وجود

... loading ...

وجود

گوادر کا نیا تنازع

جمعرات 17 دسمبر 2020 گوادر کا نیا تنازع

پاکستان جمہوری تحریک ( پی ڈی ایم ) میں شامل جمعیت علماء اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے ارکان مزید خود کو ایوانوں سے وابستہ نہیں رکھیں گے۔ عوامی نیشنل پارٹی صوبے کی مخلوط حکومت کا حصہ ہے ۔جس کی صوبائی قیادت کہہ چکی ندیہ دے چکی ہے ،کہ مرکزی قیادت طلب کرے گی تو استعفے بھیج دیں گے ۔ البتہ پارٹی کے پارلیمانی ارکان کا تذبذب بھی عیاں ہے۔ نواب اسلم رئیسانی اسمبلی میں آزاد رُکن ہیں۔ وہ پی ڈی ایم کے ہمراہ اسمبلی رکنیت سے مستعفی ہونے کا مؤقف رکھتے ہیں۔پی ڈی ایم نے استعفوں کے لیے31دسمبر کی تاریخ مقرر کر رکھی ہے ۔جمعیت علماء اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے اراکین سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلی نے اپنے استعفے قیادت کے پاس فوری جمع کرا دیے ہیں ۔ اگر جنوری یا فروری میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا جاتا ہے تو شاید اسمبلیوں سے استعفوں کا آپشن بھی قابل عمل بنایا جائے۔جماعت اسلامی بھی بعض مواقعوں پر قرار دے چکی ہے کہ اگر حزب اختلاف کی جماعتیں اسمبلیوں سے مستعفی ہوتی ہیں تو وہ بھی استعفا دینے میں دیر نہیں کرے گی۔ جماعت اسلامی حکومت مخالف احتجاج کررہی ہے۔ مگر اسے مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے حوالے سے گہرے تحفظات ہیں۔ جس کا اظہار جماعت اسلامی ہر جلسے و مظاہرے میں متواتر کرتی ہے۔ یقینا مخالف فضاء نے وفاقی حکومت کو بے چین و مضطرب کیے رکھا ہے۔ مخالفین کو پیچھے ہٹانے کی خاطر مختلف حربے استعمال کرچکی ہے، مزید بھی سوچ رہی ہے۔ مقدمات قائم کرنے کے لیے12دسمبر کو وفاقی کابینہ نے ہنگامی طور پر ترمیم کی منظوری دیدی ۔ قومی احتساب بیورو الگ متحرک ہے۔ وفاقی حکومت نے سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مسلح جتھوں پر پابندی کا مراسلہ جاری کیا ہے۔ یقینا مسلح جتھے وجود رکھتے ہیں۔قبائلی و سیاسی شخصیات اسی طرح اسمبلیوں اور حکومتوں سے وابستہ شخصیات بھی جتھوں کی حامل ہیں۔ ایسے مسلح گروہ بھی ہیں جنہیں اداروں کی سرپرستی حاصل ہے ۔جو قانون شکنی اور مختلف جرائم میں ملوث ہیں۔ البتہ اشارہ اگرجمعیت علماء اسلام کی انصار السلام کی طرف ہے تو یہ کوئی عسکری جتھہ ہر گز نہیں ہے۔ انصار الاسلام رضا کار تنظیم ہے اور جے یو آئی کی دستور کا حصہ ہے جو جماعتی اجتماعات، جلسوں اور مظاہروں کی سیکورٹی کے فرائض نبھاتی ہے،نظم و نسق برقرار رکھتی ہے۔ اس سے بڑ ھ کر ان رضا کاروں کا کوئی مقصد اور کام نہیں ہے۔

غرض بلوچستان کے اندر سیاسی جماعتیں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی زیادتیوں کے خلاف بہت سارے دلائل رکھتی ہیں ۔ ایسے میں ساحلی شہر گوادر میں آہنی باڑ کی تنصیب کا منصو بہ نیا تنازع بنا ہے ۔ اس بارے بلوچستان کی سیاسی جماعتوں، عوامی و سماجی حلقوں نے گہری تشویش ظاہر کی ہے۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل ، نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور دیگر جماعتوں کا سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔ آمدہ معلومات کے مطابق 24مربع کلومیٹر باڑ سیکورٹی کے پیش نظر لگائی جارہی ہے۔ خار دار تاروں پر مشتمل یہ باڑ شہری علاقوں میں لگائی جارہی ہے۔ جس کے بعد شہر میں داخل ہونے کے لیے دو یا تین مقامات پر گیٹ تعمیر کیے جائیں گے۔ یہ اقدام گوادر سیف سٹی پراجیکٹ کا حصہ ہے۔پرجیکٹ پر دو حصوں میں کام کیا جا ئے گا۔ پہلے مرحلے پر ایک ارب47کروڑ روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔اس منصوبے کے تحت 500جدید کیمرے ڈیڑھ سو مقامات پر لگائے جائیں گے یہ کیمرے تاریکی میں دیکھنے اور گاڑیوں کی نمبر پلیٹ پہچاننے کی صلاحیت کے حامل ہوں گے۔ گوادر بندرگاہ پاکستان اور چین اقتصادی راہداری منصوبوں کی بناء پر حفاظتی بندوبست کی یقینا متقاضی ہے ۔ ماضی میں اس شہر میں کئی نا خوشگوار واقعات پیش آچکے ہیں ۔ چین کے تعاون سے پورٹ کی بڑھتی ترقی کے بعد اس شہر اور متصل علاقوں کی حساسیت مزید بڑھ گئی ہے۔ پاک بحریہ جدید ڈرون، ایئر کرافٹس اور ہتھیاروں سے لیس ٹاسک 88کے نام سے الگ یونٹ2016ء میں قائم کرچکی ہے۔ معروضی حقائق و ضروریات کے باوجود ساحلی پٹی کے عوام کے مفادات اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں۔ گوادر اور ساحلی علاقوں کے بارے میں بلوچ سیاسی جماعتیں سالوں سے تحفظات کا اظہار کرتی آرہی ہیں ۔چناں چہ فینسنگ حل بھی نہیں ہے۔ وہ اس لیے کہ گوادر کی دیہی و شہری آبادی اور پورٹ منسلک ہیں ۔اب اگر عمل درآمد کیا جاتا ہے توشہر اول دو حصوں میں تقسیم ہوجائے گا دوئم لوگ اپنے خاندان، قرابت داروں اور زرعی زمینوں سے کٹ جائیں گے۔ گویا آئندہ دنوں شہریوں کے لیے مزید مشکلات خارج از امکان نہیں ہیں۔

لوگوں نے پورٹ کے قیام کے پیش نظر بڑے پیمانے پر رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کار ی کر رکھی ہے۔ بیشتر اسکیمیں باڑ سے باہر رہ جائیں گی۔ اس طرح ان کی زمینیں اور تعمیراتی اسکیموں کی قیمتیں بھی یقینی طور گر جائیں گی۔ چناں چہ حالیہ باڑ لگانے کے ضمن میں عوام کے مفادات کے برعکس پیشرفت حکومت اور سیکورٹی اداروں کے لیے مشکلات پیدا کرسکتی ہیں ۔ اب حکومت کے ذمہ ہے کہ وہ ساحلی علاقوں کے عوام ، سیاسی و سماجی حلقوں کو باور کرائے کہ انہیں اپنی جدی پشتی وطن اور اراضیات سے مختلف انداز و طریقوں سے بے دخل نہیں کیا جائے گا۔سیاسی جماعتیں آواز ضرور بلند کریں گی ۔پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے بھی احتجاج ہوا۔ لاہور کے جلسہ میں بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے اس پر بات کی ہے۔ قرارداد بھی منظور کی گئی جس میں باڑ ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا۔ نیشنل پارٹی کے نائب صدر سینیٹر کبیر محمد شہی اور جنرل سیکریٹری جان محمد بلیدی نے جمعرات10دسمبر کوکوئٹہ میں پریس کانفرنس میں گوادر کو بلوچستان سے الگ کرنے کی سازش کا آغاز کہا ہے ۔کہ ساحلی شہر کو وفاق کے تصرف میں دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔بلوچستان کی وکلاء تنظیموں بلوچستان بار کونسل ، کوئٹہ بارایسوسی ایشن نے 12دسمبر کو باڑ لگانے کے فیصلے کو گوادر شہر کی تقسیم کی سازش قرار دیا۔اور اسے عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا۔ وکلاء کے مطابق گوادر شہر کے اندر پہلے سے ہی عوام کی سیکورٹی گیٹ سے انٹری ہوتی ہے۔جس کے بعد باڑ لگانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے۔ ان کے مطابق اس اقدام سے لوگوں کے آزادانہ رابطوں اور بنیادی حقوق نظر انداز ہو رہے ہیں۔ اور یہ عمل بلوچستان کی ساحلی پٹی کو وفاق میں شامل کرنے کی کوششوں کا تسلسل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خواتین کا عالمی دن مسرت اور سیمل کی یاد وجود جمعرات 28 نومبر 2024
خواتین کا عالمی دن مسرت اور سیمل کی یاد

ہندوتوا کا ایجنڈا، مسلمان اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ وجود جمعرات 28 نومبر 2024
ہندوتوا کا ایجنڈا، مسلمان اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ

دریائے سندھ پر مزید کینالوں کی تعمیر ، سندھ کے پانی پر ڈاکہ! وجود جمعرات 28 نومبر 2024
دریائے سندھ پر مزید کینالوں کی تعمیر ، سندھ کے پانی پر ڈاکہ!

روس اور امریکامیں کشیدگی وجود بدھ 27 نومبر 2024
روس اور امریکامیں کشیدگی

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا! وجود بدھ 27 نومبر 2024
تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر