... loading ...
(مہمان کالم)
پال کر گ مین
نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے وزیر خزانہ کے لیے جینیٹ ییلن کا انتخاب کیا ہے‘ جس پر معیشت دانوں میں زبر دست جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ اس جوش و خروش کو دیکھ کر ان کی تقرری کی غیر معمولی نوعیت کی عکاسی ہوتی ہے۔ وہ اس منصب پر فائز ہونے والی پہلی شخصیت ہی نہیں ہوں گی بلکہ وہ امریکا کی معیشت کے تین اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہونے والی پہلی شخصیت بھی ہوں گی؛ یعنی کونسل آف اکنامک ایڈوائزرز کی سربراہ، فیڈرل ریزروز کی سربراہ رہنے کے بعد اب وہ امریکی وزیر خزانہ بن رہی ہیں۔ان کی تقرری ڈونلڈ ٹرمپ کے منہ پر زبردست طمانچہ ہوگی جنہوں نے فیڈرل ریزروز کے لیے ان کی دوسری مرتبہ تقرری کرنے سے انکارکر دیا تھا۔ رپورٹس کے مطابق وہ انہیں اس کے اہل نہیں سمجھتے تھے؛ تاہم جینیٹ ییلن اپنے پبلک سروس کیریئر سے ہٹ کر بھی ایک نمایاں شہرت رکھتی ہیں۔ اپنے منصب پر فائز ہونے سے پہلے وہ ایک سنجیدہ مزاج ریسرچر تھیں۔ وہ اس تحریک کی ایک نمایاں شخصیت تھیں جنہوں نے امریکا کی میکرو اکنامکس کو اس وقت ایک مفید ڈسپلن کے طور پر بچانے میں مدد کی تھی جب یہ افادیت اندرونی اور بیرونی‘ دونوں محاذوں پر شدید حملوں کی زد میں تھی۔
مزید آگے بڑھنے سے پہلے میں ان دنوں کے بارے میں کچھ کہنا چاہوں گا جب جینیٹ ییلن فیڈرل ریزروز میں تھیں‘ خاص طور پر چیئر پرسن بننے سے قبل جب 2010ء میں وہ فیڈرل ریزروز کے بورڈ کی رکن تھیں‘ ان دنوں امریکی معیشت شدید کساد بازاری کے چنگل سے نکلنے کی کوشش کر رہی تھی اور اس کے راستے میں کانگرس کے ریپبلکنز ارکان نے رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس مخالفت کی بظاہر وہ یہ دکھا رہے تھے کہ وہ قومی قرضوں کے حوالے سے گہری تشویش اور فکر میں مبتلا ہیں اس لیے انہوں نے اخراجات میں کٹوتی کر دی جس سے امریکی معیشت کی افزائش کو زبردست نقصان پہنچا لیکن محض اخراجات ہی موضوع بحث نہیں تھے‘ بلکہ وہاں مانیٹری پالیسی پر بھی زبردست بحث ہو رہی تھی۔خاص طور پر دائیں بازو کے ایسے کئی ارکان تھے جنہوں نے فیڈرل ریزروز کی ان کوششوں کی شدید مخالفت کی جو وہ معیشت کو 2008ء کے مالی بحران سے نکالنے کے لیے کر رہا تھا۔ ان میں سے جوڈی شیلٹن کو‘ جس نے 2009ء میں یہ وارننگ دی تھی کہ فیڈرل ریزروز کے اقدامات تباہ کن افراطِ زر پیدا کرنے کا باعث بنیں گے‘ صدرٹرمپ ابھی تک فیڈرل ریزروز میں تعینات کرانے پر زور لگا رہے ہیں۔
فیڈرل ریزروز میں بھی دو طرح کی تقسیم تھی؛ عقابی گروپ میں وہ لوگ شامل تھے جو افراطِ زر کی وجہ سے پریشان تھے جبکہ فاختائیں دبائو والی معیشت کے حق میں تھیں۔ ییلن فاختائوں کی معروف اور نمایاں آواز تھیں اور وال سٹریٹ جرنل نے اپنے 2013ء کے تجزیے میں بتایا تھا کہ فیڈرل پالیسی میکرز میں وہ سب سے درست اور کامیاب تجزیہ کار تھیں جن کی پیش گوئیاں اکثر درست ثابت ہوتی تھیں۔ان کے تجزیے کیوں درست تھے؟ اس سوال کا ایک جواب ان کا وہ اکیڈیمک کام ہے جو انہوں نے 1980ء کے عشرے میں کیا تھا۔ اس وقت مفید میکرو اکنامکس پر تنقیدی حملے جاری تھے۔ میرے خیال میں مفید میکرو اکنامکس کا مطلب وہ فہم اور ادراک ہے جو جان مینرڈ کینز سے لے کر ملٹن فریڈ مین تک ماہرین معیشت نے شیئر کیا تھا کہ مالیاتی پالیسی کو افراطِ زر سے لڑنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ انڈر اسٹینڈنگ حقیقت پسندی کے ٹیسٹ میں ناکام نہیں ہوئی جبکہ ا س کے برعکس 1980ء کے تجربے نے بنیادی میکرو اکنامکس کی پیشگوئیوں کی تصدیق کر دی تھی مگر مفید اکنامکس ابھی خطرے سے دوچار تھی۔
ایک طرف دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اکانومسٹ حقیقت پر مبنی اکنامکس سے کرینک ڈاکٹرائنز (Crank Doctrines) کی طرف جھک گئے خاص طور پر اس دعوے کی طرف کہ حکومتیں امرا پر ٹیکسوں کی شرح میں کمی کرکے اپنی شرح نمو کو بڑھا سکتی ہیں۔ دوسری جانب ایسے اکانومسٹ تھے جنہوں نے افراطِ زر کے خاتمے میں پالیسی کے کردار کو بالکل مسترد کر دیا اور دعویٰ کیا کہ اگر عوام اپنے مفاد کے لئے دانشمندی سے اپنا کام کر رہے ہوں اور معاشی تجزیوں میں ہمیشہ عوام کو دانشمند ہی سمجھا جا تا ہے تو پالیسی کے کسی کردار کی ضرورت نہیں رہتی۔اسی ا سٹیج پر جینیٹ ییلن نے مداخلت کی۔ وہ نیو کینینزین اکنامکس کے فروغ کے دور کی ایک معروف شخصیت بن کر ابھریں‘ جنہیں کامل یقین تھا کہ عوام کبھی بھی بیوقوف اور احمق نہیں ہوتے مگر وہ مکمل طور پر سمجھدار بھی نہیں ہوتے اور اپنے آپ میں زیادہ دلچسپی بھی نہیں رکھتے۔ اگر انسانی رویوں کے بارے میں حقیقت پسندی کا معمولی سا بھی مظاہرہ کیا جائے تو کساد بازاری سے لڑنے کے لیے جارحانہ پالیسیوں کو بروئے کار لانا پڑتا ہے۔اپنے بعد کے کام میں جینیٹ ییلن نے یہ ثابت کیا کہ لیبر مارکیٹ کے نتائج کا دار و مدار زیادہ تر ڈالر اور سینٹ کے تخمینوں پر ہی نہیں ہوتا بلکہ مساوات اور انصاف پسندی کے تاثر پر بھی ہوتا ہے۔ اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ ڈسپلنڈ حقیقت پسندی سے شروع ہو کر ییلن کی اکیڈیمک ریسرچ تک ایک ڈائریکٹ لائن جاتی ہے جو ایک پالیسی میکر کے طور پر ان کی کامیابی کی عکاسی کرتی ہے۔ان کاتعلق ہمیشہ اس گروہ سے رہا ہے جس نے ڈیٹا اور ماڈلز کی اہمیت کا ادراک کر رکھا تھا۔ بلاشبہ اس طرح کے جذباتی دور میں بھرپور اور گہرا غور و فکر زیادہ اہم ہو جاتا ہے جب ماضی کے تجربات ہماری رہنمائی کرتے ہیں کہ اس صورت حال میں ہمیں کیا کرنا چاہئے مگر ییلن نے کبھی یہ بات فراموش نہیں کی کہ اکنامکس ہمیشہ عوام کے لیے ہوتی ہے یہ محض جذبات سے عاری اعداد و شمار بتانے والی مشینیں نہیں ہوتیں۔ان میں سے کسی کا بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ حالات ہمیشہ اچھے ہی ثابت ہوں گے۔
اگست 2018ء میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے صدر بننے کے بعد پانچ لاکھ پیداواری اداروں میں ملازمتوں پر لوگوں کو روزگار ملا ہے۔ ان کے مطابق یہ ان کی بعض تجارتی ڈیلز اور جارحانہ پالیسیاں اپنا کر معیشت کو محفوظ بنانے کا نتیجہ تھا۔جبکہ ان کے بقول چین امریکا تجارتی جنگ کی پالیسی سے بھی امریکی عوام کو فائدہ ملا پہنچا مگر ان کا یہ دعویٰ درست نہیں تھا۔ واشنگٹن ڈی سی میں قائم اکنامک پالیسی انسٹیوٹ نے اپنی رپورٹ میں ٹرمپ کے دعووں سے اتفاق نہیں کیا تھا اور ایک مختلف معاشی جائزہ پیش کیا تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق ٹرمپ کی صدارت کے ابتدائی دو سالوں میں پیداواری شعبوں سے زیادہ افراد ملازمتیں چھوڑ گئے تھے۔ اس ادارے نے اپنی رپورٹ میں واضح کیا تھا کہ صدر ٹرمپ کے بیانیے کے برعکس ان کی غلط، انا پرستانہ اور ناہموار پالیسیوں کی وجہ سے معنی خیز ترقی ممکن نہیں ہو سکی۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کورونا وبا سے پیدا ہونے والے بحران سے نمٹنے میں عدم کامیابی نے سابقہ دہائی کی تمام ترقی کو لپیٹ کر رکھ دیا گیا۔ڈونلڈ ٹرمپ بازارِ حصص میں مسلسل تیزی اور ڈائوجونز ا سٹاک مارکیٹ کے پوائنٹس میں چالیس فیصد اضافے کا بھی کریڈٹ لینے کی کوشش میں مشغول نظر آئے مگر ماہرین اقتصادیات کا ماننا ہے کہ اس تیزی کا کریڈٹ اوباما دور میں امریکی سینٹرل بینک کی جانب سے دی جانے والی مراعات تھیں۔ ٹیکس میں کمی کرنے پر بھی صدر ٹرمپ بہت فخر محسوس کرتے رہے مگر اس کمی نے امریکا کے بیس فیصد بڑے امرا کو ہی سب سے زیادہ فائدہ دیا۔ ان پالیسیوں کے پیچھے ٹرمپ کی کچن کیبنٹ تھی۔ ٹرمپ کی تو پوری کابینہ مسخروں کا مجموعہ تھی جو شاید امریکی تاریخ کی بدترین کابینہ قرار دی جا سکتی ہے مگر اس کابینہ کی نااہلی کے نتائج 2020ء سے پہلے منظر عام پر آنا شروع نہیں ہوئے تھے۔ ہمیں فوری طور پر اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ ہماری معاشی پالیسیاں وہی شخص تشکیل دے سکتا ہے جسے اس بات کا بھرپور ادراک ہو کہ وہ کیا کر رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔