... loading ...
دنیاکوروناکی تباہ کاریوں سے متوحش ہے لیکن اسلامی ممالک کو بظاہر خطرے کا کوئی احساس نہیں اسرائیل کو تسلیم کرنے یانہ کرنے کی بحث تمام مسائل پر حاوی ہے کچھ اسلامی ممالک یو اے ای اوربحرین نے تو سفارتی تعلقات قائم کر لیے ہیں تسلیم سے کترانے والے بھی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے چکے ہیں ڈونلڈ ٹرمپ کی ڈیل آف سینچری سے اسرائیل کے لیے فضا سازگار ہوئی ہے اوروہ تہائی صدی کے بعد عرب ممالک کو امن پسندی کا احساس دلانے میں کامیاب ہو گیا ہے اور عربوں پہ عقدہ کھلا ہے کہ اصل خطرہ اسرائیل نہیں بلکہ ایران ہے اگر اسرائیل خطرہ ہے بھی تو وہ ایران سے زیادہ نہیں یوں بطور دشمن اسرائیل کی حیثیت ثانوی ہو گئی ہے ایسی کہ جس کے بارے میں چند برس قبل سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا لیکن عربوں میں اسرائیل سے دوستی کا مقابلہ جاری ہے ۔
28نومبر کو ایرانی سائنسدان محسن فخری زادہ کی دہشت گردانہ حملے میں ہلاکت پرپاکستان ،ترکی اور چین نے مذمت لیکن عرب ممالک نے خاموشی اختیار کیے رکھی ،سعودی عرب تو ایک سے زائد بار عالمی اِ داروں سے ایرانی جوہری پروگرام محدودکرانے کا مطالبہ کر چکا ہے اِس لیے یہ خاموشی حیران کن نہیںامریکی جارحیت کے جواب میں ایران کی طرف سے حملے کی براہ راست دھمکی پر دبئی نے سائنسدان کی ہلاکت کی مذمت کردی لیکن دھمکی کے دوررس نتائج ممکن ہیں موساد کو ہیڈ کوارٹر کے لیے جگہ دیکر یو اے ای نے ترجیحات ظاہر کر دیں جس سے ایران وعرب مناقشے کو فروغ ملے گا۔
جوہری توانائی کے حصول کی جس مسلم ملک نے بھی کوشش کی یا تو براہ راست حملے سے پلانٹس تباہ کر دیے گئے یا ماہرین کوہی ختم کردیا گیا ،برسوں سے ایسا ہورہا ہے عراقی ایٹمی پلانٹ کی براہ راست حملے میں تباہی کے ساتھ عراق کے تین سو پچاس نیوکلیئر سائنسدانوں اور 276 پروفیسروں کو دہشت گردانہ حملوں میں مار دیا گیا،1952 میںمصر کی نامور ایٹمی سائنسدان ڈاکڑ سمیرہ موسیٰ کو امریکی دورے کے دوران نامعلوم گاڑی کی ٹکر سے ماری گئی، 21جنوری 2007کو ایران کے شہر اصفہان میں قائم ایٹمی ریسرچ سنٹر کے سربراہ اردشیرحسن کوپُر اسرار طریقے سے مار دیا گیا ،جنوری2010 میں ایک اورایرانی سائنسدان پروفیسر مسعود علی ریموٹ کنٹرول بم میں جاںبحق ہوئے اسی سال 29 نومبرکو پروفیسر ماجد شہریار تہران میں بم دھماکے کے دوران جبکہ لبنان کے رمل حسن رمل جیسے نامور سائنسدان عجیب وغریب طریقے سے دنیا سے رخصت ہوئے،23جولائی 2011فزکس ا سکالرداریوش رضائی کوتہران میں گولیوں سے نشانہ بنا کر قتل کیا گیا، جنوری2012میں کیمیکل انجینئر مصطفیٰ احمدی روشن تہران بم حملے میں مار دیے گئے، 1989میں مصر کی طر ف سے دوبارہ یورینیم افزدگی کی خبر وں پر ڈاکٹر سعید البدر کو اُن کے اپارٹمنٹ میں اگلے جہان پہنچا دیاگیا ،عراق کے محمد الفوز کو یورینیم کی تیاری کا نیا طریقہ دریافت کرنے کے حوالے سے تحقیقی مقالہ مغربی جرائد میں شائع کرانے کے چھٹے روز بغداد کی مصروف شاہراہ پر خون میں نہلا دیا گیا ،یہ اللہ کا خاص کرم اور ہمارے چوکس اِداروں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ اندراگاندھی کی میز سے کہوٹہ پر حملے کی فائل گم ہو جاتی ہے جس کی نشاندہی ہندوستان ٹائمز نے خبر میں کی ۔
پاکستان میں بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کی بحث زوروں پر ہے حکومت کو بار بار کہنا پڑ رہا ہے کہ فلسطین تنازعے کے حل تک ایسا کوئی ارادہ نہیں لیکن وزیراعظم عمران خان کے دوٹوک اعلان کے باوجود لوگ مطمئن نہیں اور سمجھتے ہیں کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنازیادہ دور نہیں ویسے بھی چاہے محدود پیمانے پر ہی سہی پاک اسرائیل روابط موجود ہیں ،اسرائیل وبھارت دفاعی تعلقات میں گرمجوشی اور کشمیر میں مسلم آبادی کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے بھارتی حکومت کی رہنمائی سے پاکستان دبائو کا شکار ہے اور ہماری حکمران اشرافیہ اِس دبائو میں کمی لانے کے طریقوں بارے سوچنے لگی ہے مگر ملک کے مذہبی طبقے کا خوف کوئی قدم اُٹھانے نہیں دیتا اور جب وزارتِ خارجہ تسلیم نہ کرنے کی یقین دہانی کراتی ہے تو لوگوں کے ذہنوں میں شک یقین میں ڈھلنے لگتا ہے شاید اسی لیےنو بت یہاں تک آ گئی ہے کہ کچھ حلقے عربوں کی بجائے اپنے مفاد کے تناظر میں فیصلہ کرنے کی رائے دینے لگے ہیں ۔
ایک اندازہ تو یہ ہے کہ عرب ممالک طویل لڑائی و محاذ آرائی سے اُکتایا تھک گئے ہیں دوسرا وہ عرب کی عجم پربرتری کی سوچ ہے مگر عربوں کے نبض شناس تیسرے نکتے کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ سعودی عرب ،ایران اور ترکی میں امتِ مسلمہ کی قیادت کی تگ ودو جوبن پرہے جو عربوں کو اسرائیل کی طرف دیکھنے پر مجبور کرتی ہے سعودی عرب کسی صورت مسلم ممالک کی قیادت کے منصب سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں لیکن ترکی اور ایران کی صورت میں اُسے چیلنج درپیش ہے اِن حالات میں مضبوط فوج کی بنا پر جوہری پاکستان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور تمام فریق اسلام آباد کی حمایت کے متمنی ہیں یمن لڑائی کے لیے فوجی دستے نہ بھیجنے پر سعودیہ اور دبئی پاکستان سے ناخوش ہیں نیز اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کو بھی ترکی و ایران کی طرف جھکائو کا شاخسانہ تصور کیا جارہا ہے اسی لیے دبائو ڈال کر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا رُخ موڑنے کی کوشش کی جارہی ہے ایک اور وجہ بھی بہت اہم ہے سعودی عرب اور دبئی بلا شک و شبہ امریکی بلاک کا حصہ ہیں جبکہ بھارت کو امیدوں کا مرکز بنا نے پر پاکستان چین کا طرفدارہو گیا ہے اور سی پیک سے دونوں ممالک کا ایک دوسرے پر انحصار مزید بڑھ گیا ہے اِس لیے شاہ محمود چاہے لاکھ آموختہ پڑھیں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے پاکستان کو کسی دبائو کا سامنا نہیں لیکن کوئی عقل کا اندھا ہی یقین کر سکتا ہے امریکی ایما پر دبائو خارج از امکان نہیں، اگر قطر سے تعلقات بہتر بنانے کا ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان کڑوا گھونٹ پی سکتے ہیں تو امریکی خواہش پر پاکستان کی خراب معاشی صورتحال سے بھی فائدہ اُٹھانا بھی ممکن ہے ویزوں کے اجرا کے حوالے سے یو اے ای کی پابندیوں کا شکار ایسے ممالک ہی بنے ہیں جو چین کے قریب ہیں جس سے غیر مبہم پیغام یہی ملتا ہے ۔
اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بحث زوروں پر ہے دیکھیں کب تک پاکستان ثابت قدم رہتا ہے تلخ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب اور دبئی میں روزگار کے لیے مقیم ستائیس لاکھ پاکستانی ملکی ترسیلات زرکا بڑا زریعہ اور اُن کا ملکی معیشت بہتر بنانے میں اہم کردار ہے اگراِس حوالے سے بات کچھ زیادہ ہی بگڑ گئی تو شاید ہی ہم ثابت قدم رہ سکیں عربوں پر اسرائیل کے عشق کا بھوت سوار ہے بیگانوں سے تو ہم نے جوہری اثاثے اور سائنسدان بچا لیے اب اپنوں سے کی نا گفتنی کا سامنا کیسے کریں گے ؟غوروفکر کا مقام ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔