... loading ...
پاکستان میں کورونا وائر س کی دوسری لہر کی شدت اور ہلاکت خیزی کا اندازہ پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا میں کووڈ 19 بیماری سے ہلاک ہونے افراد کی روز بہ روز بڑھتی ہوئی خبروں سے بخوبی لگایا جاسکتاہے ۔مگر بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ عوام تو پھر عوام ہی ہیں لیکن ہمارے ہاں! سیاسی خواص بھی کورونا وائرس کو اس بار ایک مہلک وبا سمجھنے کے بجائے ،اُسے ایک سیاسی وائرس ثابت کرنے میں دن ،رات ایک کیے ہوئے ہیں ۔وفاقی حکومت کورونا وائرس کے انسداد اور روک تھام کے لیے سیاسی بیان تو خوب دے رہی کہ ’’اپوزیشن اتحاد کو عوام کے وسیع تر مفاد میں کورونا وائرس کی دوسری لہر کی شدت کو دیکھتے ہوئے اپنے جلسے منسوخ کردینے چاہئیں‘‘۔ لیکن یہ بیان جاری کرنے کے تھوڑی دیر بعد وفاقی وزراء سماجی فاصلے یا ایس او پی کا لحاظ رکھے بغیر ایک بڑے مجمع عام میں سیاسی سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے دکھائی دے رہے ہوتے ہیں ،جیسے کورونا وائرس صرف اپوزیشن کے لیے ہے جبکہ حکومتی وزراء کو کووڈ 19 کی بیماری سے کوئی خاص استثنا حاصل ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن رہنما بھی ہزاروں افراد کے جلسے میں بڑی ترنگ سے فرمارہے ہوتے ہیں کہ ’’اے لوگو! کورونا وائرس ہمارے جلسے میں نہیں آسکتا کیونکہ ہم جمہوریت کے تحفظ کے لیے گھروں سے نکلے ہیں ‘‘۔یعنی حکومتی وزراء ہوں یا پھر اپوزیشن جماعتوں کے رہنماسب کے سب کورونا وائرس کی دوسری لہر کی ہلاکت خیزی اپنے اردگرد صاف صاف ملاحظہ کرنے کے باوجود بھی بضد ہیں کہ کورونا وائرس پاکستان کی غریب عوام کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔خاص طو رپر اپوزیشن الیون کے رہنماتو وزیراعظم پاکستان عمران خان سے سیاسی بغض میں،اس حد تک آگے نکل چکے ہیں کہ وہ تو اپنے آپ کو کورونا وائرس کا ’’وبائی سفیر ‘‘ہی بناچکے ہیں۔
حالانکہ اگر اپوزیشن الیون کے رہنما چھٹانک بھر بالغ نظر ی کا ثبوت دیتے ہوئے کچھ عرصے کے لیے سیاسی جلسے یا سیاسی اجتماعات کا انعقاد ترک کردیں تو اس طرز عمل سے ان کی اخلاقی ساکھ میں یقینا اضافہ ہی ہوگا لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ اپوزیشن رہنماؤں کے نزدیک ’’اخلاقی ساکھ ‘‘ کے مقابلے میں ’’سیاسی ساکھ‘‘کی اہمیت کہیں زیادہ ہے اور اپنی اِسی نام نہاد سیاسی ساکھ کو برقرار رکھنے یا بچانے کے لیے اپوزیشن رہنماؤں کا بس چلے تو یہ ملک کی ساری عوام کو ایک ہی جلسے میں جمع کر کے کورونا وائرس کی بھینٹ چڑھا نے سے بھی اجتناب نہیں کریں گے۔ ملتان کے جلسے سے اپوزیشن الیون نے سیاسی طور پر عمران خان کو کتنا کمزور کیا اور خود اپنے لیے کتنے بیش قیمت سیاسی فوائد سمیٹے ؟۔شاید اس سوال کا تسلی بخش اور متفقہ جواب تو خود اپوزیشن رہنماؤں کے پاس بھی نہیں ہوگا لیکن شعبہ طب سے وابستہ ماہرین کے مطابق ملتان کے جلسے نے جنوبی پنجاب میں اچانک ہی کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے اور پنجاب بھر کے اسپتالوں میں وینٹی لیٹر ز کی شدت قلت پیدا ہوگئی ہے۔ یہ سب جانتے بوجھتے بھی اپوزیشن الیون ابھی بھی نہ صرف لاہور میں سیاسی جلسہ کرنے پر بضد ہے بلکہ اپوزیشن الیون کے بارہویں کھلاڑی اور مستقل نااہل،سزایافتہ میاں محمد نواز شریف نے اپنی جماعت کے سرکردہ رہنماؤں کو حکم دیا ہے کہ ’’اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کا لاہور والا جلسہ بہر صورت اگر علامہ مولانا خادم حسین رضوی کے جنازے سے بڑا نہیں تو کم ازکم برابر لازمی ہونا چاہئے ،بصورت دیگر مسلم لیگ ن کے تمام رہنما سخت سے سخت سیاسی سزا کے لیے تیار رہیں ‘‘۔یعنی میاں محمد نواز شریف اپنی سیاسی جماعت کا’’قطری خط‘‘ سے بھرپور جنازہ نکال دینے کے بعد اَب لاہور میں’’کوروناوائرس ‘‘ سے پاکستانی عوام کا جنازہ نکالنے کا مصمم ارادہ کرچکے ہیں ۔ خدا خیر کرے اور پاکستانی عوام کو ’’وبائی سفیروں ‘‘ کے شر سے بچائے ۔
واضح رہے کہ اپوزیشن الیون کے گھاگ رہنماؤں سے زیادہ اخلاقی جرات اور سیاسی عقلمندی کا فیصلہ تو تن تنہا جماعت اسلامی کے امیر جناب سینیٹر سراج الحق نے کرلیا ہے کہ انہوں نے کورونا وائرس کی ہلاکت خیزی کو بروقت محسوس کرتے ہوئے فو ری طور پر ملک کے طو ل و عرض میں جماعت اسلامی پاکستان کے تحت ہونے والے ہرطرح کے اجتماعات پر پابندی کا اعلان کرنے میں نہ تو کوئی سیاسی شکست سمجھی اور نہ ہی کوئی سیاسی شرمندگی ۔بلکہ ہمارے خیال میں سینیٹر سراج الحق پاکستان کے تمام سیاسی رہنماؤں پر بازی لے گئے ہیں اور غالب امکان یہ ہی ہے کہ آج یا کل ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤ ں کو بھی سراج الحق کی تقلید کرتے ہوئے اپنے سیاسی اجتماعات پر پابندی کا اعلان ضروربالضرور کرنا ہی پڑے گا۔ کیونکہ اپوزیشن الیون کی یہ بہت بڑی سیاسی بھول اور خام خیالی ہے کہ اُن کے سیاسی اجتماعات صرف عوام کی زندگیوں کو ہی ہلاکت میں ڈالیں گے ۔حالانکہ سیاسی جلسوںمیں کورونا وائرس کا شکار ہونے کا جتنا خطرہ عوام کو ہے ،اُس سے کہیں زیادہ خطرات تو اُن جلسوں میں شریک سیاسی رہنماؤں کو لاحق ہے۔بہرحال کوئی کچھ بھی کہتے لیکن ذرہ برابر بھی دانش رکھنے والا شخص تو یہ ہی کہے گا کہ کورونا وائرس کی دوسری خطرناک ترین اور ہلاکت خیز لہر میں سیاسی جلسوں کا انعقاد کرنا ’’آ کورونا ،مجھے مار ‘‘ کے مترادف ہے۔اَب دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن الیون کے عاقبت نااندیشن رہنماؤں کو کتنے جنازے اُٹھانے کے بعد سیاسی عقل آتی ہے۔ویسے ایک بات اپوزیشن الیون کے ہر رہنماکو معلوم ہونی چاہئے کہ اگرخدانخواستہ سیاسی جلسوں میں شرکت کی وجہ سے اپوزیشن کا کوئی رہنما کورونا وائرس کے باعث ہلاک ہوجاتاہے تو اس کا الزام وزیراعظم پاکستان عمران خان پر کسی بھی صورت عائد نہیں کیا جاسکے گا کیونکہ پاکستان کی 22 بائیس کروڑ عوام صبح و شام دیکھ اور سن رہی ہے کہ ’’آکورونا ،مجھے مار ‘‘ کی سیاسی پالیسی پر کون عمل پیراہے اور اسمارٹ لاک ڈاؤن کے ذریعے کورونا وائرس کو لگام ڈالنے کی کامیاب حکمت عملی کون اختیار کیئے ہوئے ہے۔اس لیے کورونا وائرس کو فروغ دیتے ہوئے کووڈ 19 بیماری کا شکار ہونے والے اپوزیشن رہنما کو ہم ’’وبائی سفیر ‘‘ تو ضرور قرار دے سکتے ہیں لیکن شاید ’’سیاسی شہید ‘‘ نہ کہہ سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔