... loading ...
آج سے ٹھیک آٹھ برس قبل 23 دسمبر 2012 کو تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے جب پہلی بار ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے ’’سیاسی اشرافیہ ‘‘ کے تین طاقت ور ترین طبقات یعنی جاگیرداروں ،وڈیروں اور سرمایہ داروں کے بنائے ہوئے برسوں پرانے انتخابی نظام پر نقطہ اعتراض اُٹھایا تھا تو بدقسمتی سے ہم پاکستانیوںکی ایک بڑی اکثریت نے من حیث القوم علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی جانب سے لگائے گئے ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ کے نعرہ کو وہ پذیرائی نہیں بخشی ،جس کی یہ تحریک اصل میں حقدار تھی ۔حالانکہ ہم اُس وقت بھی بہت اچھی طرح سے جانتے اور سمجھتے تھے کہ پاکستان میں رائج فرسودہ انتخابی نظام پر ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری کے تمام تر اعتراضات بالکل بجا،سیاسی نظام کو لاحق مرض کی تشخیص سو فیصد درست اور انتخابات سے پہلے اصلاحات کا مطالبہ عین برحق ہے۔
لیکن اس کے باوجود ہم جمہوریت کی’’سیاسی محبت ‘‘میں مبتلاء ہو کر زبردست ’’سیاسی ہچکاہٹ‘‘ کا شکار ہوگئے کہ ’’کہیں ایسا نہ ہوجائے ،کہیں ویسا نہ ہوجائے‘‘اور ریاست پاکستان کو سیاسی عفریت سے بچانے کے لیے شروع کی گئی تحریک آرٹیکل 62,63 یعنی صادق اور امین کے غیر آئینی ہنسی مذاق میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کردی گئی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم آٹھ سال قبل یہ ادراک ہی نہ کر سکے تھے کہ ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ کی تحریک ’’ریاست پاکستان ‘‘ کے بہتر،درخشان اور تابناک مستقبل کے لیے کس قدر ضروری اور اہم ہے۔ مگر آج جب کہ’’ سیاست‘‘ اور اس کے نام نہاد انقلابی و جمہوری ہرکاروں نے چہار جانب سے ’’ریاست ‘‘ پر حملہ آور ہونے کے لیے اپنی تمام تر سیاسی صف بندی پی ڈی ایم کی صورت میں مکمل کرلی ہے تو ایک عام پاکستانی بھی التجا کناں دکھائی دیتا ہے کہ برائے مہربانی ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘۔
کتنی عجیب بات ہے کہ گوجرانوالہ میں ہونے والے پی ڈی ایم کے پہلے جلسہ میں ریاست کو نام لے کر فقط للکارا گیا تھا لیکن کراچی کے دوسرے جلسہ میں پی ڈی ایم کے میزبان اور مہمان ریاستی اداروں کو باقاعدہ دھمکانے اور ڈرانے کی ناکام کوشش بھی کرگزرے ،جبکہ کوئٹہ کے تیسرے جلسہ میں ریاست کے دامن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے والے ’’ سیاسی ہاتھ‘‘ اَب ایاز صادق کے بیان کی صورت میں ریاست ِ پاکستان کے گریبان تک آپہنچے ہیں۔ واضح رہے کہ سیاسی للکار سے لے کر گریبان تک کا طویل ترین سفر اتنی عجلت میں سرعت کے ساتھ طے کرنے کے لیے جتنی زیادہ سیاسی پشت پناہی اور آشیر باد درکار ہے ،یقیناوہ ملک میں تو کسی بھی صورت کہیں سے بھی پی ڈی ایم رہنماؤں کو دستیاب نہیں ہوسکتی تھی۔
اس لیے غالب گمان یہ ہی ہے کہ اپوزیشن الیون کے ’’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے پرانے بیانیے کے ناکام ہو جانے کے بعد ’’ٹانگیں کانپنے والے‘‘ نئے نکور جھوٹے بیانیے کے اصل صلح کار ،صدا کار اور تخلیق کار سب کے سب ملک سے باہر لندن اور دہلی کے کسی شبستان میں محو آرام ہوں گے۔جبکہ یہاں اُن کی تخلیق کی گئی سیاسی پتلیاں وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کی حکومت گرانے کے فراق میں اس حد تک خود کو گرا چکی ہیں کہ اُنہیں ملک وقوم کے احساسات و جذبات کا بھی ذرہ برابر احساس یا پاس نہیں رہا ہے۔ کیا کسی منتخب حکومت کو گرانے کے لیے لازم ہے کہ ریاستی اداروں کو ہی اپنے نشانے پر رکھ لیا جائے ؟۔ بھئی اگر عمران خان کی حکومت سے اختلاف ہے تو اُس کے خلاف ہی ’’سیاسی تحریک ‘‘ چلائی جائے ناکہ عمران خان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی آڑ میں ریاستی اداروں کے خلاف مخاصمانہ کشمکش کا آغاز کردیا جائے اور مخاصمت بھی ایسی کہ ازلی دشمن ملک کے خلاف حاصل ہونے والی اپنی تاریخ ساز عسکری فتح پر شکست کا کچا رنگ چڑھا کر اُسے خوشی کے شادیانے بجانے کا سنہری موقع فراہم کردیا جائے۔
یادش بخیر ! کہ سیاست کا پانی ریاست کے سر سے گزرنے کے بعد بھی ہمارے بعض سیاسی تجزیہ کار پورے شد و مد کے ساتھ اصرار کررہے ہیں کہ پاکستان میں رہنے اور بسنے والے کسی سیاسی رہنما کو اُس کی کسی بھی سیاسی حرکت،فعل اور بیان کی وجہ سے غدار نہ قرار دیا جائے ۔چلو تھوڑی دیر کے لیے اُن کی بات ہی مان لیتے ہیں اور پاکستان کی سیاسی ڈکشنری سے لفظ غدار کو نکال کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے باہر پھینک دیتے ہیں۔ مگر ریاستی اداروں کے خلاف صبح و شام دشنام طرازی کرنے والوں کو کم ازکم غلط ،گمرہ اور بدطینت تو کہا ہی جاسکتاہے ۔لیکن اگر اُنہیں غلط قرار دینے کی بھی کسی کو اجازت نہ دی جائے تو پھر ایک عام پاکستانی کے پاس سوائے اس کے کیا کوئی دوسرا راستہ باقی رہ جاتا ہے کہ وہ بھی ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ کا علم اپنے ہاتھ میں تھام لے؟ ۔
کیونکہ ایک بات اچھی طرح سے ذہن نشین رہے کہ سیاست اور جمہوریت ریاست کی گود میں پلنے والے دو لے پالک بچے ہی توہوتے ہیں ۔اگر خدانخواستہ یہ دونوں بچے ہی سنپولیوں کی مانند اپنی ماں کو نگلنے کی کوشش شروع کردیں گے تو پھر ریاست کے اصل بچوں یعنی عوام الناس پر یہ ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے کہ وہ ان آستین کے سانپوں کواپنے پیروں تلے کچل کرتمام تر سیاست کو ایک طرف رکھ کر سب سے پہلے اپنی ریاست کو بچالیں ۔ہمیں اُمید کامل ہے کہ پی ڈی ایم کے جلسوں میں قیمے والے دو چار نان، سگریٹ کے چند پیکٹ اور بریانی کی ایک پلیٹ کے بہلاوے میں پھسلا کر لائی جانے والی سادہ لوح عوام ہی ریاست کے مستقبل کو لاحق سنگین خطرات کا بروقت ادارک کرتے ہوئے اپوزیشن الیون کے ’’گیارہ‘‘سیاسی بدمعاشوں کی بدمعاشی سے اپنی ریاست کو بچائے گی اور سیاست سے پہلے ریاست کے تحفظ کو یقینی بناکر ساری دنیا پر ثابت کردے گی کہ ایسے بچاتے ہیں کرپشن زدہ سیاست سے اپنی جان سے پیاری راج دُلاری ریاست کو۔
حملہ آور کو میں خود ہی ریاست دے دوں
اپنے لوگوں پہ یہ حملے نہیں دیکھے جاتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔