... loading ...
دوستو،ایک خبر کے مطابق تحریک انصاف کی ایم پی اے میڈم ساجدہ کے شوہر نوید سیلانی کے ساتھ کرپشن کی وجہ سے اندرونی اختلافات سامنے آ گئے، ایم پی اے میڈم ساجدہ نے طلاق کے لیے عدالت میں خلع کیس دائر کر دیا،مقامی عدالت نے شوہر نوید سیلانی کو 24 دسمبر کو طلب کر لیا،ساجدہ نوید کے مطابق شوہر نوید سیلانی کی کرپشن کی وجہ سے مجبوراً خلع لینے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ وزیر اعظم عمران خان کا وژن ہی کرپشن فری پاکستان ہے،ذرائع کے مطابق چند ماہ قبل تحریک انصاف کی ایم پی اے میڈم ساجدہ نے اپنے سابق خاوند یوسف سے طلاق لیکر چیف آفیسر دیپالپور نوید سیلانی کے ساتھ شادی کی تھی۔۔
کرپشن دیمک کی طرح اس ملک میں اپنی جگہ بناچکی ہے۔۔ ہم اکثر اپنے اردگرد موجود کرپٹ لوگوں کو ’’کرپشنــ‘‘ کی جگہ ’’کر ۔آپشن‘‘ کا مشورہ دیتے ہیں۔۔یعنی کرپشن چھوڑو اور کسی آپشن کو اپناؤ کیوں کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ۔۔رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔۔ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا،آپ احباب کو یاد ہوگا کہ قومی اسمبلی میں حکومتی جماعت کے ایک ہندو رکن نے شراب پر پابندی کے خلاف قرارداد پیش کرنے کی کوشش کی تو اپوزیشن تو اپوزیشن خود حکومتی ارکان نے اس کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ ہندو رکن قومی اسمبلی کا مذاق بھی اڑایا۔۔جمہوریت کا بھیانک حسن یہ نظر آیا کہ جس نے شراب پینی ہے وہ پیتا رہے گا، جس نے نہیں پینی وہ نہیں پیئے گا۔۔ اس سے پہلے پچھلی حکومتوں میں کہاجاتا رہا کہ سود جس نے لینا ہے وہ لے اور جس نہیں لینا وہ نہ لے ۔۔اگر انہی فارمولوں کو مدنظر رکھا جائے، ارکان اسمبلی کے ان دلائل کو مان لیا جائے تو پھر ،جس نے چوری کرنی ہے وہ کرتا رہے گا اور جس نے نہیں کرنی وہ نہیں کرے گا۔جس نے ریپ کرنا ہے وہ کرتا رہے گا اور جس نے نہیں کرنا وہ نہیں کرے گا۔ جس نے کرپشن کرنی ہے وہ کرتا رہے گا جس دن نہیں کرنی ہو نہیں کرے گا۔ جس نے عورت پر تیزاب پھینکنا ہے وہ پھینکتا رہے گا جس نے نہیں پھینکنا وہ نہیں پھینکے گا۔جس نے جہاد کرنا ہے وہ کرتا رہے گا اور جس نے نہیں کرنا وہ نہیں کرے گا۔ پھر ان چیزوں کے بارے میں قانون کیوں بنایاگیا؟پولیس ، اینٹی کرپشن، ایف آئی اے، نیب کے محکمے کیوں بنائے گئے؟کمائی اور دھندوں کے سارے مراکز بند کیے جائیں اور سب کچھ عوام کی پسند ناپسند پر چھوڑ دیا جائے۔۔۔
ؓٓبات ہورہی تھی، تحریک انصاف کی خاتون ایم پی اے کی ، جو اپنے شوہر کی کرپشن سے تنگ آکر عدالت سے خلع لینے کے لیے چلی گئیں۔۔ویسے دیکھا جائے تو ہمارے ملک میںشرح ’’ خواندگی‘‘ سے زیادہ شرح ’’ خاوندگی‘‘ پائی جاتی ہے۔۔معاشرے سے ناراض ہرنوجوان کی زبان پر یہی شکوہ نظر آتا ہے کہ اس ملک میں جہالت کوٹ کوٹ کربھری ہے۔۔جہاں لکھا ہو، یہاں پان تھوکنا منع ہے، وہیں دیواریں لال نظر آتی ہیں۔۔جہاں پیشاب کرنے سے منع کیا گیا ہوتا ہے وہیں لوگ قطاریں لگاکربیٹھے نظر آتے ہیں۔۔ ہوٹلوں پر سختی سے لگاہوتا ہے کہ یہاں پر سیاسی گفتگو کرنا منع ہے لیکن ہر بندے کا ایشو سیاست ہوتا ہے۔۔اسی کے پاس لکھا ہوتا ہے،فالتو بیٹھ کر اپنا قیمتی ٹائم برباد نہ کریں اور درجنوں لوگ ’’ویلے‘‘ بیٹھے گپیں ہانک رہے ہوتے ہیں۔سڑکوں پر بنے گھروں کے مالکان اپنی دیواروں پر بڑا بڑا لکھتے ہیں کہ دیواروں پر اشتہاربازی منع ہے لیکن پھر بھی کسی عامل کامل،دواخانے یا کسی سیاسی لیڈر کی آزادی کا نعرہ درج ہوہی جاتا ہے۔۔ ایک صاحب نے ایک زمین پر قبضہ کیااور سوچنے لگے کہ کس طرح ثابت کیا جائے کہ قبضہ کی ہوئی زمین پر بنایا گیا گھر بہت پرانا ہے، انہیں کسی ’’ذہین‘‘ دوست نے مشورہ دیا کہ، اپنے گھر کی دیوار پر نعرہ لکھ دو۔۔ قائد اعظم کو رہا کرو۔۔ سب کو پتہ لگ جائے گا کہ تمہارا گھر قیام پاکستان سے بھی پہلے کا تعمیرشدہ ہے۔۔
ہمارے ایک دوست ہم سے کہنے لگے،عمران بھائی میں تو ایسی لڑکی کو بیوی بنانے کا سوچ رہا ہوں، جو بہت خوب صورت ہو، فرمانبردار ہو، اسمارٹ ہو، خوش گلو ہو، لمبے بال ہوں،کتابی چہرہ ہو، میری بات سنے اور اور۔۔۔ ہم نے اس کی بات کاٹی اور کہا۔۔ ایسی لڑکی کو بیوی نہیں ’’وہم‘‘ کہتے ہیں دوست۔۔کوئی بتارہا تھا کہ بیویاں دوقسم کی ہوتی ہیں۔۔ ایک وہ جو کہنا مانیں،خوش رہیں اور شوہر کا خیال رکھیں۔۔اور دوسری وہ جو سب کے پاس ہیں ۔۔ہمارے پیارے دوست کہتے ہیں۔۔بہت سی بیویاں نگلیریا جیسی ہوتی ہیں، شوہروں کا بھیجہ کھاجاتی ہیں۔۔وہ مزید فرماتے ہیں۔جو لڑکے شادی کے لیے موٹی لڑکیوں کو انکار کر دیتے ہیں ان کی بیویاں شادی کے ایک سال بعد ہی موٹی ہو جاتی ہیں۔۔آج کے مرد، دو ہی جگہ اداس ہوتے ہیں، بیوی کے سامنے یا پھر آئینے کے سامنے۔ یہ الگ بات ہے کہ بیوی کے سامنے مسکراتے رہنے کی مشق کرنی پڑتی ہے جب کہ آئینے کے سامنے پوز دینے کی۔۔سوفیصد درست بات ہے کہ مردحضرات گھر پرصرف دو سبب سے ہی خوش ہوسکتے ہیں، 1بیوی نئی ہو،2گھر پرنہیں ہو۔۔اور یہ بھی کڑوا سچ ہے کہ ہر بیوی کسی مختلف پھل کی طرح ہوتی ہے، مگر مرد تو فروٹ چاٹ پسند کرتے ہیں۔ہمارے دوست شادی کے لیے لڑکی کی تلاش میں تھے ، پوچھا کیسی لڑکی چاہیئے؟ کہنے لگے ، لڑکی عزت کرنے والی ہو، ’’بزتی ‘‘تو امی روز ہی کرتی ہیں۔۔ہم نے کہا ایک لڑکی ہماری نظر میں ہے، اچھی ہے، خوب صورت ہے، سلیقہ شعار ہے،خاندانی ہے، پڑھی لکھی ہے۔۔ یہ سن کر ہمارے دوست کی بانچھیں کھل گئیں۔ کہنے لگے بس بس ٹھیک ہے میں تیار ہوں۔۔ ہم نے پھر کہا آگے بھی سنو، وہ ’’بی کام‘‘ بھی ہے۔۔ کہنے لگے۔۔ بھائی قوم کوئی سی بھی مجھے تو شادی کرنی ہے۔۔
اب حالات حاضرہ کے حوالے سے باباجی کی کچھ باتیں ہوجائیں۔۔باباجی فرماتے ہیں۔۔ سردیاں شدت اختیار کرتی جارہی ہیں، اپنا خیال رکھیئے کیوں کہ آنسو پونچھنے والے تو مل جاتے ہیں، ناک پونچھنے والا کوئی نہیں ملتا۔۔باباجی نے معصومانہ سوال پوچھا ہے کہ۔۔یہ جو عامل حضرات محبوب کو قدموں میں لانے کا دعویٰ کرتے ہیں ،یہ لوگ چلغوزے سستے کراسکتے ہیں کیا؟؟ ۔۔باباجی کافی پریشان نظر آئے ، پوچھنے پر کہنے لگے۔۔اس ملک میں غربت خطرے کی آخری حدوں کو چھورہی ہے۔۔ہمیں حیرت ہوئی،بے ساختہ پوچھ لیا، وہ کیسے؟؟ کہنے لگے۔۔گھر کے گیٹ پر دو گملے رکھے تھے کوئی انہیں رات کو لے گیا۔۔صبح اٹھ کر بائیک پر تین کلومیٹر دور ایک معروف بیکری سے ناشتے کا سامان لینے گیا تھا۔۔واپسی پر دیکھا،کسی کو ہیلمٹ پسند آگیا تھا وہ لے گیا۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ زندگی، محبت اور انا کی ایک نہ ختم ہونے والی کشمکش اور تضاد کا آئینہ ہے۔ محبت ہمیشہ معاف کرنے اور انا دوسروں سے معافی منگوانے کی طلب گار ہوتی ہے۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔