... loading ...
(مہمان کالم)
جوناتھن پاور
امریکا کے اس وقت دنیا میں جتنے بھی دشمن ہیں، ان میں ایران تسلسل کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔ 1979ء کا اسلامی انقلاب جس نے سیکولر شاہ کا تختہ الٹ کر اس کی جگہ بنیاد پرستوں کو بٹھا دیا، اس کے بعد سے ایران امریکا کا گریٹ شیطان ہے۔ تاہم یورپ کی نظر میں ایران میں ایسی کوئی خاص خرابی نہیں۔ فارن افیئرز کے حالیہ ایڈیشن میں پروفیسر ڈنیل بینجمن اور پروفیسر سٹیون سائمن لکھتے ہیں، ’’گزشتہ 100 سال سے تاریخ دان یہ فیصلہ کرنے کی کوشش میں ہے کہ سرد جنگ کے دور سے امریکا کس بیرونی طاقت سے خوفزدہ رہا ہے۔ اس دوران یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ روس پہلے کٹر دشمن، پھر دوست اور اب ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ اسی دوران چین ایک بڑا حریف بن جاتا ہے۔ شمالی کوریا محض ایک سائیڈ شو ہے، صرف ایران ایک متواتر اور ناقابل تسخیر دشمن کے طور پر ملتا ہے‘‘۔ صدر ٹرمپ ایران پر معاشی پابندیاں لگا چکے پھر بھی اس کے انداز میں کوئی تبدیلی نہیں ا?ئی ،ابھی چند ماہ قبل ایک وقت میں ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے صدر ٹرمپ ایران پر حملے کا حکم دینے والے ہیں۔
ایران کی انقلابی حکومت ابتدا سے ہی امریکا کے ساتھ اشتعال انگیزیاں کرتی رہی ہے۔ اس نے دوبارہ سے اس سطح کی یورینیم افزودگی شروع کر دی ہے جس کے نتیجے میں وہ کسی بھی دن ایٹم بم تیار کر سکتا ہے۔ وہ شام کی بشارالاسد حکومت کو سپورٹ کرنے اور اپنے پراکسی حزب اللہ کے ذریعے اسرائیل کو اشتعال دلا نے کے علاوہ عراق میں مختلف شیعہ ملیشیائوں، یمن میں حوثی باغیوں کی سرپرستی کر رہا ہے۔ البتہ افغانستان میں امریکا اور نیٹو کے ساتھ مفادات کی ہم آہنگی کے باعث غیر اعلامیہ ان کی معاونت کر رہا ہے۔
تیل کی کل عالمی برآمدات کا ایک چوتھائی خلیج فارس سے گزرتا ہے جہاں ایران کی طویل ساحلی پٹی ہے۔ ان برآمدات کا ایک فیصد بھی امریکا نہیں پہنچتا مگر ان میں خلل تیل کی عالمی قیمتوں کو بْری طرح متاثر کر سکتا ہے۔ اس تیل کا بڑا حصہ چین جاتا ہے جو کہ ایران کا اہم حمایتی ہے۔ آبنائے ہرمز سے متعلق سنگین خدشات کے برعکس اس سمندری راہداری کے بند ہونے کا امکان نہیں۔ کیونکہ یہ کوئی معمولی سا تنگ راستہ نہیں۔ ایران نے حال ہی میں دو غیر امریکی آئل ٹینکر روکے جو کہ محض مغرب کو ہراساں کرنے کیلئے تھے۔ اگر طاقت کے توازن کی بات کی جائے تو واشنگٹن کا تہران کے بارے میں خبط مضحکہ خیز ہے۔ ایرانی معیشت بہت بڑی نہیں ہے۔ امریکا اور مشرق وسطیٰ میں اس کے اتحادی جن میں اسرائیل، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سرفہرست ہیں، کے مجموعی دفاعی اخراجات سالانہ 750 ارب ڈالر سے زائد ہیں جو ایران کے دفاعی اخراجات سے 50 گنا زیادہ ہیں۔ ایرانی میزائل بہت زیادہ دور تک مار کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملے میں استعمال ہونے والے ڈرون جنہوں نے ریڈار سے نیچے پرواز کی، ان کی ٹیکنالوجی کافی سادہ تھی۔
اختلافات کے باوجود صدر اوباما نے روس اور یورپی یونین کی حمایت کے ساتھ ایرانی قیادت سے بات چیت شروع کی اور ایرانی نیوکلیئر ریسرچ سینٹر رول بیک کرا کے ایٹمی ہتھیار بنانے کا خطرہ ختم کیا۔ بعض رپورٹس کے مطابق ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کا خواہشمند نہیں تھا۔ 2015ء کی نیوکلیئر ڈیل کا ایک مقصد ایرانی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار کرنا تھا تاکہ مشرقی وسطیٰ میںاس کی اشتعال انگیز مداخلت کم سے کم کی جا سکے۔ مگر اوباما نے یہ موقع گنوا دیا۔ شروع میں ایران نے انہیں مذاکرات کی پیشکش کی جسے انہوں نے رد کر دیا تھا۔ انہوں نے اینٹی نیوکلیئر مذاکرات کا عمل بھی بہت تاخیر سے شروع کیا۔ ٹرمپ جسے اوباما دور کی ہر کامیابی سبوتاژکرنے کی بیماری ہے، اس نے نیوکلیئر ڈیل کے مکمل طور پر فعال ہونے سے قبل ہی اسے ایک متروک دستاویز بنا دیا۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں کے 40 سال سے ہتھکنڈوں اور تنہائی برداشت کرنیوالے ملک سے توقع کرنا کہ وہ جھک جائے گا، ممکن نہیں۔ اسرائیل سے مخاصمت کی بڑی وجہ ایرانی خدشات ہیں کہ وہ اس کا تختہ الٹنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ عراق میں 2003ء کے امریکی حملے سے قبل ایران کا کہیں نام و نشان نہیں تھا۔ ایران عراق جنگ کے دوران صدام حسین کو سپورٹ کرنے میں امریکا بھی پیش پیش تھا۔ سعودی عرب کی ایرانی حکومت کا تختہ الٹنے کی شدید خواہش کی وجوہات کچھ سیاسی اور کچھ مذہبی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایران حوثی باغیوں کے ذریعے سعودی عرب کو زخم لگا رہا ہے۔ جواب میں سعودی اقدامات کسی لحاظ سے قابل ستائش نہیں، جن میں اس کی فورسز خواتین، بچوں بلکہ ہسپتالوں کے ساتھ بھی کوئی رعایت نہیں کر رہی ہیں۔ شام کے ساتھ ایران کے تعلقات دراصل دو شیعہ ریاستوں کے مابین ایک سودا ہے کیونکہ دونوں مشرق وسطیٰ کی سنی اکثریت سے خوفزدہ ہیں۔ ان تمام تنازعات کا امریکی مفادات سے کوئی ٹکراو? نہیں۔
امریکا اور ایران میں فاصلے ایسے نہیں کہ کبھی ختم نہ ہو سکیں۔ یورپی یونین نے ہمیشہ یہ فاصلے ختم کرانے کی کوشش کی لیکن امریکی پابندیوں کی وجہ سے اب وہ کچھ کرنے سے قاصر ہے۔ امریکا کا ایرانی معیشت اور حکومت کو مکمل عدم استحکام سے دوچار کرنا اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہو گا کیونکہ اس سے مشرق وسطیٰ کے عدم استحکام میں مزید اضافہ ہو گا، پناہ گزینوں کا بحران بھی بڑھ جائے گا۔ ایران جارح مزاج ہو سکتا ہے، مگر اس کیلئے ممکن نہیں کہ وہ مسلسل حالت جنگ میںمیں رہے،اوبامانے روس اوریورپی یونین کے تعاون سے ایک راستہ دکھایاتھاان کے راستے پرجتنی جلدی امریکالوٹتاہے اتنی ہی تیزی سے مشرق وسطی میں قیام امن کی راہ ہموارہوجائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔