... loading ...
دوستو، ایک خبر کے مطابق وفاقی حکومت نے کفایت شعاری کی پالیسی میں نرمی کرتے ہوئے سرکاری اجلاسوں میں ہلکی پھلکی تواضع کی اجازت دے دی۔۔وزارت خزانہ کے مطابق کسی بھی سرکاری اجلاس میں 50 روپے فی کس چائے پانی پر خرچ کیے جاسکیں گے۔وزارت خزانہ کے چیف اکاؤنٹس آفیسر کی طرف سے وزارتوں کو لکھے جانیوالے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ سرکاری اجلاسوں میں ریفریشمنٹ کے لیے صرف 50روپے فی کس خرچ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔مزید یہ کہ کسی بھی اجلاس میں چائے پانی پیش کرنے سے پہلے اپنی وزارت کے پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر یعنی وفاقی سیکرٹری سے اجازت لینا ہوگی۔
وطن عزیز میں کورونا کی دوسری لہر پوری شدت سے زور پکڑتی جارہی ہے۔۔ اس لیے احباب جتنی احتیاط کرسکیں کریں اورایس او پیز کا خیال رکھیں۔۔کیوں کہ آپ کی جان آپ کے لیے تو اہم نہیں ہوسکتی لیکن آپ سے منسلک دیگر لوگوں کے لیے آپ بہت اہم ہوسکتے ہیں۔۔کسی آدمی کو کورونا وائرس لاحق ہو جائے تو اس سے دوسروں کو منتقل ہونے کا خطرہ کب زیادہ ہوتا ہے؟ سائنسدانوں نے بالآخر اس سوال کا جواب دے دیا ہے۔ یونیورسٹی آف سینٹ اینڈریوز کے سائنسدانوں نے اسی موضوع پر کی جانے والی 98تحقیقات کے نتائج کا تجزیہ کرنے کے بعد بتایا ہے کہ کسی شخص میں کورونا وائرس کی ابتدائی علامات ظاہر ہونے سے لے کر پہلے 5دن تک اس شخص سے دوسروں کو وائرس لاحق ہونے کا خطرہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس آدمی سے وائرس کی دوسروں کو منتقلی گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی چلی جاتی ہے۔رپورٹ کے مطابق تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر موگ سیویک کا کہنا تھا کہ ’’ہماری تحقیق کے نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ کورونا وائرس کے مریضوں کو وائرس لاحق ہونے کے فوری بعد قرنطینہ میں بھیجنا لازمی ہوتا ہے کیونکہ یہ وہ دن ہوتے ہیں جب ان سے دوسروں کو سب سے زیادہ وائرس منتقل ہوتا ہے۔ پہلے پانچ دن میں آدمی کے منہ، سانس کی نالی اور پھیپھڑوں میں وائرس سب سے زیادہ ہوتا ہے چنانچہ اس کے کھانسنے یا چھینکنے سے وائرس کی بہت زیادہ تعداد باہر آتی ہے۔
مائیکروسوفٹ کے شریک بانی بل گیٹس کا کہنا ہے کہ دفتری امور اور سفر میں آنے والی تبدیلیاں وبا کے خاتمے کے بعد بھی برقرار رہیں گی۔بل گیٹس نے ایک کانفرنس سے خطاب کرتے کورونا وائرس کی وبا کے خاتمے کے بعد کی زندگی کے حوالے سے دلچسپ پیشگوئیاں کی ہیں۔انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا کہ میری پیشگوئی ہے کہ50 فیصد کاروباری سفر اور دفاتر کے 30 فیصد سے زیادہ دن ختم ہوجائیں گے، بڑی تبدیلیوں میں سے ایک یہ ہوگی کہ کسی طرح کمپنیاں کام سے متعلق سفر کا انتظام کرتی ہیں۔بل گیٹس کا کہنا تھا کہ رواں برس کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں دفتری امور اور سفر میں آنے والی تبدیلیاں وبا کے خاتمے کے بعد بھی برقرار رہیں گی۔بل گیٹس کے مطابق کاروبار کے سلسلے میں سفر کم ہوجائے گا، انہوں نے کہا کہ دوسری جگہ جا کر کاروباری امور طے کیے جانے کا سنہری اصول کورونا وبا کے بعد نہیں رہے گا اور بیشتر کمپنیاں اس طرح کے کاروباری دوروں سے گریز کریں گی۔مائیکرو سافٹ کے شریک بانی نے کہا کہ آن لائن ملاقاتوں کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ ہم نئے لوگوں سے نہیں مل سکیں گے، اسی وجہ سے وہ اس سال نئے دوست نہیں بناسکیں کیونکہ انہیں لوگوں سے ملنے کا موقع ہی نہیں ملا۔
آپ لوگ بچپن سے سنتے چلے آرہے ہوں گے کہ ویڈیو گیمز کھیلنا صحت کے لیے نقصان دہ ہے لیکن اب نئی تحقیق میں آسٹریلوی سائنسدانوں نے اس عام تاثر کے برعکس حیران کن انکشاف کر دیا ہے۔ سائنسدانوں نے اس تحقیقاتی سروے کے نتائج میں بتایا ہے کہ ویڈیو گیمز کھیلنے والے لوگ دوسروں کی نسبت زیادہ صحت مند رہتے ہیں۔ اس سروے میں انہوں نے 1ہزار 400لوگوں سے سوالات پوچھے اور ان کے جوابات کا تجزیہ کرکے نتائج مرتب کیے۔نتائج میں یونیورسٹی آف کوئنز لینڈ کے سائنسدانوں نے بتایا کہ ویڈیو گیمز کھیلنے والے لوگوں کا صحت مند رہنے کا امکان دوسروں کی نسبت 21فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ویڈیو گیمز کھیلنے والوں کے بری عادات میں مبتلا ہونے کا خدشہ بھی کم ہوتا ہے۔ ایسے لوگ 7.8فیصد کم شراب نوشی کی لت میں مبتلا ہوتے ہیں۔اسی طرح ویڈیو گیمرز میں سگریٹ نوشی کی لت بھی نمایاں طور پر کم پائی گئی۔سائنسدانوں نے سروے میں شامل لوگوں کے باڈی میس انڈیکس بھی معلوم کیے جن میں پتا چلا کہ ویڈیوگیمرز سب سے زیادہ متناسب جسم کے مالک ہوتے ہیں۔
ابتدا ہم نے ہلکی پھلکی تواضع سے کی تھی، اسی حوالے سے ایک اور سچا واقعہ سن لیجئے۔۔فلپائن میں ایک لڑکی نے اپنے اور اپنے دادی کے لیے’فوڈپانڈا‘ سے کھانا آرڈر کیا لیکن فوڈ پانڈا کی ایپلی کیشن میں خرابی آنے سے ایسا کام ہو گیا کہ لڑکی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ انڈیا ٹائمز کے مطابق فلپائن کے دارالحکومت منیلا کی رہائشی اس 7سالہ لڑکی نے اپنے اور اپنی دادی کے لیے فرائیڈ چکن اور چاول آرڈر کیے لیکن سست رفتار انٹرنیٹ کی وجہ سے بار بار بٹن دبانے کے باوجود آرڈر پلیس نہ ہوا۔رپورٹ کے مطابق لڑکی نے 42بار کوشش کی، تب کہیں جا کر اس کا آرڈر پلیس ہوا لیکن کمزور انٹرنیٹ کی وجہ سے ایپلی کیشن میں جو خرابی آئی اس کے سبب جتنی بار لڑکی نے بٹن دبایا تھا اتنی بار ہی آرڈر پلیس ہو گیا۔ پھر کیا تھا کہ یکے بعد دیگرے 42ڈلیوری بوائز اپنی موٹرسائیکلوں پر لڑکی کے گھر کے باہر آ دھمکے۔ سب نے وہی ایک آرڈر ’فرائیڈ چکن اور چاول‘ اٹھا رکھے تھے۔لڑکی کی ماں نے بعد ازاں گلی میں کھڑے ان ڈلیوری بوائز کے تصویر کے ساتھ یہ واقعہ فیس بک پر سنایا ہے اور بتایا ہے کہ لڑکی کی عمر بہت کم تھی چنانچہ سست انٹرنیٹ کی وجہ سے جو ہوا، وہ اسے سمجھ نہ سکی۔ ہم گھر میں نہیں تھے، جب اتنے ڈلیوری بوائز آ گئے تومیری بیٹی گھبرا گئی لیکن ہمارے ہمسایوں نے فراخ دلی کا مظاہرہ کیا اور 41آرڈر انہوں نے خرید لیے جبکہ ایک میری بیٹی نے لے لیا۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔لڑکیاں کان میں اتنے سوراخ کرانے کے بعد بھی کسی کی نہیں سنتیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔