... loading ...
وزیراعظم پاکستان عمران خان 13نومبر2020ء کو ایک روزہ دورے پر بلوچستان کے جنوبی اضلاع تربت گئے جہاں ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات کیے ۔ پیش ازیں وزیراعظم 11ستمبر2020ء کو صوبے کے دار الحکومت کوئٹہ کا دورہ بھی کرچکے ہیں۔ اس وقت بھی انہوں نے علی الخصوص بلوچستان کے جنوبی حصے کے اضلاع کی ترقی کے لیے پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ مکران ڈویژن کے ساتھ آواران اور لسبیلہ کے اضلاع بھی شامل ہیں۔ یہ دو اضلاع البتہ انتظامی طور پر قلات ڈویژن کا حصہ ہیں۔ ان منطقوں کی ترقی کے لیے منصوبوں کا فیصلہ قومی ترقیاتی کونسل ( ایف ڈی سی ) میں ہوا تھا۔ یہ 13جون2019ء کو قائم کی گئی تھی ۔ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں افواج پاکستان کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی کونسل کے رکن ہیں۔ چناں چہ 184یا اس سے زائد منصوبوں کی تکمیل کے لیے پیکج کا اعلان ہوا ۔ یعنی مواصلات، سماجی و اقتصادی ترقی، زراعت، آبپاشی، آبنوشی ، صنعت و ماہی گیری، توانائی، لائیو اسٹاک، سرحدی تجارت سمیت مختلف شعبوں کے اندر ترقی لانے کے منصوبے شامل ہیں۔ چناں چہ حالیہ تربت کے دورہ پر وزیراعظم نے پیشرئوں کی مانند بلوچستان کی پسماندگی کو موضوع بنایا ۔ ان کے مطابق وفاقی حکومت نے پچھلی حکومتوں کے برعکس بلوچستان کے لیے زیادہ فنڈنگ کی ہے ۔تاکہ صوبہ ترقی کے میدان میں دوسرے صوبوں سے پیچھے نہ رہے۔
پنجاب حکومت بھی بلوچستان میں سرمایہ کاری کررہی ہے۔ جس نے بلوچستان کے لیے اسکالر شپ کا کوٹہ 135سے بڑھا کر360کردیا ہے۔ نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم بلوچستان لانے کا بتایا۔ وزیراعظم نے تربت میں مکران میڈیکل ٹیچنگ ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھا۔ یہ ہسپتال200بستروں پر مشتمل ہوگا۔ جامعہ تربت کے فیز ٹوکی تعمیر کی خشت رکھی۔ ایم 8شاہراہ کے 146کلومیٹر طویل ہوشاب ، آواران سیکشن کا بھی سنگ بنیاد رکھا۔ یہ آواران کو بلوچستان کے دوسرے شہروں سے ملانے والی پہلی پختہ سڑک ہوگی۔ 106کلومیٹر دو رویہ بسیمہ ، خضدار روڈ اور جنوبی اضلاع ترقیاتی پیکیج سے متعلق آگاہی بھی حاصل کی۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار بھی وزیراعظم کے ہمراہ تھے ۔ انہوں نے تربت کے لیے75کروڑ روپے اورتفتان اور چاغی کے لیے بھی پراجیکٹس کا اعلان کیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان بھی موجود تھے جنہوں نے مکران ڈویژن میں مزید مصروفیت بھی جاری رکھی ۔
مختلف منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا۔ وزیراعلیٰ بتاچکے ہیں کہ جنوبی اضلاع کے اس120ارب روپے کے پیکیج کے ساتھ صوبائی حکومت اپنی پی ایس ڈی پی کے تحت بھی بہت سارے منصوبوں پر کام کررہی ہے۔ وزیراعلیٰ کہتے ہیں کہ حکومت صوبوں کے تمام اضلاع اور علاقوں کی ترقی کے لیے برابری کی بنیاد پر منصوبوں کی تکمیل پر عمل پیرا ہے۔ ( اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو ) ۔ جام کمال عالیانی نے بتایا ہے کہ پسنی میں ماضی میں کرائے گئے ترقیاتی منصوبوں میں غلط ڈیزائننگ اور ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے عام عوام کو کوئی فائدہ نہیں دے پارہے ۔ پسنی فش ہاربر بھی غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے وقت سے پہلے اپنی افادیت کھو بیٹھا ہے۔ چناں چہ پسنی فش ہاربر بحالی منصوبے پر باقاعدہ ڈیزائننگ اور منصوبہ بندی کے تحت کام کے آغاز اور ڈیزائننگ کے لیے کنسلٹنٹ کو ورک آرڈر دیا جاچکا ہے۔پسنی جیٹی کی ڈریجنگ سروے کیلئے جرمنی کی بین الاقوامی فرم کی خدمات لی گئی ہیں۔ یوں منصوبے پر کام کا آغاز ہوگا۔ یہ منصوبہ ڈیڑھ ارب روپے کا ہے۔ مکران کے ماہی گیروں کی جانب سے غیر قانونی ٹرالنگ کی روک تھام کے مطالبے کے ضمن میں بھی غوروخوص ہورہا ہے اور حکومت اس تناظر میں ایک اہم نوعیت کااقدام اُٹھانے جارہی ہے۔ یعنی تمام لانچوں اور ٹرالرز میں ٹریکنگ سسٹم لگایا جائے گا۔ بلوچستان فشریز میں رجسٹرڈ لانچوں میں ٹریکنگ ڈیوائس لگائے جائیں گے۔ غیر رجسٹرڈ لانچز کو جی پی ایس کے ذریعے ٹریک کرکے بلوچستان کے سمندر میں غیر قانونی ٹرالنگ سے روکا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے گوادر کے سر بندن شہر میں باقاعدہ آفس بنایا جاچکا ہے۔ جام کمال نے پسنی میں فش ہاربر جیٹی کی ڈریجنگ منصوبہ ، ڈوسی ڈیم اور شنزانی ڈیم منصوبوں کا افتتاح اپنی حکومت کے وعدے کی پاسداری قرار دیا ہے۔
واضح ہو کہ ڈوسی ڈیم کی تعمیر کے لیے475ملین کی رقم رکھی گئی ہے اور شنزانی ڈیم 500ملین کی لاگت سے پایہ تکمیل کو پہنچایا جائے گا۔ گوادر میں پچاس بیڈ کے ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ یہ ہسپتال وزیراعلیٰ کے خصوصی فنڈ سے تعمیر کیا جائے گا۔ساحلی پٹی کی ماسٹر پلاننگ کے ساتھ7مقامات پر ٹورسٹ ریزارٹس کے قیام کی منظوری دی گئی ہے ۔ یعنی جیوانی، کنڈ ملیر ، گڈانی اورساحلی پٹی کے تمام تفریحی مقامات پر ٹورزم کے فروغ کی حکمت عملی پیش نظر ہے ۔ اللہ کرے کہ منصوبے تکمیل کو پہنچیں اور صوبائی حکومت کو اس کا ریونیو آئے اور عوام فی الواقع مستفید ہوں ۔سیاحت کے شعبے کی ترقی میں نجی سیکٹر کو بھی سرمایہ کاری کی ترغیب دی جاسکتی ہے۔ زیارت کا تفریحی مقام جام کمال کے اڑھائی سالہ حکومت میں بھی توجہ حاصل نہ کرسکا ہے۔ باوجود اس کے کہ بارہا خوش نما اعلانات کئے جاچکے ہیں۔ زیارت ، کوئٹہ، بولان کے تفریحی مقامات در حقیقت صوبائی حکومت اور سول اداروں کے دست ترس میں بھی نہ رہے ہیں۔
معلوم نہیں کہ ساحلی پٹی کے تفریحی مقامات کا انتظام و انصرام کس کے ہاتھ میں ہوگا؟ ۔ کوئٹہ کی ہنہ جھیل کے پہاڑ پر تعمیر ہونے والے ریزارٹ بارے بھی ایسے ہی خدشات موجود ہیں۔ جام کمال فرماچکے ہیں کہ پچھلی حکومتوں نے چین پاکستان اقتصادی راہداری سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور وہ بلوچستان کے لیے ایک بھی اسکیم حاصل نہیں کرسکے۔ 150ارب ڈالرکے منصوبوں میں بلوچستان کو کوئی منصوبہ نہیں دیا گیا۔اورسی پیک کا وقت اب گزر چکا ہے کہ چینی حکومت سرمایہ کاری کی بجائے بزنس موڈ میں ہے ۔سی پیک2013ء سے2018ء کے درمیان آیا اس دوران150ارب ڈالر کے منصوبے آئے ۔ بلوچستان کو اس کے تحت روڈ، گرڈ اسٹیشن، تعلیم، صحت اور روزگار کی سہولیات نہ ملیں۔ جبکہ پنجاب میں سی پیک کے تحت اربوں روپے کے منصوبے بنے ہیں۔ گویا اس کا مطلب یہ ہوا کے صوبے کی سیاسی جماعتوں نے تب جو اعتراض اٹھایا اور سی پیک میں بلوچستان کو نظر انداز کرنے کا شور اور واویلا کیا وہ درست تھا۔ اور اگر کوئی غلط تھا تو ان میں جام کمال بھی شامل ہیں ۔جو تب کی حکومت میں وفاقی وزیر تھے۔ اور وہ لوگ بھی ہیں جو اس وقت عمران خان کی حکومت اور جام کمال کی حکومت میں بیٹھے ہیں۔ چناں چہ اگر سی پیک کے تحت سرمایہ کاری کا فیز گزرا ہے، تو بزنس کے فیز میں بلوچستان کے لیے کمایا جائے۔ البتہ اس منظر نامے میں یہ سوال جام کمال کو وفاق کی حکومت ، افسر شاہی اور پوری اسٹیبلشمنٹ کے سامنے رکھنا چاہیے۔ کہ اب بلوچستان کے ساحل، معدنیات وسائل اولاً بلوچستان کی ترقی ، خوشحالی پر خرچ ہوں گے اورسول بالادستی مقدم رکھیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔