہکار ہے۔ اُن کے سیاسی تناظر میں فیصلہ سازی کے لیے صحیح و غلط کم اور مفید ونقصان دہ کا گوشوارہ زیادہ غالب رہتا ہے۔ وہ مواقع کو مجسم کرنے کی اپنی حیرت انگیز صلاحیت پر مخالفین کو بھی مرعوب رکھتے ہیں۔ اب اُنہیں مولانا شیرانی کا سامنا ہے۔ مگر نہیں، اُنہیں اپنے ہی طرز ِفکر سے باانداز دِگر واسطہ آ پڑا ہے۔ مولانا شیرانی اب جے یو آئی کی صفوں سے شاید گم کردیے جائیں، مگر اس سے قبل اُنہیں’’برداشت‘‘ (یہ لفظ خود مولانا نے اپنے ردِ عمل میں اُن کے لیے استعمال کیا) کیا جاتا رہا۔اگرچہ اُن کے تصورات میں موجود خامیاں اور فاش غلطیاں ہمیشہ سے عریاں رہیں۔ وہ ماضی میں امریکا کی افغانستان میں جارحیت پر لب کشائی سے گریزاں رہے۔ اُنہوںنے طالبان کے امیر المومنین ملاعمرؒ کے خلاف عجیب و غریب سوالات اُٹھائے۔اب وہ اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے موقف کی حمایت میں اردو نیوز جدہ کو انٹرویو دے رہے ہیں، جہاں سے مشرق وسطیٰ کے مختلف حامی ممالک کو اسرائیل تسلیم کرنے کی مہم کی درِ پردہ سرپرستی کی جارہی ہے۔کیا قیامت ہے کہ عالمِ اسلام کے سینے میں خنجر کی طرح پیوست اسرائیل کے ناپاک وجود کو عالم تمام کی سب سے مقدس سرزمین سے مادہ پرست اور جدیدیت پسند حکمران بادشاہوں کی حمایت میسر آگئی ہے۔مولانا شیرانی نے اسے عالمِ عرب کا مسئلہ قرار دے دیا۔یوں مولانا شیرانی کے الفاظ کی بازگشت میں ایک مرتبہ پھر تقسیمِ ہند سے قبل کے مسئلہ قومیت کا جن نئے سرے سے بوتل سے باہر نکلا ہے۔ مسلمانانِ برصغیر نے آٹھ دہائیوں قبل اپنا ’’ورڈویو‘‘ طے کرتے ہوئے قوم کی تشکیل کا وطنی تصور اسلامی نظریے پر اُٹھایا تھا۔ اللہ حکیم الامت اشرف علی تھانویؒ، مولانا قاری محمد طیبؒ، مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ اور مولانا مودودیؒ کی قبروں کو نور سے منور کردیں۔ جن کے مذہبی شعور نے مسلمانوں کی ایسی سیاسی تربیت کی جو قائداعظم ؒ کے دوقومی نظریے میں وطن کے بت کو پاش پاش کرتا ہے۔ اب مولانا شیرانی کا ارشاد ہے کہ یہ عربوں کا مسئلہ ہے۔ ہائے یہ عالمِ اسلام !!!

مولانا فضل الرحمان مگر اس نوع کے موقف بھی برداشت کرتے رہے، اُنہوں نے مولانا شیرانی کو تب نظرانداز کیا جب وہ سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین بن گئے۔ حالانکہ متحدہ مجلس عمل کا فیصلہ یہ تھا کہ پرویز مشرف کی مرکزی حکومت میں ایم ایم اے کوئی عہدہ قبول نہیں کرے گی۔ مولانا شیرانی سے تب کوئی باز پرس نہ کی گئی جب وہ حافظ حسین احمد کو ٹکٹ دینے کی راہ میں رکاؤٹ بنے۔ مولانا شیرانی بلوچستان میں جے یوآئی کی پارلیمانی قوت پر اپنی مضبوط گرفت رکھتے تھے ، سو مولانا فضل الرحمان کی عملیت پسندی نے اُنہیں روکے رکھا۔ یہاں تک کہ مولانا شیرانی کے خلاف بغاوت ہوئی اور جے یوآئی کے اندر جمعیت علمائے اسلام نظریاتی کا ایک دھڑا وجود میں آگیا۔ مگر اب مولانا شیرانی نے کسی اور کو نہیں خود مولانا فضل الرحمان اور اُن کی حالیہ پوری سیاست کو اپنے نشانے پر لے لیا ہے۔ مولانا شیرانی نے جے یو آئی کے 31؍ اکتوبر سے 13؍ نومبر 2019 تک کے تیرہ روزہ دھرنے کے متعلق یہ سوال اُٹھا دیا کہ اس کی منظوری مولانا فضل الرحمان نے بہت بعد میں مجلسِ شوریٰ سے لی اور یہ ایک لاحاصل مشق تھی۔ اُنہوں نے پی ڈی ایم کی جانب سے نئے دھرنے کے اعلان کو بھی اسی نوع کی ایک مشق قرار دیا۔ مولانا شیرانی نے مولانا فضل الرحمان کی امارات پر بھی سوال اُٹھایا ہے۔ مولانا شیرانی کے خیالات کبھی لائقِ توجہ نہ تھے، مگر اُن کا علم الکلام جہاں سے برآمد ہوا ہے، وہ خود جے یوآئی کی قیادت کی جانب سے اپنی ہی جماعت میں متعارف کرائی گئی موقع پرستی کی ثقافت ہے۔ مولانا شیرانی کے دو شاندار تبصروں سے اس کو سمجھتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان ان دنوں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر تمام جماعتوں کو اجتماعی استعفوں کے لیے تیار کررہے ہیں۔ مولانا شیرانی نے اس استعفیٰ مہم کے غبارے سے یہ کہہ کر ہوا نکالی ہے کہ ’’استعفے نقد چیز ہیں اور نقد چیز پھینک کر ادھار کی امید پر بیٹھنا کوئی دانائی کی بات نہیں‘‘۔ یہ چمکتا دمکتا فقرہ مولانا فضل الرحمان سمیت مکمل جے یو آئی کی سیاست کی کل شریعت ہے، جس پر یہ خشوع وخضوع سے کاربند رہے ہیں۔ متحدہ مجلس عمل کے سنہری دور میںجب جنرل مشرف کی وعدہ خلافی پر خیبر پختونخواہ کی اسمبلی سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا گیا تو یہ جے یوآئی ہی تھی جس نے استعفیٰ نہیں دیا۔ تب مولانا فضل الرحمان نے قاضی حسین احمد کو فرمایا تھا: میںجن علماء کو حجروں سے باہر نکال کر اسمبلیوں میں لے آیا ہوں، اُنہیں واپس حجروں میںکیسے لے جاؤں‘‘۔تب جے یو آئی کے رہنما اِٹھلاتے ہوئے فرمایا کرتے:سیاست میں استعفے نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی‘‘۔ مولانا شیرانی کا دوسرا تبصرہ زیادہ گہرا ہے۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ وہ مولانا فضل الرحمان کی سیاسی حکمت عملی پر کیونکر سوال اُٹھا سکتے ہیں جبکہ وہ اپنی کامیاب سیاست سے اب دس جماعتی پی ڈی ایم کی سربراہی کررہے ہیں۔اس پر مولانا شیرانی نے کہا کہ کوثر نیازی کی کتاب ’’اور لائن کٹ گئی‘‘ پڑھ لیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو اپنے خلاف قائم سیاسی اتحاد پی این اے کے سربراہ کسی بھی دوسرے رہنما کے بجائے مفتی محمود کو دیکھنا چاہتے تھے،تاکہ وہ بھٹو کی پرکشش شخصیت کے مقابلے میں عوام کے لیے زیادہ باعثِ کشش دکھائی نہ دیں۔ بھٹو کی اسی نفسیات سے اس کے گھناؤنے نتائج نکلے، بھٹو اپنے انجام کو پہنچے اور مفتی محمود اپنی قبر میں سرخرو اُترے۔ مگر بھٹو کی اس ذہنیت کو مولانا خان شیرانی نے مولانا فضل الرحمان کی پی ڈی ایم کی سربراہی کو مشکوک بنانے کے لیے استعمال کیا۔ پاکستان کی دھوکا دہی کی تاریخ میں مولانا شیرانی کے اس حوالے نے مولانا فضل الرحمان کے وقار کے ساتھ جو کھلواڑ کیا ہے، اس کا اندازا بھی نہیں لگایا جا سکتا۔ مگر اس کا کیا کِیا جائے کہ خود جے یوآئی کی جس نوع کی اُٹھان کی گئی اسی نے یہ موقع فراہم کیاہے۔ جب رہنماؤں کو عملیت پسندی، افادیت پسندی اور جاہ پسندی کی بنیاد پر اُٹھایا جائے گا تو وہی اُن کی ترجیح بھی ہوگا۔ اُن سے برآمد بھی یہی کچھ ہوگا۔رہنماؤں کی اہمیت سمجھنے کے لیے علمائے کرام مناقب الانصار کی اُس طویل حدیث کو سامنے رکھیں، جس میں حضرت ابو بکر صدیقؓ سے ایک عورت کے سوال کا ذکر ہے، خاتون نے پوچھا:دین کا معاملہ کب تک درست رہے گا؟خلیفہ اول نے فرمایا:تم لوگ دینِ صحیح پر تب تک قائم رہو گے، جب تک تمہارے رہنما درست رہیں گے‘‘۔

اگر گستاخی معاف کی جاسکے تو جے یو آئی کی قیادت کی خدمت میںامام غزالیؒ کی کتاب ’’نصیحتہ الملوک‘‘ سے وہ حکایت بھی پیش کردی جائے ، جو تاریخ کے دوام میں کردار کی اہمیت کو اجاگر کرتی رہے گی۔ حضرتِ سلیمان ؑ اپنے تخت پر جلوہ افروز تھے، جب ہوا کا ایک جھونکا آیا اور اُنہیں اوپر اڑا لے گیا، حضرت سلیمان ؑ نے اپنی مملکت پر نظر ڈالی،ان کے دل میں غرور کا ذرا سا تاثر پیدا ہوا، جنات ،پریاں ، پرندے اور انسان اُن کے فرماں بردار تھے۔اپنی طاقت کے اس احساس میں تھے کہ تخت لڑکھڑانے لگا۔تب حضرت سلیمان ؑ نے فرمایا: اے تخت سیدھا رہ۔تخت نے جواب دیا:اپنے آپ کو سیدھا رکھ تاکہ میں سیدھا رہوں‘‘۔ حضرت سلیمان ؑ کو جو تجربہ ہوا وہ ہوا کے ایک جھونکے کی بدولت تھا۔ مولانا خان شیرانی کہیں مولانا فضل الرحمان کے لیے وہی ہوا کا جھونکا تو نہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر