وجود

... loading ...

وجود

جی بی انتخاب اوردھاندلی کاشور

هفته 21 نومبر 2020 جی بی انتخاب اوردھاندلی کاشور

جی بی عام انتخابات کے نتائج سامنے آچکے ہیں نتائج کے خلاف پی پی نے گلگت ڈی سی چوک میں دھرنا دے رکھا ہے بدقسمتی سے انتخاب ہارنے والی جماعت دھاندلی کا شور مچانے لگتی ہے حالانکہ نتائج کو تسلیم کرنا ہی ووٹ کی عزت ہے حالیہ انتخابات 2009 اور2015کی طرح شفاف اور منصفانہ ہیں پیپلز پارٹی نے اپنے دور میں پندرہ جبکہ مسلم لیگ ن نے اُنیس نشستیں جیتی تھیں لیکن تحریک انصاف کوبمشکل نو نشستوں پر کامیابی ملی ہے بمشکل اِس لیے کہ ایک نشست دوبارہ گنتی میں ملی ہے۔

گلگت بلتستان کے ووٹر وفاق میں حکمران جماعت کو دیکھ کر ووٹ پر مہر لگاتے ہیں یہاں علاقائیت ،صوبائیت یا نسلی تعصب کی بجائے وفاق پرستی ہے اِس تناظر میں اگر حاصل شدہ نشستوں کے حوالے سے بات کی جائے تو تحریکِ انصاف کی کارکردگی بہتر نہیں آزاد حیثیت میں جیتنے والوں، خواتین اورٹیکنو کریٹس ممبران کو ساتھ ملا حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے گی لیکن سچ یہ ہے کہ لوگوں کے رجحان کے تناظر میں حکمران جماعت کی کارکردگی بدترین ہے۔

بلاول بھٹو اور مریم نواز بڑے بڑے جلسوں کی بنا پرجیت کے لیے پُر امید تھے خیر بلاول بھٹو نے تو قریہ قریہ شہر شہر جا کر جلسوں سے خطاب کیا مریم نواز نے بھی اپنے امیدواروں کی جیت کے لیے اچھے جلسے کیے اجتماعات دیکھ کر پاکستان میں سمجھ لیا گیا کہ گلگت بلتستان کی اگلی حکمرانی پی پی یا مسلم لیگ ن کو ملے گی یا دونوں جماعتیں مل کر حکومت تشکیل دیں گی شکست پر دونوں جماعتیں دھاندلی کا الزام لگا رہی ہیں عین ممکن ہے پی ڈی ایم بیانیے میں گلگت بلتستان کا نکتہ بھی شامل ہوجائے لیکن سچ یہ ہے انتخابات ہر لحاظ سے منصفانہ اور شفاف ہوئے۔

جلسے جلوس کارکنوں کو متحرک کرنے کا باعث ہوتے ہیں لیکن یہ مقبولیت جاننے کا مصدقہ پیمانہ نہیں گزشتہ عام انتخابات میں عمران خان کا گوجرانوالہ میں تاریخ ساز جلسہ ہوا شرکا کی اتنی بڑی تعداد تھی جتنی پی ڈی ایم میں شامل نو جماعتیں مل کر بھی اکٹھی نہ کر سکیں مگر نتائج میں گوجرانوالہ سے تحریک انصاف کا کوئی ایک امیدوار بھی کامیاب نہ ہوا مسلم لیگ ن نے پورے ضلع سے کلین سوئپ کر لیا اسی طرح سیالکوٹ کے جلسہ میں مردوزن کی بھاری تعداد دیکھ عمران خان بھی مغالطہ کھا گئے مگر تمام نشستیں جیتنے کا دعویٰ تو ایک طرف تحریک انصاف کو ایک نشست بھی نہ مل سکی رائے عامہ کوحق میں ہموار کرنے کے لیے لازم ہے کہ رہنما سیاسی نبض شناسی میں تاک ہوں جب مریم نواز یہ کہیں کہ ہمیں بھاری اکثریت دلائیں تاکہ وفاقی حکومت گر اسکیں تو کوئی عقل سے پیدل ہی یقین کر ے گا کیونکہ جس علاقے کو ملک میں اکائی کا درجہ حاصل نہیں نہ ہی قومی اسمبلی اورسینیٹ میں نمائندگی حاصل ہے وہ کیسے وفاق میں حکومت بنانے یا گرانے کے کام آسکتا ہے؟ مگر یہ قیاس کر لینا کہ زیادہ نشستوں کی وجہ عمران خان یا تحریک انصاف کی مقبولیت ہے ہر گز درست نہیں یہ وفاق میں حکمرانی کا انعام ہے ۔

گلگت بلتستان کے لوگ شناخت کے لیے بے چین ہیں آنے جانے کے لیے پاکستانی پاسپورٹ پر سفرکرنے والوں کی شہریت کی بات ہو تو شمالی علاقہ جات کے لوگ کہا جاتا ہے یہ علاقہ دہائیوں سے شناخت کے نام پر بلیک میل ہو رہا ہے بلاول بھٹو کی جاندار مہم کے ساتھ زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے صوبہ کا درجہ دینے کی بات کی اگر وہ الیکشن سے تین دن قبل مریم نواز کی سربراہی میں مسلم لیگ ن کے وفد سے ملاقات کی غلطی نہ کرتے تو ایک آدھ مزید نشست مل سکتی تھی کیونکہ پی پی کا ووٹر نواز شریف کا مخالف ہے اسی طرح پی پی اور مسلم لیگ ن کی قیادت کی ملاقات کا نقصان حافظ حفیظ الرحمٰن کو پہنچااور وہ جیتی ہوئی سیٹ ہار گئے وجہ مسلم لیگ ن کا ووٹر بھی پی پی کے خلاف ہے ۔

عمران خان نے بطور وزیرِ اعظم عبوری صوبہ دینے کا علان کیا تو لوگوں میں ہلچل پیدا ہوئی اسی اعلان سے متاثر ہوکر مسلم لیگ ن کے کئی مضبوط امیدوار جماعت کو خیر باد کہہ کر تحریک انصاف میں چلے گئے حالانکہ جماعت بدلنے کا کوئی فائدہ نہ ہوا یہاں تک کہ مقامی اسمبلی کے سابق اسپیکر ہارگئے کیونکہ باشعور ووٹروں کو مفاد پرستوں کا محاسبہ کرنا آتا ہے بلاول بھٹو نے جی بی 21سے وفاقی حکومت پر ووٹوں والے ڈبے اُٹھانے کا لزام لگایا ہے حالانکہ یہاں سے نواز لیگ کے امیدوار غلام محمد کا میاب ہوئے ہیں کیا وفاقی حکومت اپنی بدترین مخالف اور ناقد جماعت کو جتوانے کے لیے بیلٹ باکس اُٹھا سکتی ہے ؟۔

ووٹ کو عزت دو کا مطالبہ کرنے والی کوئی جماعت گلگت بلتستان کے نتائج کی روشنی میں اِداروں کو ہدفِ تنقید نہیں بنا سکتی کیونکہ حالیہ الیکشن میں فوج کو الگ رکھا گیااور کوشش کی گئی کہ پولیس اور دیگر سویلین اِداروں کے تعاون سے انتظامات کیے جائیں جب نتائج کے حوالہ سے ہلہ گلہ شروع ہواتو راجہ شہباز چیف الیکشن کمشنر نے دوبارہ گنتی کرانے میں پس و پیش نہ کی بلکہ جس امیدوار نے بھی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا چیف الیکشن کمشنر نے تحریری درخواست دینے کی ہدایت کی اور جو نہی درخواست آئی فوری دوبارہ گنتی کا حکم صادرکر دیا اسی لیے ہارنے والے امیدواروں سے گفتگو کریں تو وہ دھاندلی کی بجائے اپنی شکست کے اسباب کچھ اور ہی بتاتے ہیں لیکن کیا کیا جائے ہمارے ہاں کوئی ہار تسلیم کرنے پرآمادہ نہیں حالانکہ ریٹائرڈ آئی جی نے بطور نگران وزیرِ اعلٰی پوری توجہ پُرامن اور شفاف انتخاب پر مرکوز رکھی اور منصفانہ اور شفاف انتخاب کے علاوہ کسی نوعیت کے فیصلے سے گریز کیا ۔

تحریک انصاف نے عبوری صوبہ بنانے کا وعدہ تو کر لیاہے لیکن دیگر وعدوں کی طرح اُس نے جی بی میں بھی ہوشیاری اور چالاکی سے فرار کی راہ تلاش کی تو یاد رکھنا چاہیے کہ ملک بھر میں سب سے زیادہ خواندہ علاقے کا سیاسی شعور پس ماندہ نہیں بہت بہتر ہے مالی وسائل کی دستوری تقسیم میں گلگت بلتستان کو نظر انداز کرنے کی روایت کالوگ خاتمہ چاہتے ہیں مسائل کی وجہ سابق حکومتوں کو قراردیکر عرصہ اقتدار گزارنے کی کوشش کی گئی تو اگلے عام انتخابات میں جیت کے لیے حالات مزید دشوار ہو سکتے ہیںاپوزیشن سے بات کرنے سے بھی گریزاں سادہ اکثریت سے قائم وفاقی حکومت کیا آئینی ترامیم کر سکے گی ؟بظاہراثبات میں جواب دینا ٹھیک نہیںکیونکہ آئینی ترامیم کے لیے دوتہائی اکثریت ضروری ہے جو اپوزیشن کے تعاون کے سوا ممکن نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر