وجود

... loading ...

وجود

’لوجہاد‘ پر مودی حکومت کے دوہرے پیمانے

منگل 22 دسمبر 2020 ’لوجہاد‘ پر مودی حکومت کے دوہرے پیمانے

بھارت کے سب سے بڑے صوبے اترپردیش میں ’ لوجہاد‘ کے خلاف جو نیا قانون وجود میں آیا ہے، اس کے تحت صرف مسلمانوں کوہی نشانہ بنایا جارہا ہے۔حالانکہ بی جے پی یہ کہتی ہے کہ وہ مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ کوئی بھید بھائو نہیں کرتی اور سب کو ایک ہی نظر سے دیکھتی ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ بی جے پی کے اقتدار میں مسلمانوں کو دوئم درجے کا شہری بنانے اور انھیں دیوار سے لگانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جارہا ہے۔یوں تو جب سے مرکز میں بی جے پی مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے ،تب سے مسلمانوں کا جینا حرام کرنے کے ہزار بہانے ایجاد کیے گئے ہیں۔ مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے لیے نئے نئے قانون وجود میں آرہے ہیں۔ اس کا تازہ ترین ثبوت نام نہاد ’لوجہاد‘ کے خلاف یوپی میں لایا گیا وہ آرڈی نینس ہے جس میں تبدیلی مذہب کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے بین مذاہب شادیوں کو قابل سزا جرم قرار دے دیا گیاہے۔ جس وقت اس قسم کا قانون بنانے کی باتیں ہورہی تھیں ، تبھی یہ کہا گیا تھا کہ اس کے ذریعہ صرف مسلمانوں کو ہی ہراساں کیا جائے گا، کیونکہ ’ لوجہاد‘ کی اصطلاح مسلمانوں کو نظر میں رکھ کر ہی ایجاد کی گئی ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ بین مذاہب شادیوں کو روکنے کے لیے یوپی میں جودستورمخالف آرڈی نینس لایا گیا ہے، اس میں کہیں’ لوجہاد‘ کا ذکر نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی حکومت کے پاس اس کے کوئی اعداد وشمار موجود ہیں۔ دراصل اس قانون کا بنیادی مقصد کسی بھی صورت میں مسلم نوجوانوں کوہندولڑکیوں سے شادی کرنے سے باز رکھنا ہے۔حالانکہ نئے آرڈی نینس میں مسلمانوں کی ہندولڑکیوں سے اور ہندولڑکوں کی مسلمان لڑکیوں سے شادیاں روکنے کی بات کہی گئی ہے ، لیکن اس معاملے میں یوپی پولیس صرف ان مسلمان لڑکوں کے خلاف ہی کارروائی کررہی ہے جو ہندو لڑکیوں سے شادیاں کررہے ہیں اور جو ہندو لڑکے مسلمان لڑکیوں کو اپنے جال میں پھانس رہے ہیں ، ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جارہی ہے۔ اس کا ثبوت گزشتہ ہفتہ کے دوواقعات سے ملتا ہے۔

یوپی پولیس نے نئے آرڈی نینس کے تحت اب تک چھ کیس رجسٹر کیے ہیں اور دس لوگوں کی گرفتاری عمل میں آئی ہے۔ لیکن اس معاملے میں چوبیس گھنٹوں کے اندر روشنی میں آنے والے دوکیسوں کا مطالعہ کرنے سے صورتحال پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ پولیس کس طرح اس آرڈی نینس کو صرف مسلمانوں کے خلاف استعمال کررہی ہے۔گزشتہ ہفتہ بریلی پولیس نے ایک مسلمان باپ کی اس شکایت پر کوئی کارروائی نہیں کی کہ ایک ہندو نوجوان نے اس کی بیٹی کے ساتھ زبردستی اس کا مذہب تبدیل کرکے شادی کرلی ہے۔ پولیس نے کہا کہ اسے پتہ چلا ہے کہ یہ شادی گزشتہ ستمبر کے مہینے میں اس آرڈی نینس کے وجود میں آنے سے پہلے ہوئی تھی۔اس لیے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ لیکن اس کے برعکس پولیس نے مرادآباد میں ایک مسلم نوجوان کو اس وقت گرفتار کرکے جیل بھیج دیا جب وہ گزشتہ جولائی میں ہوئی اپنی شادی رجسٹر کرانے کچہری آیا تھا۔ اس مسلم نوجوان نے ایک ہندو لڑکی مسکان سے اس کی مرضی کے مطابق شادی کی تھی اوراس لڑکی نے اپنا مرضی سے مذہب تبدیل کیا تھا ، لیکن پولیس نے اسے غیرقانونی تبدیلی مذہب اور شادی کا کیس بناکر لڑکے اور اس کے بھائی کو جیل بھیج دیا جبکہ لڑکی کو شیلٹر ہوم بھیج دیا گیا جہاں انتہاپسند ہندو تنظیموں کے نوجوانوں نے اس کے ساتھ دھکامکی کرکے اس کا حمل ضائع کرانے کی کوشش کی۔ لڑکی اس وقت سخت تکلیف میں ہے اور وہ اپنی سسرال چلی گئی ہے۔

اصولی اور قانونی طور پر ’لوجہادقانون ‘ کا نفاذان سبھی لوگوں پر ہو جو شادی کے لیے مذہب تبدیل کریں، لیکن اس قانون کو پوری بے شرمی کے ساتھ صرف مسلمانوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیاجارہا ہے۔ یعنی اگر کوئی مسلمان لڑکا کسی ہندو لڑکی سے شادی کرتا ہے تو اس کے خلاف پوری سرکاری مشینری سرگرم ہوجاتی ہے اور اسے فوری طور پر جیل بھیج دیا جاتا ہے اور اگر کوئی ہندو لڑکا کسی مسلمان لڑکی سے شادی رچاتا ہے تو اس کے ساتھ نرمی کا سلوک کیا جاتا ہے اور اس معاملے میں نئے آرڈی نینس کو استعمال میں نہیں لایا جاتا۔ اتنا ہی نہیں جارحیت پسند ہندو تنظیموں کی شکایت پر اب ایسی شادیوں کو بھی روکنے کی کوششیں کی جارہی ہیں جن میں دولہا دلہن دونوں مسلمان ہیں۔گزشتہ ہفتہ اترپردیش کے کشی نگر علاقہ میں ایسی ہی ایک شادی کو پولیس نے ہندو یووا واہنی کی شکایت پر روک دیا جس میں لڑکی اور لڑکا دونوں ہی مسلمان تھے۔ ہندو یووا واہنی اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی قائم کی ہوئی ایک ایسی جارحیت پسند تنظیم ہے جس نے مغربی یوپی میں مسلمانوں کا جینا حرام کررکھا ہے۔ اس تنظیم کو اب بھی وزیراعلیٰ کا ’’ آشیرواد‘‘ حاصل ہے، اس لیے پولیس اور سرکاری مشینری اس کو ایک مساوی سرکارکے طور پر دیکھتی ہے۔

اترپردیش کا کشی نگر علاقہ ہندو یوا واہنی کی سرگرمیوں کا خاص مرکز ہے اور یہاں اس کی مساوی حکومت قائم ہے۔اسی کشی نگر میں گزشتہ یکم دسمبر کوواہنی کے کارکنوں نے پولیس کو اطلاع دی کہ ایک مسلمان لڑکا ہندو لڑکی کا مذہب تبدیل کرکے اس کے ساتھ شادی رچا رہا ہے۔ پولیس فوراً حرکت میں آگئی اور اس نے آناً فاناً دولہا حیدر علی کو گرفتار کرلیااور اسے تھانے میں لے جاکر چمڑے کی بیلٹ سے بری طرح پیٹا اور ٹارچر کیا۔ یہ جانے بغیر کہ اصل معاملہ کیا ہے ، پولیس کی یہ حرکت اس کے فرقہ وارانہ کردار ہی کو اجاگر کرتی ہے۔حیدرعلی کی شادی شبیلہ خاتون کے ساتھ ہورہی تھی۔ دولہا اور دلہن دونوں پیدائشی مسلمان تھے ، لیکن انھیں ’لوجہاد‘ کا مجرم بناکر یہ شادی روک دی گئی۔پولیس نے اس کا الزام ’شرپسندوں‘ کے سرڈال کر اپنی گردن بچانے کی کوشش کی ہے۔ کاسیہ پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ اوکا کہنا ہے کہ شرپسندوں نے ’ لوجہاد‘ کی افواہ اڑادی تھی۔ انھوں نے دولہا اور دلہن کو چھوڑ دیا ہے کیونکہ دونوں ہی بالغ تھے اور ایک ہی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ علاقہ کے سی او پیوش کانت راج کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں فوری ایکشن لینے کی وجہ یہ تھی کہ ’’ ماحول بہت کشیدہ ہے اور اس قسم کے معاملات میں انتظامیہ سخت ایکشن لینے کے لیے مجبور ہے۔

‘‘
یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ ماحول کو کشیدہ بنانے کا کام کون کررہا ہے اور اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے اس قانون کے نفاذ کی تمام ذمہ داری انتہا پسند ہندو تنظیموں کے کاندھوں پر ڈال دی ہے۔ پولیس اس معاملے میں قانون کی پاسداری سے زیادہ ان تنظیموں کے احکامات کی تعمیل کررہی ہے اورکھلے عام قانون کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔’لوجہاد‘ مخالف قانون کا نفاذ28نومبر2020کو ہوا تھا اور اس کی رو سے جو واقعہ اس تاریخ کے بعد پیش آیا ہے اس پر ہی قانون نافذ ہوسکتا ہے ،لیکن اس معاملے میں گڑھے مردے اکھاڑنے کی کوشش کی جارہی ہے اور برسوں پرانی شادیوں کی کھوج بین کی جارہی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اترپردیش میں نظم ونسق کی مشینری پوری طرح زعفرانی ہوگئی ہے اور اس نے دستور اور قانون کو پس پشت ڈال دیا ہے۔قابل ذکربات یہ ہے کہ یوپی سرکار کی ان دستور مخالف کارروائیوں کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں مشہور سماجی کارکن ٹیسٹا سیتلواڑ نے مفاد عامہ کی ایک عرضی داخل کرکے کہا ہے کہ’’ لوجہاد ایک خام خیالی ہے جسے عام لوگوں کے لیے مصیبت بنادیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اکیسویں صدی کے ہندوستان میںاس قسم کے قانون کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ قانون نجی رازداری ، خودمختاری اور مساوات پر حملہ ہے۔ عرضی میں لاء کمیشن کی اس رپورٹ کا بھی حوالہ دیا گیا ہے کہ ’لوجہاد ‘کا اب تک کوئی کیس سامنے نہیں آیا ہے۔ عرضی میں بین الاقوامی قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ لوجہاد کے نام پر جو قانون بنایا گیا ہے وہ ہندوستان میں کثرت میں وحدت کے تصور کے بھی خلاف ہے۔ یہ دراصل مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی کوشش ہے۔ مفاد عامہ کی عرضی میں اس قانون کو خارج کرنے کا مطالبہ کیاگیا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ دستور کی بنیادی روح کے خلاف لائے گئے اس آرڈی نینس پرسپریم کورٹ جلدازجلد کوئی فیصلہ لے کیونکہ اس کی آڑ میں بنیادی انسانی حقوق اور بنیادی آزادی کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیںاور اترپردیش کے بعد بی جے پی اقتدار والے دیگر صوبوں میں بھی اس ظالمانہ قانون کو حتمی شکل دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر