... loading ...
وطنِ عزیر میں کورونا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں ایک طرف متواتر اضافہ ہوتاجارہا ہے دوسری طرف احتیاطی تدابیر کو یکسر پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے نام سے بننے والا گیارہ جماعتوں کا اتحاد ملک کے طول وعرض میں جلسے کرنے میں مصروف ہے جبکہ جماعتِ اسلامی نے بھی جماعتی اجتماعات اور احتجاجی ریلیاں شروع کر رکھی ہیں علاوہ ازیں صاحبانِ اقتدار مخالفین کوتو اجتماعات سے باز رہنے کا مشورہ دیتے ہیں لیکن خود رابطہ مہم میں کمی پر آمادہ نہیں عوام میں بھی احتیاطی تدابیر پر سنجیدگی سے عمل نہیں ہورہا جس پر ہیلتھ پروفیشنلز پریشان ہیں اور کورونا سے ہونے والی اموات میں اضافے کاخدشہ ظاہر کر رہے ہیں ہونے والی اموات کا ذمہ دارکون ہو گا حکمران، اپوزیشن اورعوام زمہ داری قبول کرنے پر آمادہ و تیار نہیں سب ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دیکرخود بری الزمہ ہونے کے چکر میں ہیں یہ کسی طور مناسب نہیں سیاسی سرگرمیاں کچھ عرصہ موقوف کرنے میں ہی عافیت ہے اور اگر بہت ضروری ہوتو احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد یقینی بنا کر اجتماعات کیے جا سکتے ہیںبختاور بھٹو کی منگنی کی تقریب میں اگر کورونا ٹیسٹ کی منفی کی رپورٹ لانے والوں کوہی شرکت کی اجازت دی جا سکتی ہے تو ایسا طرزعمل دیگر سیاسی سرگرمیوں میں کیونکر نہیں اپنایا جا سکتا۔
پی ڈی ایم کا موقف ہے کہ حکمران خود کرونا ہیں انھوں نے معیشت تباہ کر دی اب میدانِ جنگ سے پیچھے ہٹنا گناہ کبیرہ ہے جبکہ حکمرانوں نے اپوزیشن پر الزامات کی بوچھاڑ کر رکھی ہے کبھی ملک دشمن کہا جاتا ہے اور کبھی کورونا کے کیس بڑھنے پر مقدمات درج کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے کوئی بندہ خدا پوچھے جو اپوزیشن انتظامیہ سے جلسوں کی اجازت لینے کی روادار نہیں وہ مقدمات سے کیونکر خائف ہو سکتی ہے؟ لیکن دشنام طرازی کے مقابلے میں عوامی صحت کو دائو پر لگانے کو کسی طور سود مند نہیں کہہ سکتے ۔یہ درست ہے کہ اپوزیشن کے جلسوں سے حکمرانوں کا اعتماد رخصت ہو چکا اور وہ دبائو کا شکار ہیں شیخ رشید اور گورنر سرور بظاہر تو اپوزیشن کی سرگرمیوں سے خوفزدہ نہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ اپوزیشن کے عوامی رابطے کے سلسلے سے حکومت نہ صرف پریشان ہے بلکہ دفاعی پوزیشن پر کھڑی نظر آتی ہے جس کا کارکردگی پر اثر ہواہے لیکن حکومت ہو یا اپوزیشن دونوں کو یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ ملک میں صحتِ عامہ کی سہولتیں پہلے ہی تسلی بخش نہیں ایسے میں کورونا کے بے قابو ہونے سے المیہ جنم لے سکتا ہے اگر دونوں ہی اعتدال کا مظاہرہ کریں اور زمہ دارانہ طرزِ عمل اپنائیں تو عوام میں نہ صرف ساکھ بہتر ہوگی بلکہ کرونا کا خطرہ بھی کم ہو سکتا ہے۔
عالمی وبا کورونا کے ملک میں پہلے مریض کی رواں برس چھبیس فروری کو تشخیص ہوئی پھر دیکھتے ہی دیکھتے وبا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اموات میں بھی تیزی غالب رہی لیکن جون کے بعد جولائی میں صورتحال بہتر ہونے لگی جس کا حکمرانوں نے کریڈٹ لینے کی کوشش کی کچھ حکومتی اقدامات کی عالمی سطح پر پزیرائی بھی ہوئی صورتحال بہتر ہونے پر حکومت نے ایس او پیز کی شرط کے تحت تعلیمی وکاروباری اِدارے کھول دیے مگر مسلسل بے احتیاطی اور سرد موسم کی وجہ سے ایک بار پھر کورونابے قابو ہوتا نظر آنے لگا ہے اگر ہیلتھ پروفیشنلز کے پیشگی انتباہات کو سنجیدہ لیا جاتا تو صورتحال اتنی خراب نہ ہوتی لیکن یہ ملک کی بدقسمتی ہے کہ جنھوں نے اصلاح ِ احوال کرنی ہے وہ ہی شتر بے مہارہیں قبل ازیں جب بھی حکومت اور اپوزیشن میں محازآرائی حد سے کراس کرنے لگتی تو مداخلت کے ذریعے افہام و تفہیم کی راہ نکال لی جاتی موجودہ کشیدگی کے ماحول میں کسی اِدارے کی مداخلت سے ٹھہرائو پیدا ہونا تو درکنا صورتحال اور زیادہ خراب ہو سکتی ہے کیونکہ اپوزیشن کسی کی مداخلت قبول کرنے پر آمادہ نہیں اِس لیے مجھے نہیں لگتا کہ جلسے جلوسوں کا سلسلہ روکنے میں کوئی حربہ کارگر ہو۔اس وقت ملک میں سیاسی استحکام کے لیے وسیع تر قومی مکالمے کی اشد ضرورت ہے وگرنہ کورونا کی تباہ کاریاں بے قابو ہو سکتی ہیں ضرورت اِس امر کی ہے کہ ذمہ داران ذاتیات سے بالاتر ہوکر ملک کے مفاد اورقوم کی صحت کا تحفظ کریں ترقیافتہ ممالک میں لاک ڈائون ہورہا ہے معیشتیں تباہی کے دہانے پر ہیں ایسے میںبے احتیاطی سے خود اپنے ہاتھوں انسانی جانیں دائو پر لگانا ناقابلِ فہم ہے ۔
کسی کو خوفزدہ کرنا مقصود نہیں اِس وقت ملک میں فعال کیسوں کی تعداد 36983ہوچکی ہے جن میں سے 1653کی حالت نازک ہے اتوار کو 59پیر کو 34مریض جاںبحق ہوئے ملک میںکرونامثبت ٹیسٹوں کی شرح 7.4تک پہنچ گئی ہے لیکن لگتا ہے زمہ داران کو تشویشناک صورتحال کا ادراک نہیں کھینچا تانی اور سرپٹھول میں ہی کامیابی کا راز سمجھ بیٹھے ہیں اگر طبی ماہرین کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے عوامی مقامات پرماسک کا استعمال یقینی بنایا جائے تو بہتری کا ا مکان ہے مگر نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کی رپورٹ کے مطابق طلبا کی محض دس سے بیس فیصد تعدادہی ماسک کا استعمال کر رہی ہے یہ بے احتیاطی کی انتہا ہے عالمی ماہرین کا کہنا بجا ہے کہ ماسک کے سو فیصد استعمال سے ہی کورونا کے پھیلائو پر قابو پا یا جا سکتا ہے بے احتیاطی سے ناقابلِ تلافی نقصان ہو سکتا ہے لہذا بطور قوم سوچنے میں بھلائی ہے کیونکہ پچھتاوے سے بحر حال احتیاط سے بہتر ہے تھوڑی سی احتیاط بڑے خطرے کو کم کر سکتی ہے۔
کورونا ویکسین کا کامیابی سے ٹرائل ہو چکا ہے اور آئندہ سال یہ ویکسین مارکیٹ میں دستیاب ہونے کا قومی امکان ہے عالمی اِدارہ صحت اور یونسیف نے ملکر ترقی پذیر اور غریب ممالک کو ویکسین فراہم کرنے کے لیے لائحہ عمل مرتب کر لیا ہے مگر ہمیں اپنے وسائل کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ تمام توانائیاں اپوزیشن سے لڑنے پر صرف کرنے کی بجائے اصل اور فوری توجہ طلب مسائل کی طرف دھیان دے اور وسائل کی روشنی میں حتمی فیصلوں میں تاخیر نہ کرے اپوزیشن کا کام ہی تنقید کرنا ہے لیکن مسائل کے حل کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کورونا سے بچائو کی احتیاطی تدابیرپر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے ساتھ ویکسین کی بروقت فراہمی میں تساہل کی کوئی گنجائش نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔