وجود

... loading ...

وجود

فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا

منگل 15 دسمبر 2020 فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا

شاید اب سوچنا محال، بات کرنا مشکل اور سمجھانا یقینا اس سے بھی مشکل مرحلہ ہے ، قحط الرجال ہے ،یا اخلاقی اقدار کے امین خال خال رہ گئے ہیں کیا زمانہ آگیاہے جو سچے ،کھرے اور بے غرض ہیں ان کی کوئی سننے کو تیارنہیں ،بات ماننے پر آمادہ نہیں لوگ لچھے دار باتیں کرنا اور سننا پسند کرتے ہیں بیشتر صاف ،ستھری کھری بات کرنے والوں سے ناراض، ناراض رہتے ہیں جیسے وہ کسی اور سیارے کی مخلوق ہوں ہر چیزپر مادیت اس قدر غالب ہے کہ لوگوں کا،چیزوں کا اور ماحول کا اصل حسن چھپ گیا ہے بات کرو تو سب تسلیم بھی کرتے ہیں ، کوئی مانے نہ مانے دل تو ضرور گواہی دیتاہے کسی لالچ ، اجریاثواب اور صلہ کی خواہش کیے بغیر انسانیت کی خدمت ہی زندگی کی علامت ہے ،کہنے والے یہی کہتے ہیںآدمیت سے انسانیت کے درمیان معمولی سا فرق ہے جس نے یہ راز جان لیا سمجھ لیجئے نسخہ ٔ کیمیا اس کے ہاتھ لگ گیااسی لیے حالی نے کہا تھا

فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا
مگراس میں لگتی ہے محنت زیادہ

لیکن کیا کیجئے ، آدمیت سے انسانیت کے درمیان معمولی سا فرق بھی اب ہمیں کوئی فرق نہیں لگتا ضمیر، احساس اور مروت کا گلہ گھونٹ کر شاید ہم نے تنزلی کو ہی ترقی کامتبادل سمجھ لیاہے اسی لیے تیزی سے تنزلی کا یہ سفر جاری ہے لیکن کسی کو مطلق احساس تک نہیں اسے اجتماعی بے حسی سے بھی تعبیر کیا جا سکتاہے اور اجتماعی خودکشی بھی۔حکومتی نمائندے، اہل ِ فکر،دانشور بالخصوص علماء کرام اساتذہ معاشرے میں بہتری کے لیے کچھ اسباب پر غور کریں لوگوںمیں حلال حرام کی تمیزاجاگرکی جائے،ہر سطح پر ظلم کے خلاف مو ٔثر تحریک چلا ئی جائے۔۔نفرتوںکے خاتمہ کے لیے محبت ،رواداری اورمذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے کچھ کیا جائے تو بہتوںکا بھلاہوگا۔ لیکن کریں کیاشاید اب سوچنا محال، بات کرنا مشکل اور سمجھانا یقینا اس سے بھی مشکل مرحلہ ہے ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ دل محبت سے خالی ہو گئے ہیں انسانیت کے ناطے ہم سب کو مروت، احساس ،اخوت،بھائی چارہ اور ایک دوسرے کی چاہت معاشرے کا لازمی جزہونا چاہیے لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ لوگ احساس سے عاری ہوتے جارہے ہیں اوردل ہیں کہ خواہشات کے قبرستان بن گئے کوئی سمجھنا ہی نہیں چاہتا کہ کسی لالچ ، اجریاثواب اور صلہ کی خواہش کیے بغیر انسانیت کی خدمت ہی زندگی کی علامت ہے ،جنوبی ایشیاء کے بیشترممالک میں غربت،دہشت گردی ،بے روزگاری،مہنگائی ،جسم فروشی اور چوری ،ڈکیتی،راہزنی دیگرمسائل کا بڑا سبب دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے جس نے مسائل در مسائل کو جنم دے کر عام آدمی کی زندگیاں تلخ بنادی ہیں ،یہ غریب ممالک جن چیلنجز سے نبرد آزما ہیں اس سے نکلنا محال ہے کیونکہ مہنگائی،بیروزگاری،غیرملکی قرضے اس کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں ان کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملکی وسائل چند خاندانوںتک محدودہوکر رہ گئے ہیں یہی لوگ اس وقت ترقی پذیرملکوںمیں عام آدمی کی تقدیرکے مالک بنے ہوئے ہیں اصلاح ِ احوال کے لیے کوئی طریقہ ہے نا سلیقہ۔لگتا ہے کسی کو اس بارے سوچنے کی کوئی فکرنہیں اچھے خاصے لوگ تنقید کے ڈر یا

بااثرلوگوںکے خوف سے تعمیری کام کرنا بھی بند کردیتے ہیں۔
کبھی کبھی ہم سوچتے رہتے ہیں اور سوچ ۔۔سوچ کر سوچتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں ظالم ا تنے طاقتور، بااثر اورصاحب ِ اختیار کیوںہیں کہ آئین اور قانون بھی ان کے سامنے بے بس رہتاہے ،اس لیے ہرروز ایک نیا سانحہ جنم لے رہاہے۔ہررات ظلم کی ان گنت کہانیاں جنم لیتی ہیں۔ہر سورج مظلوموںکے لیے نیا امتحان لے کر طلوع ہوتاہے کبھی مظلوم خودسوزی کرتے ہیں لیکن بااثر ملزمان کا کچھ نہیں بگڑتا ،الغرض سمجھ نہیں آتی ہر قسم کی سماجی قباحتوںاور عجیب رسم و رواجوں اور برائیوںمیں جکڑا یہ معاشرہ کب سدھرے گا؟ جنوبی ایشیاء ہو افریقی یا دوسرے غریب اور پسماندہ ممالک کے حکمران ہیں کہ روز نیا دعویٰ کرتے ہیں۔ اور ان کے حواری تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے تھکتے نہیں اورمزے کی بات یہ ہے کہ انہیں کوئی شرم بھی محسوس نہیں ہوتی لیکن عوام کی حالت جوں کی توں ہے۔شاید اب سوچنا محال، بات کرنا مشکل اور سمجھانا یقینا اس سے بھی مشکل مرحلہ ہے کیا عام آدمی مایوس ہو جائے ؟ ۔نرمی ،تر غیبات، آسائشیں اور مراعات قانون شکنوں کے لیے نہیں صرف اور صرف ان کے ہونی چاہئیں ۔جو حکومت کی رٹ مانتے ہوں۔قانون کا احترام دل سے کریں۔اورسماج کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہوں ہمارے خیال میں وہ وقت قریب آن پہنچاہے جب حکمرانوںنے یہ فیصلہ کرناہے کہ ا س دھرتی کے نظام درست کرناہے یا اشرافیہ کو یونہی شتر بے مہار آزادی دئیے رکھنی ہے ہم نے عام آدمی کی بھلائی کے لیے کام کرناہے یا پھر ڈنگ ٹپائو پالیسیاں بناکر اپنے آپ کے ساتھ منافقت کرنی ہے ،یہ سسٹم ایسے ہی چلتا رہا تو اخلاقی اقدار،
اخلاقیات اور یگانگت کا جنازہ روز سر بارار اٹھے گا اور ہمارے ارد گرد وحشت،بے شرمی اور بے حیائی ناچ رہی ہوگی اور ہم کچھ کرنا بھی چاہیں تو کچھ نہیں کر پائیں گے۔یاد رکھیں اگر قدرت ہمیں مہلت پہ مہلت دیئے جارہی ہے تو اس سے فائدہ اٹھایا چاہیے جناب!برا منانے کی کوئی ضرورت نہیں پاکستان میں میاںنوازشریف کی حکومت ہو یا آصف زرداری ،عمران خان برسرِ اقتدارہوں یا کوئی اور،طرز ِ حکومت پارلیمانی ہو یاصدارتی ،فوجی ڈکٹیٹر حکومت میں ہو یا جمہوری سیاستدان ،بھارت میں کانگرس کی حکومت ہویا بی جے پی کی ،جنتا پارٹی ہو یا کوئی قوم پرست پارٹی کی حکومت،بنگلہ دیش میں حسینہ واجد ہوںیا کوئی اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا عوام کی حالت اور ملکوں کے حالات کبھی نہیں بدلے اب عام آدمی کاحکمرانوں سے فقط ایک سوال ہے ہماری حالت کب بدلے گی؟ کیا فیصلہ ہے کیا آپ نے ؟ عوام کو بھی ریلیف ملے گا یا نہیں سفارش ،رشوت کے بغیربھی غریبوںکو جینے کا حق ملے گا یا نہیں؟ ورنہ ہمارے جیسے تنقید کرنے والوں کے بارے میں لوگوںکی رائے مسلمہ ہے

اس جھوٹی نگری میں ہم نے یہی ہمیشہ دیکھا ہے
سچی بات بتانے والے کچھ کچھ پاگل ہوتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر