... loading ...
دوستو، اوٹ پٹانگ باتیں تو ہوتی ہی رہتی ہیں، اب ہم نے سوچا ہے ،آپ کو مہینے میں ایک آدھ بار کچھ معلومات بھی فراہم کی جائیں۔۔ اس کے لیے ہم آپ کو دنیا بھر کی وہ اہم باتیں بتائیں گے، جو شاید آپ کی نظر سے نہ گزری ہو۔۔ یہ باتیں اگر آپ اپنے پلو سے باندھ لیں گے تو یقینی طور پر فائدہ ہی اٹھائیں گے۔۔ مطالعہ کا شوق ہے اس لیے دیسی ہی نہیں ولایتی اخبارات بھی زیرمطالعہ رہتے ہیں ، ان میں ایسی خبریں بھی ہوتی ہیں جو ہمارے میڈیا میں نہیں آتیں، یا ہمارے والوں کی ان پر نظر نہیں پڑتی، یہ خبریں قطعی غیرسیاسی اور عام زندگی سے متعلق ہوں گی۔۔اس لیے آپ کو قطعی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ چلئے پھر آج کا رنگ جہاں شروع کرتے ہیں۔۔
وٹامن ڈی ہماری صحت کے لیے ناگزیر اور کئی طبی فوائد کا حامل ہے۔ اب سائنسدانوں نے اس کے متعلق ایک اور انتہائی مفید بات بتا دی ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے 25ہزار لوگوں پر کی گئی تحقیق کے نتائج میں بتایا ہے کہ جو لوگ روزانہ وٹامن ڈی کی ایک خوراک لیتے ہیں انہیں انتہائی مرحلے کا جان لیوا کینسر لاحق ہونے کا خطرہ 17فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ جو لوگ موٹاپے کا شکار نہ ہوں اور ان کا باڈی میس انڈیکس نارمل ہو، ان کے لیے وٹامن ڈی کی ایک خوراک روزانہ لینے کا فائدہ اس سے دو گنا زیادہ ہوتا ہے۔ انہیں جان لیوا نوعیت کا کینسر لاحق ہونے کا خطرہ 38فیصد کم ہو جاتا ہے۔تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ ڈاکٹر شینڈلر کا کہنا تھا کہ ’’وٹامن ڈی عام دستیاب اور بہت سستا سپلیمنٹ ہے تاہم اس کے طبی فوائد اس قدر زیادہ ہیں کہ ہر شخص کو اس کی ایک خوراک روزانہ لازمی لینی چاہیے۔یہ کینسر کے خلیوں کی بڑھوتری کے خلاف مزاحمت کرتا اور انہیں پھیلنے سے روکتا ہے۔
حالیہ دہائیوں میں لوگوں کی غذائی عادات بہت کچھ تبدیل ہوئی ہیں اور فاسٹ فوڈز کا چلن عام ہو چکا ہے جس کی وجہ سے دنیا میں موٹاپے کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اب سائنسدانوں نے اس حوالے سے ایک اور وارننگ جاری کر دی ہے۔ پوٹس ڈیم انسٹیٹیوٹ کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ لوگ جس تیزی کے ساتھ غیرصحت مندانہ خوراک کی طرف راغب ہو رہے ہیں، اس سے 2050 تک دنیا کا ہر دوسرا شخص موٹاپے کا شکار ہو جائے گا۔سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ ’’30سال بعد دنیا کی چار ارب آبادی موٹاپے میں مبتلا ہو گی جن میں سے ڈیڑھ ارب لوگ انتہائی موٹاپے کی کیٹیگری میں آئیں گے۔ اس کے برعکس صرف 50کروڑ لوگ کم وزن قرار پائیں گے اور ان لوگوں میں سے بیشتر کا تعلق غریب ممالک سے ہوگا۔‘‘تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر بوڈیرسکی کا کہنا تھا کہ 2010دنیا کی 29فیصد آبادی موٹاپے کا شکار ہو چکی تھی اور ان میں سے 9فیصد انتہائی موٹاپے کی کٹیگری میں آتے تھے۔ اب مزید 10سال گزرنے پر یہ تعداد بہت زیادہ بڑھ چکی ہے اور اگلے 30سال بعد آدھی سے زیادہ دنیا موٹاپے کا شکار ہو گی۔ سائنسدانوں نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں پراسیسڈ فوڈزاور غذائیت سے عاری اشیائے خورونوش کا چلن عام ہو رہا ہے اور یہی موٹاپے کی شرح خطرناک حد تک بڑھنے کی اصل وجہ ہو گی۔
نوجوان نسل میں اکثر لوگ ہمہ وقت فون پر سوشل میڈیا کے استعمال یا گیمز کھیلنے میں مگن رہتے ہیں تاہم اب سائنسدانوں نے اس عادت کے متعلق ایک تشویشناک خبر سنا دی ہے۔ جرمن سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ جو لوگ موبائل فون پر زیادہ وقت سوشل میڈیا استعمال کرنے یا ویڈیو گیمز کھیلنے میں گزارتے ہیں ایسے لوگوں کا خود پر کنٹرول کم ہوتا ہے اور ایسے لوگ بہت جلد باز اور اضطراری طبیعت کے مالک ہوتے ہیں۔برلن کی فریئی یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے اس تحقیق میں 101آئی فون صارفین کے فون استعمال کرنے کی عادت کی نگرانی کی اور اس کا ان کے مزاج کے ساتھ تجزیہ کرکے نتائج مرتب کیے۔ نتائج میں سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ ’’ہماری تحقیق میں اسمارٹ فون کے استعمال اور جلدبازی میں فیصلے کرنے کی عادت کے درمیان تعلق کے واضح شواہد سامنے آئے ہیں۔ ایسے لوگوں میں بہت جلد مالی فائدہ لینے کی خو بھی پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے ان کے جوئے کی لت میں مبتلا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔۔
عالمی ادارہ صحت یورپ کے ڈائریکٹر ہنس کلگو نے کہا ہے کہ اگر 95 فیصد لوگ محفوظ ماسک پہنتے ہیں تو ملک کے کسی بھی حصے میں کورونا وائرس کے سلسلے میں لاک ڈاؤن لگانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ہنس کلگو کا پریس بریفنگ کے دوران کہنا تھا کہ اگر ہم سبھی اپنے حصے کا کام کریں یعنی محفوظ ماسک پہنیں تو لاک ڈاؤن سے بچاجاسکتا ہے،میں اس بات سے پوری طرح متفق ہوں لاک ڈاؤن کورونا وائرس کے خلاف اٹھایا جانے والا آخری طریقہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ماسک پہننا کورونا وائرس کے خلاف مکمل بچانے کے طورپر کام نہیں کرتا،اس کے ساتھ سوشل ڈسٹنسنگ اور ہاتھوں کے سینیٹائز کرنے سے لے کر تمام دیگر طریقوں کو بھی اپنانا ضروری ہے لیکن ماسک پہننا ضروری ہے۔ہنس کلگو نے کورونا انفیکشن کو روکنے کے لیے اسکولوں کو بندکرنے کے اقدام کو غیرموثرقدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ بچوں اور نوجوانوں کو کورونا انفیکشن کا بنیادی کیریئر نہیں مانا گیا،اسکولوں کو بند کرنے کاعمل بھی کوڈ کیانفیکشن کی روک تھام کے لیے موثر طریقہ کار نہیں مانا جاسکتا،جو بھی ملک اسکولوں کو بند کرنے کے بارے میں غوروفکر کر رہے ہیں ان سے میری درخواست ہے کہ وہ اس کے برے اثرات کے بارے میں بھی غور کریں کیونکہ اسکول بند کرنے سے بچوں کی صحت پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
ملازمت پیشہ خواتین کی آمدنی ان کے شوہروں میں ذہنی تناؤ میں کمی یا اضافے کا بھی سبب بنتی ہے۔ یہ انکشاف برطانوی سائنسدانوں نے ایک نئی تحقیق میں کیا ہے۔ یونیورسٹی آف لندن کے سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ اگر بیوی کی آمدنی شوہر سے زیادہ ہو تو اس سے شوہر ذہنی تناؤ اور دیگر نفسیاتی مسائل کا شکار ہوسکتا ہے۔ بیوی کی آمدنی اس وقت شوہر کی نفسیاتی صحت پر اچھے اثرات مرتب کرتی ہے جب وہ گھر کی مجموعی آمدنی کے 40فیصد سے کم ہو۔ اگر بیوی کی آمدنی اس سے بڑھ جائے تو شوہر کی ذہنی صحت پر اس کے منفی اثرات بھی بڑھنے شروع ہو جاتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں نے اس تحقیق میں 6ہزار جوڑوں کی آمدنی اور ان کی ذہنی صحت پر اس کے اثرات کا 15سال تک جائزہ لیا اور نتائج مرتب کیے۔ تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ ڈاکٹر ونیزا گیش کا کہنا تھا کہ۔۔ شوہر اس وقت سب سے زیادہ ذہنی تناؤ کا شکار ہوتے ہیں جب وہ اپنے گھر کے واحد کفیل ہوتے ہیںا ور سارا بوجھ ان کے کندھوں پر ہوتا ہے۔ اگر بیوی کما رہی ہو اور اس کی آمدنی شوہر کی آمدنی کے 40فیصد تک ہو، تو اس سے شوہروں کی ذہنی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں تاہم اگر بیوی کی آمدنی شوہر کی آمدنی سے بڑھ جائے تو ایسی صورت میں بھی شوہر نفسیاتی مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اپنے آدرش، اپنی محبت اور اپنے خوابوں کو اپنے تک رکھو کیونکہ دنیا ہر خوب صورت چیز کو برباد کردیتی ہے۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔