... loading ...
دوستو، سوشل میڈیا پر ’’ہارڈ ٹاک‘‘ کے چرچے ہیں، اسحاق ڈار انٹرویو دے کر ’’سیاپا‘‘ ہی کربیٹھا ۔۔ باباجی فرماتے ہیں۔۔ ہر وہ بات جو مزاج یار پر ناگوار گزرے’’ہارڈ ٹاک‘‘ کہلاتی ہے۔۔ جب باباجی سے ان کے فرمان کی تشریح چاہی تو کہنے لگے کہ ۔۔مثال کے طور پر اگرمیں کوئی ایسی بات کروں جس سے تمہارا موڈ آف ہوجائے یا پھر تم زچ ہوجاؤ، ہر ایسی بات تمہارے نزدیک ہارڈ ٹاک ہی کہلائے گی۔۔ جب کہ وہ بات میرے لیے بالکل نارمل ہوگی۔۔ باباجی کی مثال تو سر سے ایسے گزرگئی جیسے بڑھاپے میں سرسے بال ’’گزر‘‘ جاتے ہیں۔۔ لیکن اتنا سمجھ آگیا۔۔ اگر آپ (قارئین) کا موڈ آف ہے اور آپ کو اس وقت کچھ اچھا نہیں لگ رہا، تو ہم جتنی بھی اوٹ پٹانگ باتیں کرلیں، آپ کے مزاج کو مزید برہم کریں گی۔۔ اس لیے کوشش کیجئے گا کہ جب بھی ہمیں پڑھا کریں تو موڈآن رکھیں تاکہ ہماری اوٹ پٹانگ باتوں کو زیادہ سے زیادہ انجوائے کرسکیں۔۔
اسحاق ڈار سے کسی نے پوچھا۔۔آپ کی طبیعت کب تک ٹھیک ہوجائے گی، آپ تین سال سے لندن میں زیرعلاج ہیں۔۔ فرمانے لگے۔۔ جب تک ملک کے حالات ٹھیک نہیں ہوجاتے۔۔ ہمارے پیارے دوست نے انکشاف کیا ہے کہ اسٹیفن سکر کی جانب سے اسحاق ڈار سے سخت سوالات پوچھے جانے پر انسانی حقوق کمیشن پاکستان سمیت کئی نامی گرامی اینکرز نے شدید مذمت کی ہے اور کچھ نے لندن کی عدالت جانے کا فیصلہ بھی کرلیا ہے۔۔ـ’’ جنم سیٹی ‘‘ کا کہنا ہے کہ ان کی چڑیا کے مطابق اسٹیفن سکر کو سوالات کسی ’’یوتھیئے‘‘نے لکھ کر دیئے تھے، ورنہ اسٹیفن سکر کو ’’بھکر‘‘ کا نہیں پتہ وہ اسحاق ڈار سے متعلق اتنی معلومات کہاں سے اکٹھی کرسکتا ؟؟باباجی ہمیں بتانے لگے کہ ایک دن وہ نہارہے تھے ،ان کا فون ٹیبل پر رکھا ہوا تھا۔ ۔ جب نہاکر باہر آیا تو زوجہ ماجدہ کا شدید قسم کا موڈ آف تھا، ایک دو بار پوچھنے کی کوشش کی تو بے رخی اور بے اعتنائی برتی، جس پر ہم نے باآواز بلند لعنت بھیجی اور گھر سے باہر نکل گئے۔۔ شام کو جب گھر واپس لوٹے تو زوجہ ماجدہ کا موڈ قدرے بہتر دکھائی دے رہا تھا، ہم نے دوپہر میں ناراضی کی وجہ پوچھی تو کہنے لگیں۔۔ آپ کا فون ٹیبل پر رکھا دیکھا تو سوچا فون بک چیک کرلوں۔۔ چیک کرتے کرتے اچانک ایک نام ’’کوویڈ نائنٹن‘‘ دیکھا تو شدید حیرت ہوئی، فوری اس کو کال ملادی۔۔ کچھ دیر بعد میرے فون کی بیل بجنے لگی۔۔۔باباجی کا ہی قول ہے کہ خون پیدا کرنے والی چیزوں میں انار دوسرے جب کہ بیوی کا میکے جانا ابھی بھی پہلے نمبر پرہی ہے۔۔
کورونا کی وجہ سے زیادہ باراتی لے جانے پر جب پولیس والوں نے بارات کو روکا تو دلہے نے تحریری یقین دہانی کرائی کہ اگلی بار ایسا نہیں ہوگا، پولیس والوں نے اطمینان کا سانس لیا اور بارات کو جانے دیا۔۔ویسے ہم پاکستانیوں کا بھی کوئی حال نہیں۔۔باہرکے ممالک میں کہاجاتا ہے۔۔تم محنت کروگے تو کامیاب ہوجاؤگے۔۔جب کہ ہمارے یہاں کہتے ہیں۔۔تیرے دانتوں کے بیچ میں کافی گیپ ہے تو بہت پیسے والا ہوگا۔۔یا تیرے آگے سے بال اڑگئے ،مال دار بننے والا ہے۔۔باہر کے ممالک میں میاں بیوی میں بہت پیار ہو، دونوں ایک دوسرے کابہت خیال رکھتے ہوں تو اسے ’’انڈراسٹینڈنگ‘‘ کہاجاتا ہے جب کہ ہمارے یہاں اسے ’’تھلے‘‘ لگاہوا کہتے ہیں۔۔باہر کے ممالک میں لڑکا اگر منہ دھو رہا ہوتو سمجھ جائیں کہ وہ کہیں باہرجانے کا ارادہ رکھتا ہے۔۔جب کہ ہمارے یہاں اگر لڑکی منہ دھورہی ہوتو سمجھ جائیں کہ وہ اب کہیں نہیں جائے گی۔۔جس طرح باباجی عجیب و غریب طبیعت کے مالک ہیں اسی طرح باباجی کی زوجہ ماجدہ بھی کافی ’’جولی ‘‘ طبیعت کی مالکن ہیں۔۔ باباجی بتارہے تھے کہ ایک دن ہم صوفے پر نیم دراز اخبار کا مطالعہ کررہے تھے، اچانک زوجہ ماجدہ پاس آن کھڑی ہوئی، کہنے لگیں۔۔پانچ منٹ کے لیے پڑوسن کے یہاں جارہی ہوں ، ہانڈی چولہے پر رکھی ہے، آپ ہر دس منٹ بعد اس میں ’’ڈوئی‘‘ پھیرتے رہنا۔۔
اسحاق ڈار سے بات شروع ہوئی تھی، یہ سیاسی لوگ ان کے نعرے بھی سیاسی ہوتے ہیں۔۔ہمارے پیارے دوست کا کہناہے کہ اب عوام نے بھی ’’سلوگن‘‘ بنالیے ہیں۔۔حجام کی دکان پر سلوگن پڑھا۔۔ہم دِل کا بوجھ تو نہیں لیکن سر کا بوجھ ضرور ہلکا کر سکتے ہیں۔۔۔لائٹ کی دوکان والے نے بورڈ کے نیچے لکھوایا۔۔آپ کے دِماغ کی بتی بھلے ہی جلے یا نہ جلے، مگر ہمارا بلب ضرور جلے گا۔۔چائے والے نے اپنے کاؤنٹر پر لکھوایا۔۔میں بھلے ہی عام ہوں مگر چائے اسپیشل بناتا ہوں۔۔ایک ریسٹورینٹ نے سب سے الگ فقرہ لکھوایا،یہاں گھر جیسا کھانا نہیں ملتا، آپ اطمینان سے تشریف لائیں۔۔الیکٹرانک دوکان پر سلوگن پڑھا تو دم بہ خود رہ گیا۔۔ اگر آپ کا کوئی فین نہیں ہے تو یہاں سے لے جائیں۔گول گپے کے ٹھیلے پر ایک سلوگن لکھا تھا۔۔گول گپے کھانے کے لیے دِل بڑا ہو نہ ہو، منہ بڑا رکھیں، پورا کھولیں۔۔پھل والے کے یہاں تو غضب کا فقرہ لکھا دیکھا۔۔آپ تو بس صبر کریں، پھل ہم دے دیں گے۔۔۔گھڑی کی دوکان پر تو ایک زبردست فقرہ دیکھا،بھاگتے ہوئے وقت کو اپنے بس میں رکھیں، چاہے دیوار پر ٹانگیں، یا ہاتھ پر باندھیں۔۔ایک نجومی (جوتشی) نے اپنے بورڈ پر سلوگن کُچھ یوں لکھوایا،آئییصرف 100 روپیہ میں اپنی زندگی کے آنے والے ایپی سوڈ دیکھئے۔۔بالوں کی ایک کمپنی نے تو اپنے ہر پروڈکٹ پر یہ لکھوا کر حد ہی کر دیا۔۔ہم بھی بال بال بچاتے ہیں۔
باباجی کہہ رہے تھے۔۔جتنی مجھے چائے پسند ہے مجھے لگتا ہے جنت میں جاتے ہی دودھ کی نہر میں پتی ڈال دینی ہے۔۔جب ہم نے باباجی کوان کے عمر کے اعتبار سے روزانہ واک کرنے کا مشورہ دیا تو فرمانے لگے۔۔سب مجھے کہتے ہیں کہ واک کیا کرو لیکن میں اس ڈر سے نہیں کرتا کہ کہیں میں کوئی غلط قدم نہ اٹھا لوں۔۔ہمارا بھتیجا کہہ رہا تھا۔۔چاہے کوئی بھی حکومت آئے پر وزیر تعلیم شفقت محمود چاچو ہی ہونے چاہئیں۔۔اسکولوں کی چھٹیوں پر اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں ۔۔کہتے ہیں کہ ۔۔کامیاب آدمی وہ ہے جو اتنا پیسہ کمائے کے اس کی بِیوِی خرچ ہی نہ کر سکے اور کامیاب عورت وہ ہے جو ایسا بندہ ڈھونڈ لے۔۔ ایک شخص اپنے دوست کی شادی میں اپنی بیگم اورنوبچوں کو لے کر گیا تو دوست نے حیران ہو کر پوچھا۔۔ اتنے بچے حیا نہیں آئی؟ وہ صاحب بڑی معصومیت سے کہنے لگے۔۔ہاں جی وہ حیا کے پیپر چل رہے ہیں وہ اِس لیے نہیں آسکی۔
اور اب چلتے چلتے ہارڈ ٹاک۔۔بیویاں شوہروں سے زیادہ جہیز میں ملے برتنوں کا دھیان رکھتی ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔