وجود

... loading ...

وجود

اسرائیل تسلیم کرنے کی بحث

هفته 05 دسمبر 2020 اسرائیل تسلیم کرنے کی بحث

دنیاکوروناکی تباہ کاریوں سے متوحش ہے لیکن اسلامی ممالک کو بظاہر خطرے کا کوئی احساس نہیں اسرائیل کو تسلیم کرنے یانہ کرنے کی بحث تمام مسائل پر حاوی ہے کچھ اسلامی ممالک یو اے ای اوربحرین نے تو سفارتی تعلقات قائم کر لیے ہیں تسلیم سے کترانے والے بھی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے چکے ہیں ڈونلڈ ٹرمپ کی ڈیل آف سینچری سے اسرائیل کے لیے فضا سازگار ہوئی ہے اوروہ تہائی صدی کے بعد عرب ممالک کو امن پسندی کا احساس دلانے میں کامیاب ہو گیا ہے اور عربوں پہ عقدہ کھلا ہے کہ اصل خطرہ اسرائیل نہیں بلکہ ایران ہے اگر اسرائیل خطرہ ہے بھی تو وہ ایران سے زیادہ نہیں یوں بطور دشمن اسرائیل کی حیثیت ثانوی ہو گئی ہے ایسی کہ جس کے بارے میں چند برس قبل سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا لیکن عربوں میں اسرائیل سے دوستی کا مقابلہ جاری ہے ۔
28نومبر کو ایرانی سائنسدان محسن فخری زادہ کی دہشت گردانہ حملے میں ہلاکت پرپاکستان ،ترکی اور چین نے مذمت لیکن عرب ممالک نے خاموشی اختیار کیے رکھی ،سعودی عرب تو ایک سے زائد بار عالمی اِ داروں سے ایرانی جوہری پروگرام محدودکرانے کا مطالبہ کر چکا ہے اِس لیے یہ خاموشی حیران کن نہیںامریکی جارحیت کے جواب میں ایران کی طرف سے حملے کی براہ راست دھمکی پر دبئی نے سائنسدان کی ہلاکت کی مذمت کردی لیکن دھمکی کے دوررس نتائج ممکن ہیں موساد کو ہیڈ کوارٹر کے لیے جگہ دیکر یو اے ای نے ترجیحات ظاہر کر دیں جس سے ایران وعرب مناقشے کو فروغ ملے گا۔

جوہری توانائی کے حصول کی جس مسلم ملک نے بھی کوشش کی یا تو براہ راست حملے سے پلانٹس تباہ کر دیے گئے یا ماہرین کوہی ختم کردیا گیا ،برسوں سے ایسا ہورہا ہے عراقی ایٹمی پلانٹ کی براہ راست حملے میں تباہی کے ساتھ عراق کے تین سو پچاس نیوکلیئر سائنسدانوں اور 276 پروفیسروں کو دہشت گردانہ حملوں میں مار دیا گیا،1952 میںمصر کی نامور ایٹمی سائنسدان ڈاکڑ سمیرہ موسیٰ کو امریکی دورے کے دوران نامعلوم گاڑی کی ٹکر سے ماری گئی، 21جنوری 2007کو ایران کے شہر اصفہان میں قائم ایٹمی ریسرچ سنٹر کے سربراہ اردشیرحسن کوپُر اسرار طریقے سے مار دیا گیا ،جنوری2010 میں ایک اورایرانی سائنسدان پروفیسر مسعود علی ریموٹ کنٹرول بم میں جاںبحق ہوئے اسی سال 29 نومبرکو پروفیسر ماجد شہریار تہران میں بم دھماکے کے دوران جبکہ لبنان کے رمل حسن رمل جیسے نامور سائنسدان عجیب وغریب طریقے سے دنیا سے رخصت ہوئے،23جولائی 2011فزکس ا سکالرداریوش رضائی کوتہران میں گولیوں سے نشانہ بنا کر قتل کیا گیا، جنوری2012میں کیمیکل انجینئر مصطفیٰ احمدی روشن تہران بم حملے میں مار دیے گئے، 1989میں مصر کی طر ف سے دوبارہ یورینیم افزدگی کی خبر وں پر ڈاکٹر سعید البدر کو اُن کے اپارٹمنٹ میں اگلے جہان پہنچا دیاگیا ،عراق کے محمد الفوز کو یورینیم کی تیاری کا نیا طریقہ دریافت کرنے کے حوالے سے تحقیقی مقالہ مغربی جرائد میں شائع کرانے کے چھٹے روز بغداد کی مصروف شاہراہ پر خون میں نہلا دیا گیا ،یہ اللہ کا خاص کرم اور ہمارے چوکس اِداروں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ اندراگاندھی کی میز سے کہوٹہ پر حملے کی فائل گم ہو جاتی ہے جس کی نشاندہی ہندوستان ٹائمز نے خبر میں کی ۔

پاکستان میں بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کی بحث زوروں پر ہے حکومت کو بار بار کہنا پڑ رہا ہے کہ فلسطین تنازعے کے حل تک ایسا کوئی ارادہ نہیں لیکن وزیراعظم عمران خان کے دوٹوک اعلان کے باوجود لوگ مطمئن نہیں اور سمجھتے ہیں کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنازیادہ دور نہیں ویسے بھی چاہے محدود پیمانے پر ہی سہی پاک اسرائیل روابط موجود ہیں ،اسرائیل وبھارت دفاعی تعلقات میں گرمجوشی اور کشمیر میں مسلم آبادی کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے بھارتی حکومت کی رہنمائی سے پاکستان دبائو کا شکار ہے اور ہماری حکمران اشرافیہ اِس دبائو میں کمی لانے کے طریقوں بارے سوچنے لگی ہے مگر ملک کے مذہبی طبقے کا خوف کوئی قدم اُٹھانے نہیں دیتا اور جب وزارتِ خارجہ تسلیم نہ کرنے کی یقین دہانی کراتی ہے تو لوگوں کے ذہنوں میں شک یقین میں ڈھلنے لگتا ہے شاید اسی لیےنو بت یہاں تک آ گئی ہے کہ کچھ حلقے عربوں کی بجائے اپنے مفاد کے تناظر میں فیصلہ کرنے کی رائے دینے لگے ہیں ۔
ایک اندازہ تو یہ ہے کہ عرب ممالک طویل لڑائی و محاذ آرائی سے اُکتایا تھک گئے ہیں دوسرا وہ عرب کی عجم پربرتری کی سوچ ہے مگر عربوں کے نبض شناس تیسرے نکتے کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ سعودی عرب ،ایران اور ترکی میں امتِ مسلمہ کی قیادت کی تگ ودو جوبن پرہے جو عربوں کو اسرائیل کی طرف دیکھنے پر مجبور کرتی ہے سعودی عرب کسی صورت مسلم ممالک کی قیادت کے منصب سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں لیکن ترکی اور ایران کی صورت میں اُسے چیلنج درپیش ہے اِن حالات میں مضبوط فوج کی بنا پر جوہری پاکستان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور تمام فریق اسلام آباد کی حمایت کے متمنی ہیں یمن لڑائی کے لیے فوجی دستے نہ بھیجنے پر سعودیہ اور دبئی پاکستان سے ناخوش ہیں نیز اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کو بھی ترکی و ایران کی طرف جھکائو کا شاخسانہ تصور کیا جارہا ہے اسی لیے دبائو ڈال کر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا رُخ موڑنے کی کوشش کی جارہی ہے ایک اور وجہ بھی بہت اہم ہے سعودی عرب اور دبئی بلا شک و شبہ امریکی بلاک کا حصہ ہیں جبکہ بھارت کو امیدوں کا مرکز بنا نے پر پاکستان چین کا طرفدارہو گیا ہے اور سی پیک سے دونوں ممالک کا ایک دوسرے پر انحصار مزید بڑھ گیا ہے اِس لیے شاہ محمود چاہے لاکھ آموختہ پڑھیں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے پاکستان کو کسی دبائو کا سامنا نہیں لیکن کوئی عقل کا اندھا ہی یقین کر سکتا ہے امریکی ایما پر دبائو خارج از امکان نہیں، اگر قطر سے تعلقات بہتر بنانے کا ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان کڑوا گھونٹ پی سکتے ہیں تو امریکی خواہش پر پاکستان کی خراب معاشی صورتحال سے بھی فائدہ اُٹھانا بھی ممکن ہے ویزوں کے اجرا کے حوالے سے یو اے ای کی پابندیوں کا شکار ایسے ممالک ہی بنے ہیں جو چین کے قریب ہیں جس سے غیر مبہم پیغام یہی ملتا ہے ۔

اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بحث زوروں پر ہے دیکھیں کب تک پاکستان ثابت قدم رہتا ہے تلخ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب اور دبئی میں روزگار کے لیے مقیم ستائیس لاکھ پاکستانی ملکی ترسیلات زرکا بڑا زریعہ اور اُن کا ملکی معیشت بہتر بنانے میں اہم کردار ہے اگراِس حوالے سے بات کچھ زیادہ ہی بگڑ گئی تو شاید ہی ہم ثابت قدم رہ سکیں عربوں پر اسرائیل کے عشق کا بھوت سوار ہے بیگانوں سے تو ہم نے جوہری اثاثے اور سائنسدان بچا لیے اب اپنوں سے کی نا گفتنی کا سامنا کیسے کریں گے ؟غوروفکر کا مقام ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر