وجود

... loading ...

وجود

نواز لیگ سے استعفا اور دُشنام طرازی

پیر 16 نومبر 2020 نواز لیگ سے استعفا اور دُشنام طرازی

پاکستان مسلم لیگ نواز بلوچستان کے صدر جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ اور سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے بالآخر 07نومبر 2020ء کو اپنی جماعت سے راہیں جدا کر لیں۔ باضابطہ اعلان اِس دن کوئٹہ کے میٹروپولیٹن کارپوریشن کے سبزہ زار پر ورکرز کنونشن نام کے ایک اجتماع میں کیا۔ بقول ان کے کہ کوئٹہ اور صسوبے کے دیگر اضلاع سے کارکن اور مختلف سطح کے رہنماء شریک ہوئے تھے۔جہاں بیس اضلاع کے صدور اور دوسرے عہدیداروں نے بھی ہمراہ مسلم لیگ نواز کو خیر باد کہا۔ مریم نواز کی کوئٹہ آمد اور ایوب اسٹیڈیم میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے جلسہ عام میں نواب ثناء اللہ زہری کو مدعو نہ کرنے پر عبدالقادر بلوچ کا اظہار اختلاف و خفگی ہی دونوں صوبائی رہنمائوں کا اپنی جماعت سے علیحدگی کی وجہ ٹھری ہے ۔ اول جنرل (ر ) عبدالقادر بلوچ اس موضوع پر بو لے ، بعد ازاں نواب زہری بھی بول پڑے۔گویا جلسہ میں نہ بلانے کے حیلہ کے بعد انہوں نے افواج پاکستان کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور دوسرے حکام کے خلاف پی ڈی ایم ،بالخصوص میاں محمد نواز شریف کے اظہارات کا تڑکا بھی لگایا ۔ لیگ کے مرکزی رہنما تسلیم کرتے ہیں کہ عبدالقادر بلوچ سے کوئٹہ میں اس بابت طویل گفتگو ہوئی۔ جن کا اصرار ثناء اللہ زہری کو مدعو کرنے پر تھا، کہ وہ ان کے قبیلے کے سربراہ ہیں۔ شاہد خاقان عباسی، ،طلال چوہدری اور دوسرے پارٹی رہنمائوں نے عبدالقادر بلوچ کو صورتحال سمجھنے کی درخواست کی تھی کہ وہ ایک بڑے مقصد کی خاطر لڑ رہے ہیں۔ اس لیے نہیں چاہتے کہ سردار اختر مینگل جلسہ میں شریک نہ ہو پائیں۔ طلال چوہدری نے عبدالقادر بلوچ کے نقطہ نظر کے بارے میںیہ بتایا ہے کہ عبدالقادر بلوچ پارٹی چھوڑتے ہوئے سچ نہیں بولے ہیں۔ بقول طلال چوہدری کے کہ پارٹی کی ’’سی ڈبلیو سی ‘‘میں نواز شریف نے اس سے بھی سخت باتیں کی تھیں اور سب نے ہاتھ اُٹھا کر اُن کی تائید کی تھی ۔جس میں جنرل عبدالقادر بلوچ بھی شامل تھے۔ واقعاً اگر جنرل عبدالقادر بلوچ کو اعتراض ہوتا تو میاں نواز شریف اور اُن کی بیٹی مریم نواز شریف کا یہ بیانیہ تھوڑی آج کا ہے ۔نیز مولانا فضل الرحمان ، محمود خان اچکزئی ،اسفندیار ولی (میر حاصل بزنجو مرحوم بھی)اور دوسرے رہنماء ان خیالات کی تکرار پی ڈی ایم کی تشکیل سے پہلے سے کرتے رہے ہیں۔ ’’سلیکٹیڈ‘‘ اور’’ سلیکٹر‘‘ کی تو اصطلاح ہی بلاول بھٹو زرداری کی وضع کردہ ہے ۔پیش نظر یہ امر بھی رہے کہ نواب ثناء اللہ زہری تو 2018ء کے عام انتخابات کے بعد سے ہی گوشہ نشیں ہو گئے تھے۔ وہ پارٹی کے اندر کوئی فعال کردار ادا کرنے سے معذور رہے ہیں۔

پہلو یہ بھی قابل غورہے کہ نواب زہری کے چھوٹے بھائی میر نعمت اللہ زہری نواز لیگ کی ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔ 25جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں صوبائی نشست پر آزاد حیثیت سے لڑ کر کامیاب ہوئے تو سینیٹ کی نشست چھوڑ دی۔ اور معاً تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔ نواب زہری کے برادر نسبتی آغا شاہ زیب دُرانی بھی ن لیگ کے سینیٹر ہیں مگر وہ کسی موقع پر بھی پارٹی کے کام نہیں آ سکے ہیں۔خواہ سینٹ انتخابات ہوں یا چیئر مین سینٹ کا انتخاب۔ جو تحریک انصاف ، بلوچستان عوامی پارٹی یا مقتدرہ نے کہا ہے وہی کیا ہے ۔ان سینیٹر صاحب کے ایک بھائی آغا شکیل دُرانی بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل ہوئے۔یعنی یہ نشیب و فراز نواب ثناء اللہ زہری کی منشاء کے بغیر ممکن نہ تھے۔ گویا یہ اُن کی ن لیگ سے راہیں جدا کرنے کی مثالیں ہیں۔ جبکہ اس لمحہ محض جلسہ میں مدعو نہ کرنے یا فوج کے خلاف بولنے کی حُجت اپنا لی ہے ۔

مسلم لیگ ن نے نواب زہری کو صوبے میں کھلی چھوٹ دے رکھی تھی ۔ جبکہ نواب زہری کو اپنی قیادت کی بجائے دوسرے حلقوں کی رضا مندی زیادہ عزیز تھی۔ بلوچستان میں اڑھائی اڑھائی سال حکومتوں کا فارمولا بھی ن لیگ کی سیاسی مجبوری تھی۔ اور کیا یہ عنایت معمولی ہے کہ نواب زہری اگلے اڑھائی سال کے لیے وزارت اعلیٰ کے منصب پر بٹھا ئے گئے؟۔ نواب تو اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کا سامنا بھی نہ کر سکے ۔ پارٹی اعلیٰ قیادت اور اتحادیوں کے کہنے کے باوجود اسمبلی اجلاس سے محض چند لمحے قبل منصب سے مستعفی ہو گئے ۔ اور بڑی خاموشی سے گھر چلے گئے ۔ دنیا جانتی ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کی پُشت پر کون تھے۔ مگرجنرل عبدالقادر یا نواب ثناء اللہ زہری اسٹیبلشمنٹ تو کیا عبدالقدوس بزنجو اور دوسرے باغی لیگی اراکین اسمبلی کے خلاف بھی نہ بول سکے ۔کہ جنہوں نے ان کی حکومت کے خلاف کھلم کھلا سازش کی۔ اتحادی جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل خان بزنجو (مرحوم) البتہ سازش میں شریک جلی و خفی کرداروں کا نام لے کر بولے ہیں۔حیرت اس بات پر بھی ہے کہ عدم اعتماد کی سازش میں پیپلز پارٹی کے کو چیئر مین آصف علی زرداری اہم مہرہ تھے۔

اور حال یہ کہ نواب زہری اور عبدالقادر بلوچ کو پارٹی میں شمولیت کی دعوت دے رہے ہیں ۔اُدھر یہ حضرات علیحدہ ہوئے اور اگلے ہی لمحے پیپلز پارٹی بلوچستان کے صدر حاجی علی مدد جتک آصف علی زرداری کا پیغام لے کر عبدالقادر بلوچ کو شمولیت کی دعوت کا پیغام دینے پہنچ گئے۔ نواب زہری اور عبدالقادر بلوچ اصول کی سیاست کرتے ہیں تو انہیں پہلے آصف علی زرداری سے عدم اعتماد کی تحریک کی سازش کا حساب لے لینا چاہئے تھا۔ غرض لیگی قیادت کو پی ڈی ایم جلسہ میں ثناء اللہ زہری کی شرکت کے معاملے کو باہمی طور کسی منطقی نتیجے تک لے جانا چاہئے تھا۔ تاکہ نِزاع کی صورت نہ بنتی۔بہر حال اب نون لیگ کو چاہیے کہ نواب زہری کو بلوچستان اسمبلی کا رکن رہنے دے ۔انہیں ڈی سیٹ کرنا درست نہیں ہو گا ۔ویسے بھی یہ حلقہ نواب زہری کا اپنا ہے ،انہوں نے ہی پھر سے کامیاب ہونا ہے ۔ ایسے وقت میں کہ جب پیپلز پارٹی ن لیگ کے ساتھ پی ڈی ایم میں تحریک چلا رہی ہے، عبدالقادر بلوچ اور ثناء اللہ زہری کو شمولیت کی دعوت دینا بھی معیوب سمجھا گیا ہے ۔ سو مذکورہ اجتماع میں نواب زہری کی جانب سے دُشنام طرازی اور ناشائستہ گفتگو ہوئی ۔ سردار اختر مینگل اور میاں محمد نواز شریف پر کی گئی حرف گیری صوبے کے سیاسی و عوامی حلقوں میں نا پسندیدگی کا اظہار ہوا ہے ۔ اگر کبھی سردار اختر مینگل کی جانب سے بھی کچھ بولا گیا ہے بھی غیر مناسب و نا شائستہ سمجھا گیا ہے ۔ سیاست میں اختلاف رائے ضرور ہونی چاہئے مگر ایسی گفتگو نہ ہو کہ جس سے راستے ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں۔ آخری بات یہ کہ عبدالقادر بلوچ اور نواب ثناء اللہ زہری کا بیس اضلاع کے پارٹی رہنمائوں کا پارٹی سے انخلاء کا دعویٰ ہے۔ مگر سچ میں ہم جیسے لوگ بھی نہیں جانتے کہ صوبے میں قادر بلوچ اور نواب زہری کے ساتھ اور کون موثر و نمایاں شخصیات ہیں جو نواز لیگ چھوڑ چکی ہیں۔ ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر