وجود

... loading ...

وجود

بدنام کرنے کی مہم اورذمہ داران

منگل 15 دسمبر 2020 بدنام کرنے کی مہم اورذمہ داران

ملک میں اِس خبرپر مسرت ظاہر کی جارہی ہے کہ، ای یوڈس انفو لیب،نے بھارت کی مکاریوں و سازشوں پر مبنی جھوٹے پراپیگنڈے کو بے نقاب کردیا ہے مگر سوال یہ پیداہوتا ہے ہم کیا کررہے ہیںاور ہمارے اِداروں کی کیا مصروفیات ہیں؟ بھارت کی طرف سے پاکستان کو بدنام کرنے کی مُہم تو برسوں سے جاری ہے آزادی سے لیکر آج تک پاکستان کوزک پہنچانے کی کوشش میں ہے اب بھی اگر یورپی یونین کا اِدارہ بھارت کا کچا چٹا نہ کھولتا تو ہم الزامات کی تردید کے سواکچھ کرتے؟ صورتحال کے تناظر میں ہاں میں جواب دینا ممکن نہیں کیونکہ انڈین کرانیکرزکے پلیٹ فارم سے جھوٹ بولنے کی لگی مشینیں 2006سے ثابت ہوچکی ہیں مگر ہمارے کسی اِدارے نے چھان پھٹک کی زحمت نہیں کی سچ یہ ہے کہ یہ ہماری بدترین غفلت اور لاپرواہی ہے اگر کوئی ایک ہی اِدارہ دستیاب وسائل کے ساتھ گہرائی تک جا کرحقائق کھوجنے کی کوشش کرتا تو اب سے کئی برس قبل بھارتی کارستانیوں کا پردہ چاک کیا جاچکاہوتا مگر ہمارے یہاں ملازمت کا مطلب وقت گزارنا ہے اور خانگی معاشی معاملات درست کرنا ترجیح ہے ہمارے سفارتخانے پروٹوکول لینے اور اربابِ اقتدار کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اگر فرائض کی طرف توجہ دیں تو خرابیوں کی نشاندہی کے ساتھ خاتمہ کرنا ممکن ہے بشرطیکہ کوئی زمہ داری تصورکرے۔
یہ کوئی چھوٹا سا نُکتہ تو ہے نہیں جونظروں سے اوجھل رہا 750فرضی اِداروں کی طرف سے پینسٹھ ممالک میں دوسو پینسٹھ کے قریب مقامی ویب سائٹس شب ورو زپاکستان کے خلاف زہراُگلتی رہیں یہ ویب سائٹس مختلف زبانوں میں خبریں،تجزیے اور بیانات لوگوں تک پہنچا نے اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایسی ویڈیوز بنا کرتشہیرکرتیں جن سے پاکستان کا مثبت تشخص مجروح ہو لیکن ہمارے کسی اِدارے کودیکھنے کی توفیق نہیں ہوئی کہ بُرائی کا محور بھارت اپنی کارستانیوں کو چُھپا کر پُرامن ملک کے خلاف سازشوں کا جال بُن رہا ہے وزارتِ خارجہ میں بیٹھے بابوئوں کی کون سی اہم مصروفیات ہیں جو اُنھیں سازش کی پڑتال کے لیے وقت نہیں ملا ۔ہمیں یہ تسلیم کرنے میں تامل نہیں کرنا چاہیے کہ ہم سے کوتاہی ہوئی اور بھارت کو وار کرنے کا موقع ملا ۔کیا کوئی بھی زی شعور اِس حقیقت کو جھٹلا سکتا ہے کہ بھارت میں جنونیوں کی بڑی فصل تیار ہو چکی ہے جس کی وجہ سے مذہبی آزادی کا سپنا کب کا ٹوٹ چکا ہے اب تولوجہاد کے نام پر مزہب کی تبدیلی کے نام پر غیر مسلمانوں کا جینا حرام اور کبھی گائے ذبح کرنے کا الزام لگا کر خون مسلم بہایا جاتا ہیں اور کبھی ہندوتواکے نام پرعیسائیوں اور سکھوں کو زندہ جلا جاتا ہے مگر دنیا جنونی ہندوئوں کی کارستانیوں کا نوٹس نہیں لیتی امریکا جیسا ملک بھی مذہبی آزادی کے ممالک کی لسٹ جاری کرتا ہے تو بھارت کی بجائے پاکستان ہی نظرآتا ہے ظاہر ہے یہ سب ایک دن میں نہیں ہوا بلکہ طویل پراپیگنڈہ کارہین منت ہے اربابِ اقتدارکی زمہ داری حکمرانی ہی تو نہیں ملکی مفاد کا تحفظ بھی ہے لیکن یہ ماننا ہوگا کہ وہ کوتاہی کے مرتکب ہوئے ہیں اگر یہ بات غلط ہے تو کوئی یورپی نہیں بلکہ پاکستانی اِدارہ جھوٹ بولنے والی فیکٹریوں کی نشاندہی کرتا جس پر زمہ داران کو غورکرنے کی ضرورت ہے۔

جعلی ویب سائٹس نے معروف شخصیات کے نام پر جھوٹ تراشے مگر پاکستان سے کسی نے بہتان طرازی پر معروف شخصیات سے رابطہ کرنے کی زحمت نہیں کی حالانکہ رابطہ کرنے سے سچ وجھوٹ سامنے آسکتا تھا مودی کی طرف سے بنگلہ دیش جاکر مکتی باہنی کی تحریک میںبطور رضاکار شمولیت کے اعتراف سے بھی فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کی تساہل کی وجہ کیا ہے اب قوم جانناچاہتی ہے کلبھوشن جیسے موزی کو رنگے ہاتھوں گرفتار کرنے اور اعترافی بیان کے باجود دفاعی پوزیشن پر ہیںاوراِسے بھارت کے خلاف بطور ثبوت پیش کرنے سے قاصر ہیں یہ طرزِ عمل ڈروخوف کی وجہ سے ہے یا کوئی اور مجبوری ہے اب پردہ سرکاہی دیا جائے تو بہتر ہے لوٹ مارکی داستانیں رقم کرنے والے قومی مفاد سے کیونکر لاتعلق رہے کوئی جواز ہے تو پیش کریں یا پھر غفلت وکوتاہی کی ذمہ داری قبول کی جائے کیسی ستم ظریقی ہے ہمارے کرنے والے کام بھی ہم نہیں کرتے یورپی اِدارہ اپنی تحقیقات میں بھارت کی مذموم سازشوں کا پردہ چاک کرتا ہے اور اگر یورپی اِدارہ ہمارے کرنے والا کام بھی نہ کرتا تو کیا ہم آج ،کل یا مستقبل قریب میں بھارت کی چال بازیوں کو بے نقاب کر سکتے تھے ؟
2006میںفوت ہونے والے امریکی ماہرِ قانون لوئیس بی سوہن کو بھارتی ایما پر متحرک ویب سائٹس نا صرف زندہ ظاہر کرتی ہیںبلکہ دیدہ دلیری سے یو این ہیومن رائٹس کونسل کے اجلا س 2007 میں بھی شریک کروا دیتی ہیں یہ جعلی سازی یہاں تک ہی محدود نہیں رہتی 2011 میں واشنگٹن ڈی سی میں گلگت بلتستان کے حوالے سے منعقدہ اجلاس میں بھی انھیں شریک ظاہر کر دیا جاتا ہے لیکن ہمارا کوئی اِدارہ خوابِ غفلت سے بیدارنہیں ہوتا آئیے تسلیم کریں چاہے اربابِ اختیارہوں یا دیگر ذمہ داراِدارے سبھی کوتاہی کے مرتکب ہوئے ہیں ہمارے سفارتخانے بھی کوتاہ نظر ہیں وزارتِ خارجہ میں باصلاحیت نہیں نااہل اور کام چور ہیں جو چودہ برس قبل مرنے والے شخص کے نام پر ہونے والی جعلی اور من گھڑت کاروائی کی تہہ تک بھی نہ پہنچ سکے۔

پاکستان کے خلاف بھارت کی سازشیں باعثِ حیرت نہیں اور جب ہم کہتے ہیں کہ بی جے پی جیسی جنونی جماعت کی جیت اور نریندمودی جیسے سکہ بند قاتل کے وزیرِ اعظم بننے سے وطنِ عزیز کے خلاف سازشوں میں تیزی آئی ہے تو یہ سوچ ہرگز حقیقت پر مبنی نہیں کیونکہ سقوطِ ڈھاکہ ہو یا پھر پُرامن ایٹمی پروگرام کو تباہ کرنے کے ناکام منصوبے ، بی جے پی نہیں بظاہر سیکولرازم کی علمبردارکانگرس نے بنائے آزادی سے لیکرآج تک بھارت کے طول و عرض میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مُہم جاری ہے پُرتشدد ہنگاموں میں مسلم خون بہایا جارہا ہے اب اتنا فرق آیا ہے کہ نئی بھارتی حکومت نے امن پسندی کازبانی اظہارترک کردیا ہے اور دھڑلے سے ناپاک سازشوں کا اعتراف کرنے لگی ہے اور ہم منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں یاد رکھیں بھارت میں جو بھی اقتدار میں آئے283 قبل مسیح میں جنم لینے والے ٹیکسلا کے برہمن چانکیہو شنو گپت کے بتائے افکار پر عمل کرتا ہے چانکیہ کی ہدایات سے کوئی بھی انحراف کی جسارت نہیں کرتا چانکیہ نے اپنے وقت کے مہاراجہ چندرگپت موریا کو خارجہ پالیسی کے حوالے سے پتے کی باتیں بتاتے ہوئے کہا کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ اُتنی دیر امن رکھو جب تک طاقت حاصل نہ کر لو ،امن اُس وقت تک رکھو جب تک جنگ نافذ کرنے یا لڑنے کی قوت نہ ہو، جب تک لڑنے سے کچھ حاصل ہونے کی توقع نہ ہو خاموش رہو اور طاقتورسے بنا کر رکھواور اُس کی آڑ لیے رہو، اگر دشمن زیادہ ہوں تو دشمن کے دشمن سے معاہدہ کرکے کمزور کرنے کی کوشش کرو۔آج کی بھارت پالیسی دیکھ لیں آپ کو چانکیہ افکارکی پاسداری ہوتی دکھائی۔ دے گی لہذاحیران یا خفا ہونے کی بجائے سمجھ کر توڑ پردھیان دیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر