... loading ...
پاکستان جمہوری تحریک ( پی ڈی ایم ) میں شامل جمعیت علماء اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے ارکان مزید خود کو ایوانوں سے وابستہ نہیں رکھیں گے۔ عوامی نیشنل پارٹی صوبے کی مخلوط حکومت کا حصہ ہے ۔جس کی صوبائی قیادت کہہ چکی ندیہ دے چکی ہے ،کہ مرکزی قیادت طلب کرے گی تو استعفے بھیج دیں گے ۔ البتہ پارٹی کے پارلیمانی ارکان کا تذبذب بھی عیاں ہے۔ نواب اسلم رئیسانی اسمبلی میں آزاد رُکن ہیں۔ وہ پی ڈی ایم کے ہمراہ اسمبلی رکنیت سے مستعفی ہونے کا مؤقف رکھتے ہیں۔پی ڈی ایم نے استعفوں کے لیے31دسمبر کی تاریخ مقرر کر رکھی ہے ۔جمعیت علماء اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے اراکین سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلی نے اپنے استعفے قیادت کے پاس فوری جمع کرا دیے ہیں ۔ اگر جنوری یا فروری میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا جاتا ہے تو شاید اسمبلیوں سے استعفوں کا آپشن بھی قابل عمل بنایا جائے۔جماعت اسلامی بھی بعض مواقعوں پر قرار دے چکی ہے کہ اگر حزب اختلاف کی جماعتیں اسمبلیوں سے مستعفی ہوتی ہیں تو وہ بھی استعفا دینے میں دیر نہیں کرے گی۔ جماعت اسلامی حکومت مخالف احتجاج کررہی ہے۔ مگر اسے مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے حوالے سے گہرے تحفظات ہیں۔ جس کا اظہار جماعت اسلامی ہر جلسے و مظاہرے میں متواتر کرتی ہے۔ یقینا مخالف فضاء نے وفاقی حکومت کو بے چین و مضطرب کیے رکھا ہے۔ مخالفین کو پیچھے ہٹانے کی خاطر مختلف حربے استعمال کرچکی ہے، مزید بھی سوچ رہی ہے۔ مقدمات قائم کرنے کے لیے12دسمبر کو وفاقی کابینہ نے ہنگامی طور پر ترمیم کی منظوری دیدی ۔ قومی احتساب بیورو الگ متحرک ہے۔ وفاقی حکومت نے سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مسلح جتھوں پر پابندی کا مراسلہ جاری کیا ہے۔ یقینا مسلح جتھے وجود رکھتے ہیں۔قبائلی و سیاسی شخصیات اسی طرح اسمبلیوں اور حکومتوں سے وابستہ شخصیات بھی جتھوں کی حامل ہیں۔ ایسے مسلح گروہ بھی ہیں جنہیں اداروں کی سرپرستی حاصل ہے ۔جو قانون شکنی اور مختلف جرائم میں ملوث ہیں۔ البتہ اشارہ اگرجمعیت علماء اسلام کی انصار السلام کی طرف ہے تو یہ کوئی عسکری جتھہ ہر گز نہیں ہے۔ انصار الاسلام رضا کار تنظیم ہے اور جے یو آئی کی دستور کا حصہ ہے جو جماعتی اجتماعات، جلسوں اور مظاہروں کی سیکورٹی کے فرائض نبھاتی ہے،نظم و نسق برقرار رکھتی ہے۔ اس سے بڑ ھ کر ان رضا کاروں کا کوئی مقصد اور کام نہیں ہے۔
غرض بلوچستان کے اندر سیاسی جماعتیں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی زیادتیوں کے خلاف بہت سارے دلائل رکھتی ہیں ۔ ایسے میں ساحلی شہر گوادر میں آہنی باڑ کی تنصیب کا منصو بہ نیا تنازع بنا ہے ۔ اس بارے بلوچستان کی سیاسی جماعتوں، عوامی و سماجی حلقوں نے گہری تشویش ظاہر کی ہے۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل ، نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور دیگر جماعتوں کا سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔ آمدہ معلومات کے مطابق 24مربع کلومیٹر باڑ سیکورٹی کے پیش نظر لگائی جارہی ہے۔ خار دار تاروں پر مشتمل یہ باڑ شہری علاقوں میں لگائی جارہی ہے۔ جس کے بعد شہر میں داخل ہونے کے لیے دو یا تین مقامات پر گیٹ تعمیر کیے جائیں گے۔ یہ اقدام گوادر سیف سٹی پراجیکٹ کا حصہ ہے۔پرجیکٹ پر دو حصوں میں کام کیا جا ئے گا۔ پہلے مرحلے پر ایک ارب47کروڑ روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔اس منصوبے کے تحت 500جدید کیمرے ڈیڑھ سو مقامات پر لگائے جائیں گے یہ کیمرے تاریکی میں دیکھنے اور گاڑیوں کی نمبر پلیٹ پہچاننے کی صلاحیت کے حامل ہوں گے۔ گوادر بندرگاہ پاکستان اور چین اقتصادی راہداری منصوبوں کی بناء پر حفاظتی بندوبست کی یقینا متقاضی ہے ۔ ماضی میں اس شہر میں کئی نا خوشگوار واقعات پیش آچکے ہیں ۔ چین کے تعاون سے پورٹ کی بڑھتی ترقی کے بعد اس شہر اور متصل علاقوں کی حساسیت مزید بڑھ گئی ہے۔ پاک بحریہ جدید ڈرون، ایئر کرافٹس اور ہتھیاروں سے لیس ٹاسک 88کے نام سے الگ یونٹ2016ء میں قائم کرچکی ہے۔ معروضی حقائق و ضروریات کے باوجود ساحلی پٹی کے عوام کے مفادات اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں۔ گوادر اور ساحلی علاقوں کے بارے میں بلوچ سیاسی جماعتیں سالوں سے تحفظات کا اظہار کرتی آرہی ہیں ۔چناں چہ فینسنگ حل بھی نہیں ہے۔ وہ اس لیے کہ گوادر کی دیہی و شہری آبادی اور پورٹ منسلک ہیں ۔اب اگر عمل درآمد کیا جاتا ہے توشہر اول دو حصوں میں تقسیم ہوجائے گا دوئم لوگ اپنے خاندان، قرابت داروں اور زرعی زمینوں سے کٹ جائیں گے۔ گویا آئندہ دنوں شہریوں کے لیے مزید مشکلات خارج از امکان نہیں ہیں۔
لوگوں نے پورٹ کے قیام کے پیش نظر بڑے پیمانے پر رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کار ی کر رکھی ہے۔ بیشتر اسکیمیں باڑ سے باہر رہ جائیں گی۔ اس طرح ان کی زمینیں اور تعمیراتی اسکیموں کی قیمتیں بھی یقینی طور گر جائیں گی۔ چناں چہ حالیہ باڑ لگانے کے ضمن میں عوام کے مفادات کے برعکس پیشرفت حکومت اور سیکورٹی اداروں کے لیے مشکلات پیدا کرسکتی ہیں ۔ اب حکومت کے ذمہ ہے کہ وہ ساحلی علاقوں کے عوام ، سیاسی و سماجی حلقوں کو باور کرائے کہ انہیں اپنی جدی پشتی وطن اور اراضیات سے مختلف انداز و طریقوں سے بے دخل نہیں کیا جائے گا۔سیاسی جماعتیں آواز ضرور بلند کریں گی ۔پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے بھی احتجاج ہوا۔ لاہور کے جلسہ میں بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے اس پر بات کی ہے۔ قرارداد بھی منظور کی گئی جس میں باڑ ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا۔ نیشنل پارٹی کے نائب صدر سینیٹر کبیر محمد شہی اور جنرل سیکریٹری جان محمد بلیدی نے جمعرات10دسمبر کوکوئٹہ میں پریس کانفرنس میں گوادر کو بلوچستان سے الگ کرنے کی سازش کا آغاز کہا ہے ۔کہ ساحلی شہر کو وفاق کے تصرف میں دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔بلوچستان کی وکلاء تنظیموں بلوچستان بار کونسل ، کوئٹہ بارایسوسی ایشن نے 12دسمبر کو باڑ لگانے کے فیصلے کو گوادر شہر کی تقسیم کی سازش قرار دیا۔اور اسے عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا۔ وکلاء کے مطابق گوادر شہر کے اندر پہلے سے ہی عوام کی سیکورٹی گیٹ سے انٹری ہوتی ہے۔جس کے بعد باڑ لگانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے۔ ان کے مطابق اس اقدام سے لوگوں کے آزادانہ رابطوں اور بنیادی حقوق نظر انداز ہو رہے ہیں۔ اور یہ عمل بلوچستان کی ساحلی پٹی کو وفاق میں شامل کرنے کی کوششوں کا تسلسل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔