... loading ...
ایلیٹ ایکرمین
میں نے ہومر کی رزمیہ نظم The Iliad اپنے ہائی ا سکول کے زمانے میں پڑھی تھی۔ میری ٹیچر نے اس کا ترجمہ مجھے دیا تھا، جس کے کور پیج پر چھپی تصویر میں ڈی ڈے پر امریکی فوجی اوماہا بیچ پر ایک جہاز سے باہر نکل رہے تھے۔ کم عمری کی وجہ سے مجھے اس وقت تو اس کی کوئی خاص سمجھ نہ لگ سکی اور ایکلیز کے غصے، ہیکٹر کی موت اور کالے پیندے والے بحری جہازوں میں بیٹھے یونانیوں کا جنگ عظیم دوم سے کچھ لینا دینا بھی نہیں تھا۔ کئی سال بعد خود دو جنگیں لڑنے کے بعد کور پیج پرچھپی تصویر میرے ذہن میں ایک نئے انداز میں گھومنے لگی۔ اگر ایلیڈ کے اصل متن کے مطابق قدیم یونانی اپنی جنگیں اسی طرح لڑا کرتے تھے (سکندر اعظم کے بارے میں مشہور تھا کہ اپنی جنگی مہمات کے دوران وہ ایلیڈ اپنے تکیے کے نیچے رکھ کر سویا کرتا تھا) تو جنگ عظیم دوم نے ہماری سوسائٹی کے ساتھ بھی وہی کام کیا ہے کہ جنگ کے بارے میں ہماری توقعات کو ہمارے لیے امریکی ایلیڈ بنا دیا ہے۔ ہم ابھی تک اچھا بننے کے چکر میں ہیں۔ ہم یہ توقع کر رہے ہیں کہ اس کا ایک آغاز‘ عروج اور پھر انجام بھی ہو۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جنگ اس وقت ختم ہوتی ہے جب فوجی اپنے گھروں میں پہنچ جائیں مگر ہماری یہ آخری توقع کہ جنگ اسی وقت اپنے انجام کو پہنچتی ہے جب سارے فوجی اپنے اپنے گھروں میں آ جائیں‘ کبھی پوری نہیں ہو سکی۔ نہ جنگ عظیم دوم میں اور نہ ہی آج۔
جو بائیڈن کی نئی حکومت کو ورثے میں ملنے والے سنگین چیلنجز میں سے صرف یہی نہیں ہو گا کہ افغانستان میں لڑی جانے والی طویل جنگ کو ختم کیا جائے بلکہ انہیں یہ بھی طے کرنا ہو گا کہ جنگ کے خاتمے سے ان کی کیا مراد ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نئے صدر جو بائیڈن کو طالبان کے ساتھ نامکمل امن مذاکرات اور فوجیوں کی تعداد میں کمی کا تحفہ دیں گے مگر جو بائیڈن کے لیے سب سے بڑا چیلنج اس پبلک کا سامنا کرنا ہو گا جو نہ صرف اپنے فوجیوں کی واپسی کی امیدیں لگائے بیٹھی ہے بلکہ عوام سمجھتے ہیں کہ جنگ حقیقت میں اسی وقت ختم ہوتی ہے جب سارے فوجی واپس اپنے گھروں کو آ جائیں۔ اگر ہمارا ہدف افغانستان سے تمام فوجیوں کو واپس لانا ہے تو ہمیں یقین رکھنا چاہئے کہ یہ جنگ ابھی کئی سال تک جاری رہے گی اور اسے نہ صرف امریکا کی طویل ترین بلکہ امریکا کی دائمی جنگ کا اعزاز بھی حاصل ہو گا۔
اس وقت مغربی یورپ میں امریکا کے چالیس ہزار فوجی متعین ہیں اور ان کی تعیناتی کی وجہ سے ان ممالک کے عوام کی ایک نسل کو امن نصیب ہوا ہے جہاں دوسری جنگ عظیم لڑی گئی تھی۔ ہم نے جنوبی کوریا میں بھی اپنے تیس ہزار فوجی اس مقصد کے تحت بٹھا رکھے ہیں تاکہ عشروں سے انتشار کے شکار اس خطے میں بھی امن اور استحکام برقرار رکھا جا سکے۔ تشدد کے اکا دکا واقعات کے باوجود کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس خطے میں ہونے والی جنگیں ابھی تک جاری ہیں۔ لوگوں کی اکثریت یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو گی کہ وہاں ہماری موجودگی علاقائی استحکام کے لیے بڑی مفید ثابت ہوئی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف دنیا بلکہ امریکا بھی پہلے سے زیادہ محفوظ اور پہلے سے خوشحال ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان کے حالات مغربی یورپ اور مشرقی ایشیا سے کہیں زیادہ پْرخطر ہیں مگر حالیہ برسوں کے دوران وہاں متعین امریکی فوجی نسبتاً محفوظ رہے ہیں۔ اس سال وہاں صرف چار امریکی فوجی مارے گئے مگر 2020ء کے ایک سال میں صرف کیمپ پینڈلٹن میں ٹریننگ کے دوران اس سے کہیں زیادہ فوجی اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ بلاشبہ 2015ء سے ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ کے دوران ٹریننگ حادثات میں مرنے والوں کی تعداد دنیا بھر کی جنگوں میں ہونے والی اموات کی تعداد سے بڑھ چکی ہے۔
میں نے یہ نکتہ اس لیے نہیں اٹھایا کہ میں جنگوں میں مارے جانے والے لوگوں کے بارے میں کوئی سخت رویہ رکھتا ہوں بلکہ میں اس تناظر میں بات کر رہا ہوں تاکہ اس حوالے سے کوئی ٹھوس پالیسی وضع کی جائے۔ 2020ء والا افغانستان کسی طرح بھی2009ء والا افغانستان نہیں ہے‘ جہاں ایک وقت تھا کہ ہم ایک جنگ جیتنے کے لیے لڑ رہے تھے مگر آج ہم وہاں ایک پائیدار امن کے قیام کے لیے جنگ کر رہے ہیں۔ یہی وہ فرق ہے جو صدر بائیڈن نے پورے ملک میں برقرار اور واضح رکھنا ہے۔ پہلے یہ جملہ کچھ یوں بولا جاتا تھا ’’افغانستان میں جاری امریکی جنگ‘‘ مگر اب یہ بدل کر ’’افغانستان میں مقیم امریکی فوجی‘‘ ہو گیا ہے۔
صدر بائیڈن کو اس پہلو پر زور دینا چاہئے کہ کس طرح افغانستان میں ہماری موجودگی سے امن قائم کرنے کے ساتھ ساتھ امریکی مفادات کا تحفظ بھی یقینی بنایا جائے۔ انہیں ان حالات کی بھی وضاحت کرنی چاہئے جن کی وجہ سے افغانستان میں امریکی فوجیوں کے لیے صورت حال بالکل تبدیل ہو چکی ہے اور امریکی فوجی اس وقت وہاں جو کچھ کر رہے ہیں وہ ایک عشرہ پہلے لڑی جانے والی جنگ سے یکسر مختلف ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اب ہمارے لیے افغان جنگ ختم ہو چکی ہے۔
جو بائیڈن کا تعلق ایک فوجی خاندان سے ہے۔ بائیڈن ملٹری سروس میں تھے تو عراق میں متعین رہے اور وہ اپنی فیملی ا سٹوری کا بنیادی حصہ رہے ہیں۔ صدر بائیڈن بھی یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ایک دائمی جنگ کی نفسیات بڑی معنی خیز ہوتی ہے‘ خاص طور پر سینئر اور بزرگ فوجیوں اور ان کی فیملیز کے لیے‘ جنہوں نے کسی ایسے تنازعے کے خاتمے کے لیے بھرپو رکوشش بھی کی ہو جو نہ صرف ان فوجیوں بلکہ تمام امریکیوں کی زندگیوں کی قیمت پر ہمیشہ پس منظر میں سلگتا رہتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے برعکس جب تمام سینئر فوجیوں کا گھر واپسی پر ایک پریڈ کے ذریعے استقبال کیا جاتا تھا یا ویتنام جنگ کے بعد سائیگان خالی کرنے کے دل دہلا دینے والے مناظر نے ان سینئر فوجیوں کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اس ڈرائونے خواب کے خاتمے کا اعلان کر سکیں مگر ہمارے عہد کے ان سینئر فوجیوں کو ایسا کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔ صدر جو بائیڈن فی الحال امریکی قوم کو متحد کرنے کا نعرہ لگا رہے ہیں اور یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ وقت اپنے ملک کو لگے زخم بھرنے کا ہے۔ شاید جب وہ صدارت کا باقاعدہ منصب سنبھال لیں گے تو ابتدائی مرحلے پر وہ کچھ دیر کے لیے رکیں اور پوری قوم کے زخموں پر مرہم رکھنے سے پہلے سینئر فوجیوں کے زخم سینے کی طرف بھی توجہ دیں۔
یہ ان فوجیوں کو بھی سمجھانے کا وقت ہے کہ اب وہ وقت لَد چکا ہے، اب انہیں ایک دائمی جنگ کی حالت میں نہیں رہنا پڑے گا۔ آج افغانستان بھیجے جانے والے فوجیوں کو بھی یہ بتانے کا وقت آ گیا ہے کہ اب وہ وہاں کوئی جنگ لڑنے نہیں بلکہ امن کے قیام میں مدد کرنے کے لیے جا رہے ہیں۔ اور کون جانتا ہے کہ اگر اس مسئلے سے صحیح انداز سے نمٹا گیا تو یہ ہمارے اپنے گھر میں جاری دائمی جنگ کے خاتمے کی طرف پہلا قدم ثابت ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔