... loading ...
عمران خان کاحالیہ دورہ کابل بہت اہمیت کا حامل ہے ہمسایہ ملک کا قصد کرتے ہوئے وفد کے انتخاب میں وزیراعظم نے سنجیدگی دکھائی ہے شاہ محمود قریشی ،صنعت و تجارت کے مشیر رزاق دائوداور ڈی جی آئی ایس آئی کو ساتھ لیجا نے سے واضح ہے کہ دونوں ممالک نے اختلافی امور پر اپنے اپنے نکتہ نظر کی وضاحت کرنے کے ساتھ مشترکہ مفادومقاصدکے حصول میں حائل رکاوٹیں دور کرنے پر تبادلہ خیال کیاہے دورے کا امریکااوریورپی یونین نے خیر مقدم کرتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات خوشگوار ہونے کے ساتھ افغان شورش پرقابو پانے میں بھی مدد ملے گی لیکن تلخ ماضی کے تناظر میں زیادہ توقعات وابستہ کرنا مناسب نہیں کیونکہ دہائیوں سے دونوں ممالک میں موجودبداعتمادی اور شکوک و شبہات ہیںحالانکہ دونوں ممالک کی سیاسی اور عسکری قیادت میں تبادلہ خیال کا عمل مسلسل جاری ہے باہمی تلخیوں کی وجہ سے دوطرفہ تجارت کا حجم دوارب ڈالر سے کم ہو کرمحض نوے کروڑ رہ گیا ہے مستقبل میں جنگوں سے نہیں ملک معیشت کے ذریعے فتح ہوں گے اور معیشت کے فروغ کے لیے امن ناگزیر ہے دونوں ہمسایہ ممالک باہمی تعاون سے غربت و بے روزگاری کا خاتمہ کر سکتے ہیں مگر اولیں شرط باہمی اعتماد ہے خیر سگالی کے فروغ کے لیے اشرف غنی نے افغانستان میں قید کئی پاکستانیوں کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے لیکن جب تک سرحدوں پر بدامنی کا خاتمہ اور امن مخالف عناصر کا یکسوئی سے مقابلہ نہیں کیا جاتا تب تک پاک افغان تعلقات میںزیادہ بہتری کا امکان نہیں ۔
طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان کا اخلاص کسی سے پوشیدہ نہیں امریکا بھی معترف ہے دوحہ امن معاہدہ پاکستانی اخلاص کی عمدہ مثال ہے اشرف غنی نے دوحہ مذاکرات میں پُر خلوص کردار پر تشکربھی کیا ہے مگر امن ،ترقی اور خوشحالی کے لیے جب تک دونوں ملک مل کر کام نہیں کریں گے تب تک تلخیوں کازہرکم نہیں ہوسکتا پاکستان کے تعاون کا جواب میں بھارت کو تھپکی، دوستی کے تقاضوں کے منافی ہے انٹر افغان مذاکرات میں بھی پاکستان کا کردار مثبت اور حوصلہ افزا ہے لیکن افغان حکومت کوتجارتی مراعات کے لیے بھارت کے سواکوئی نظر نہیں آتا یہ دوستانہ اطوار نہیں معاندانہ سوچ ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کے دورے سے افغان قیادت نرم ہوتی ہے یا روایتی پالیسی پر کاربند رہتی ہے الزام تراشی کا سلسلہ ترک کرنے سے یقین سے کہہ سکیں گے کہ دوطرفہ اختلافات میں اضافے کی بجائے بہتری کا روزن کھل رہا ہے۔
حامد کرزائی سے لیکر اشرف غنی تک کے دورمیں پاک افغان تعلقات کشیدگی اور سردمہری کا شکاررہے بہتری کی ہلکی سی رمق بھی کسی ایک واقعہ سے فضا میں دھوئیں کی طرح تحلیل ہوجاتی ہے بداعتمادی اور شکوک وشبہات بڑھانے کی بھارت نے بھی ہر ممکن کوشش کی ہے سرحدی حدود کے تعین میں افغان قیادت نے خلوص کے جواب میں کبھی گرمجوشی نہیں دکھائی بلکہ سیاسی و عسکری قیادت نے ہمسایہ اسلامی ملک کے خلاف سازشوں میں آلہ کار کا کردار ادا کیا ہے طالبان کے دورِ حکومت میں دونوں ملکوں میں اعتماد کی فضا بنی لیکن عالمی طاقتوں کے چڑھائی سے اعتماد کی فضا کے خاتمے کے ساتھ خطے کا امن بھی رخصت ہوگیا یہ بات کوئی راز نہیں رہا کہ اعلٰی حکومتی عہدوں پر فائز شخصیات اور ایجنسیاں تک پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیوں میں بھارت کی آلہ کار ہیں اسی لیے خلوص کاجواب بے رُخی سے دیکر بھارتی سازشوں میں سہولت کار کا کردار ادا کرتے ہیں عمران خان کی کابل آمد سے کیا بداعتمادی اور شکوک و شبہات کا خاتمہ ہوجائے گا ؟میرے خیال میں میں سردمہری میں کچھ کمی آسکتی ہے۔
پاکستان کئی بار کابل حکومت کو آگاہ کرچکا کہ بھارت نے پراکسی وار کے لیے افغانستان کو مرکز بنا رکھا ہے مگر حامدکرزئی کی طرح اشرف غنی حکومت نے کبھی تحفظات دور کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ افغانستان میں جاری شورش کاپاکستان کو زمہ دار ٹھہرا کر معصوم بننے کی روش اختیارکی جس کی وجہ سے دونوں برادر اسلامی ممالک میں اعتماد کی فضا نہ بن پائی لیکن اب حالات بدل رہے ہیں امریکا راہ فرار اختیار کررہا ہے اور افغان حکومت کی مالی اعانت میں تخفیف کی روش پر گامزن ہے اِس لیے افغان قیادت کو حقائق کا ادراک کرتے ہوئے اچھی ہمسائیگی دکھانی چاہیے شائبہ نہیں کہ افغانستان ایک قبائلی معاشرت کا حامل ملک ہے اور اُس کے سیکورٹی اِداروں میں اتنی استعداد نہیں کہ وہ بیرونی اعانت کے بغیر ملک میں جاری انتشارو افراتفری پر قابو پا سکے اندرونی و بیرونی درپیش چیلنجز پر قابو پانے کے لیے کسی نہ کسی پر تکیہ کرنا مجبوری ہے لیکن یہ مجبوری کسی ہمسائے کے خلاف سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دیے بغیر بھی پوری ہو سکتی ہے بشرطیکہ افغان قیادت سنجیدہ ہو وزیرِ اعظم کا حالیہ دورہ تجارتی رکاوٹوں اور قومی سلامتی کو درپیش خطرات کے تناظر میں کافی اہم ہے لیکن افغان قیادت کے تعاون کے بغیر مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے ۔
پاک افغان طویل سرحد پر غیر قانونی آمدورفت کا خاتمہ دونوں ممالک کی اولیں خواہش ہے کیونکہ تخریب کاراور منشیات فروش دشوار گزرگاہوں کے ذریعے ہی مذموم مقاصد حاصل کرتے ہیں المیہ یہ ہے کہ دراندازوں کو روکنے کے لیے پاکستان باڑ لگاتا ہے تو افغانستان معترض ہوتاہے اگر سرحدوں پر نظر رکھنے کے لیے دستے تعینات کرتا ہے تب بھی افغانستان اعتراض کرتا ہے حالانکہ دونوں ممالک سرحدوں پر آمدورفت کو قانونی بنا کر نہ صرف شرپسندوںکا خاتمہ اوراندرونی انتشار پر قابو پا سکتے ہیں بلکہ منشیات فروشی کا بھی خاتمہ کر سکتے ہیںلیکن جب تک افغان قیادت بھارت کو سرزمین کے استعمال سے باز نہیں کرتی تب تک پاکستانی کاوشیں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتیں۔
شاہ محمود قریشی اور میجرجنرل بابرنے مشترکہ پریس کانفرنس میں بھارت کی دہشت گردانہ کاروائیوںکے ثبوتوں پر مبنی ڈوزیئر پیش کیا یو این او کے سیکرٹری جنرل اورسلامتی کونسل کے مستقل ممبران ممالک کے سفیروں کوبھی آگاہ کیا جا چکاجنھیں جھٹلانا آسان نہیں ڈوزیئر کی تفصیلات سے صاف معلوم ہوتاہے کہ پاکستان کے خلاف زیادہ ترکاروائیوں میں ملوث تخریب کاروں کی سرپرستی و معاونت افغانستان میں قائم بھارتی سفارتخانہ اور قونصلیٹ کرتے ہیںقبل ازیں افغانستان کی ہر حکومت ملک میں جاری لڑائی کا زمہ دار پاکستان کو ٹھہراکر بدنام کرتی رہی لیکن جب سے بھارت نے حکومتی سطح پر دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے اور سی پیک کو ناکام بنانے کا سلسلہ شروع کیا ہے پاکستانی اِداروں کے ہاتھ ناقابلِ تردید ثبوت آ گئے ہیں جن کی روشنی میں سفارتی ذرائع سے افغان حکومت سے رابطہ کرکے مسلہ اُٹھایا گیا اب وزیراعظم کے ساتھ ڈی جی آئی ایس آئی کا جانا ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان نے بھارت کی پراکسی وار پرافغان قیادت سے دوٹوک بات کی ہوگی اِس لیے پاک افغان تعلقات میں بہتری لانے کے ساتھ وزیراعظم کا دورہ بلوچستان اور کے پی کے میں جاری تخریبی لہر کا زورتوڑنے کا باعث بن سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔