... loading ...
اناڑی اور تجربہ کارکے اطوار میں اتنا فرق ہوتا ہے جس سے لوگوں کو اعتمادیااحتیاط کرنے میں دشواری نہیں رہتی ملک کے سیاسی منظر نامے پر نگاہ دوڑائیں توتجربہ کہیں نظر نہیں آتابلکہ اناڑیوں کا راج دکھائی دیتا ہے دیوانگی اور جنون مترشح ہے لڑنے اور مر مٹنے کی باتیں تو سنائی دیتی ہیں نقارخانے میں نحیف ونزار ہی سہی افہام و تفہیم کی صدا کوئی بلند نہیں کرتا اِسے کیا نام دیں قیادت کہیں یا ایک دوسرے کو پچھاڑنے پر آمادہ ریوڑ کا لقب دیاجائے حالات دیکھ کر اچھا بھلا آدمی سٹپٹا یا ہوا ہے رفوگری کے نام پر بخیے اُدھیڑے جارہے ہیں پھر بھی کہتے ہیں ہمیں رہنما منتخب کریں ۔کیوں کریں ؟کیا ملک کا تیا پانچا کرانا ہے؟ حریف کوڈبونے کی خواہش میں کہیں سب ہی نہ ڈوب جائیں پہلے تجربہ کاروں نے باری کے چکر میں ملک کو کنگال کیا ،اب کھلاڑی نے اعتماد کے صلے میں مہنگائی کا عفریت بے لگام چھوڑ دیا ہے قوم جائے تو جائے کہاں ؟خودپسندی و خودنمائی کے خول سے کوئی نکلنے کو آمادہ نہیں بھلائی کا کام تو تب ہو جب کسی کو ایک دوسرے کے لتے لینے سے فرصت ملے۔
حکومت کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح اپوزیشن کو اِداروں کے مدِ مقابل لاکھڑاکیا جائے تاکہ اقتدار سے محروم کرنے کی کسی میں سکت نہ رہے اور اپوزیشن بھی سوچے سمجھے بغیر بچھائی بساط پرشہ مات دینے کے لیے اِداروں پر برستے ہوئے کھائی میں گرنے کے لیے بے چین ہے ،ٹانگیں کانپنے کا انکشاف اورجواب میں مودی کی زبان کا طعنہ کیا ،اہلِ فہم و دانش کاشیوہ ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ موجودہ حالات ومحازآرائی کسی طور ملک وقوم کے مفاد میں نہیں بات بات پربچوں کی طرح مچلنا اور ایک دوسرے کے گریبان پکڑنا جمہوریت کی خدمت نہیںوقت ہے ہوش کے ناخن لیں اسی میں ہی سب کی عافیت ہے ۔
مسلم لیگ ن کو پرویز مشرف نے اقتدار سے محروم کیا مگر ملک کی پوری سپاہ کو قصوروارٹھہرانا بھی غلط ہے ملک کی سلامتی کے لیے مضبوط فوج اشد ضروری ہے وگرنہ تاک میںبیٹھاازلی دشمن کسی وقت بھی چال چل سکتا ہے قلیل وسائل کے باوجودبڑے دشمن کو ایک سے زائد باردھول چٹائی بلکہ دہشت گردوں سے دوبدلڑائی میں خیرہ کن کامیابی حاصل کی، جوہری اسلامی مملکت تو ویسے ہی سب کو کھٹکتی ہے اِس لیے حکمت وتدبرکا مظاہرہ کیا جائے اِس میں کوئی شائبہ نہیں کہ ماضی کی غلطیوں کو اب دُہرایا نہیں جا رہا بلکہ ساری توجہ دفاع وطن پر ہے پھر کیوں ماضی میں جینے کی کوشش کی جارہی ہے بہتر ہے مستقبل کی منصوبہ بندی کریں حکومتی حماقتیں ہی اتنی ہیں کہ جب بھی انتخاب ہوئے ہر جماعت جیت سکتی ہے لیکن موجودہ حکمران جماعت کے جیتنے کا کم ہی امکان ہے ۔
ریاستِ مدینہ کے نعرے پر خوش لوگوں کی خوشی کب کی کافورہوچکی ملک میں مہنگائی ہے چوربازاری ہے بدامنی ہے لیکن اِن مسائل سے نمٹنے کے لیے حکمرانوں میں دستیاب وسائل کو استعمال کرنے کی اہلیت و صلاحیت نہیں بلکہ اب تو کھلاڑی ریاست مدینہ کی بجائے چین کا نظام لانے پر کمر بستہ ہیں حالانکہ اِس حقیقت سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں کہ چین کا موجودہ نظام مائوزے تنگ کے نظام سے یکسر مختلف ہے سیاسی و معاشی استحکام کی وجہ قانون کی عملداری ہے اگر یہ نظام ہی اِتنا جامع ہوتا تو آج روس متحد اور دنیا کی بڑی طاقت ہوتا یورپ اِس نظام کو خیر باد نہ کہتا لیکن کسی کو غور کرنے کی فرصت ہی نہیںیہاں سنانے بلکہ کانوں میں ٹھونسنے کی کوشش کی جاتی ہے سننے کو زحمت تصور کرنے والوںکو مشاورت کی کہاں فرصت۔ کھلاڑی کو عقلِ کُل ہونے کا پختہ یقین ہے اسی لیے کوئی رائے یا مشورہ نہیں ویسے بھی آجکل غداری کا موسم ہے جانے کوئی کب غداری کی تہمت لگا دے کیونکہ اب یہ تہمت ہی سیاسی بازار میں عام اور سستی ہے دیوانگی کا زمانہ ہے تمام اچھی اقدار کو خاکستر کرنے کا جنون ہے ۔
ملک میں مچی ہڑبونگ میں ملک کے لیے اچھے اور مفید ِ عامہ کے منصوبوں کو بھی اختلاف کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے اگلے ماہ گلگت بلتستان میں انتخاب ہورہے ہیں اِس معرکے میں کامیابی کے لیے ہر جماعت ا یڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے تمام جماعتوں کے جلسوں میں شرکا علاقے کو آئینی حق دینے کا مطالبہ کرنے لگے ہیںاسی وجہ سے بلاول بھٹو نے کامیابی کے بعد صوبہ بنانے کا وعدہ کیا جس پر عوامی ہمدردی کی لہر پیدا ہوئی اورپیپلزپارٹی کے جلسوں میں حاضری میں یکدم اضافہ ہوا حکومت نے جب دیکھا کہ بلاول میلہ لوٹنے کے قریب ہے تو کھلاڑی نے قدم رنجہ فرمایا اور عبوری صوبہ بنانے کا اعلان کر دیا جس پر پہلی زوردار تنقیدی آواز آزادکشمیر سے بلند ہوئی راجہ فاروق حیدر نے ناپسندیدگی دکھانے کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر موقف کمزور کرنے کے مترادف قراردیا ہے لیکن یہی فیصلہ اگر مشاورت سے کیا جاتاتو بدمزگی جنم نہ لیتی۔ رہنمابغیر سوچے سمجھے فیصلے نہیں ٹھونستے بلکہ رائے عامہ کے تناظر میںفیصلہ کرتے ہوئے طریقہ کار طے کیا جاتاہے اورپھر تمام فریقوں کو اعتماد میں لے کر اتفاقِ رائے پر توجہ دی جاتی ہے مگر یہاں تو فیصلے کرتے ہوئے بھی کرکٹ کا میدان جان کر چوکے چھکے لگائے جاتے ہیں کوئی شاد ہے یا نالاں کسی کو پرواہ نہیں۔
گلگت بلتستان کے انتخاب میں فوج کو الگ رکھنے کے فیصلے سے یہ توقع تھی کہ سویلین کو آزادانہ فیصلے کرنے کا ماحول ملے گا اور یکجہتی کی فضا پیدا ہوگی وائے افسوس کہ توقعات پوری ہونا تو درکنار محازآرائی اور تلخی میں مزید شدت آنے لگی ہے قبل ازیں سیاسی انارکی کا توڑ مصالحت سے کیا جاتا اب تو مصالحت کا بھی ماحول نہیں رہاکیونکہ کسی کو وثوق سے غیر جانبدار نہیں کہا جاسکتا نتائج وعواقب کی پرواہ کیے بغیرالزام تراشی جاری ہے مگر غور کرنے والی بات یہ ہے کہ کہیں یہ الزام تراشی سبھی کو ہی نہ لے ڈوبے این آر او نہ دینے سے لیکر ریاست مدینہ بنانے اور اب چینی ماڈل پسند کرنے کے چکر میں تقاریر کے مواقعوں سے بھی محروم ہو سکتے ہیں مہنگائی نے سب کا جینا دوبھر کر دیا اپوزیشن تبدیلی کے لیے یکسو ،وزرا جلتی پر تیل ڈالنے کو بے قرار،کسی کو فرصت ہو تو سوچنے کی کوشش کرے سونامی کی تباہ کاریوں نے اناڑی پن واضح کر دیاجسے یقین سے پس وپیش ہووہ عام آدمی کے معمولات دیکھ لے لوگ تو یہاں تک کہنے لگے ہیں بھلے کسی کو این آر او نہ دیںدیوانگی کے زمانے میںمہنگائی سے عوام کو ہی این آر او ضروردے دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔