وجود

... loading ...

وجود

اعتباراور سچائی کا جنازہ

جمعه 30 اکتوبر 2020 اعتباراور سچائی کا جنازہ

یہ ایک بڑی کامیابی ہے مگر صرف پانچ مہینوں میں امریکا کی نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جان ریٹ کلف کا شمار ان لوگوں میں ہونے لگا ہے جو امریکی تاریخ میں تباہ کن انٹیلی جنس عہدیدار سمجھے جاتے ہیں۔ مئی میں ان کی کنفرمیشن کے لیے ہونے والی سماعت کے دورا ن جان ریٹ کلف نے یہ حلف دیا کہ وہ بیرونی اثر و رسوخ کو اپنے فرائض منصبی پر اثر انداز نہیں ہونے دیں گے اور دعویٰ کیا کہ وہ اپنے عہدے پر تقرر کے بعد مکمل طور پر غیر سیاسی رہیں گے مگر اس کے برعکس وہ سیاسی تنازعات میں ملوث ہو چکے ہیں۔
پیر کے روز جان ریٹ کلف نے نیویارک پوسٹ کی ایک غیر مصدقہ خبرکی تائید کی کہ جو بائیڈن کے بیٹے یوکرائن کے ساتھ ایک بزنس ڈیلنگ میں ملوث رہے ہیں۔ فاکس بزنس پروگرام کے دوران ریٹ کلف نے کہا کہ اوباما‘ بائیڈن حکومت نے اپنے اختیارات کا مجرمانہ استعمال کیا تھا اور ووٹرز کو چاہئے کہ وہ آئندہ الیکشن میں ان کے ان اقداما ت کا محاسبہ کریں۔ ایک حاضر سروس انٹیلی جنس عہدیدار کی طرف سے اس طرح کے سیاسی تبصرے کی پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر مائیکل ہیڈن نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ریٹ کلف کے اقدامات قابل مواخذہ اور آمریت کے مترادف ہیں۔ ریٹ کلف پہلے ہی سرکاری مواد کو ڈی کلاسیفائیڈ کر کے اقدار کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو چکے ہیں جن کی بدولت ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ منتخب ہو نے امکانا ت بڑھ گئے ہیں۔ اب یہ بات ان کے کنٹرول میں ہے کہ کانگرس کے ڈیمو کریٹ ارکان کو انفرمیشن کس طرح شیئر کرنی ہے جبکہ چند منتخب ریپبلکن ارکان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر مواد کس طرح فراہم کرنا ہے تاکہ انہیں ایسے تھوڑے بہت ثبوت ہی مل جائیں جو ڈیپ اسٹیٹ سازشی تھیوری کے لیے موزوں ہوں جس کے بعد صدرٹرمپ کے کریملن کے ساتھ روابط کی تحقیقات ہو سکے۔
ایک غدار یا امریکی انٹیلی جنس ایجنسی کے اندرونی چھچھوندر بہت زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں جبکہ کسی انٹیلی جنس ایجنسی کا کوئی جانبدار عہدیدار ہمارے اعتماد اور بھروسے کے اس نظام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے، جس پر ہمارے ملک کی انٹیلی جنس اسٹیبلشمنٹ کی بنیادیں استوار ہیں۔ جنگ عظیم دوم اور کورین جنگ کے دوران جنرل میکارتھر کے انٹیلی جنس چیف میجر جنرل چارلس ولوبائی نے رپورٹوں کو محدود اور کنٹرولڈ ذرائع کو جھوٹا قرار دیا، اتحادیوں، سی آئی اے اور امریکی کوڈ بریکرز کی رپورٹنگ کو مسترد کر دیا اور ہر اس چیز کو دبانے کی کوشش کی جو جنرل میکارتھر کے ذاتی نظریات کو چیلنج کر سکتی تھی۔ ڈیوڈ ہالبرسٹم نے کورین جنگ پر اپنی ایک کتاب The Coldest Winter میں لکھا ہے کہ جنرل میکارتھر کے خیال میں یہ بات اہم تھی کہ انٹیلی جنس رپورٹس میں وہی کچھ بتایا گیا تھا جو وہ کرنا چاہتے تھے۔ جس کا مطلب یہی تھا کہ ولوبائی جو انٹیلی جنس رپورٹس جنرل میکررتھر کو بھیج رہا تھا‘ دانستہ طور پر پہلے سے گھڑی گئی تھیں۔ چونکہ جنرل میکارتھر دوسروں کی کوئی بات سننے کے لیے تیار ہی نہیں تھے اس لیے جب شمالی کوریا کی فوج نے جون 1950ء میں جنوبی کوریا پر حملہ کیا اور پھر جب چین نے کوریا کو روند ڈالا تو امریکا اور اس کے اتحادی ہر بات سے بے خبر تھے۔ امریکی تاریخ میں یہ ہماری فوج کی بدترین شکست اور فوجی پسپائی تھی۔ جنرل میکارتھر تو اس پسپائی کو روکنے کے لیے ایٹم بم گرانے کے لیے بھی تیار ہو گئے تھے۔ یہ انٹیلی جنس رپورٹس جمع کرنے یا ان کا تجزیہ کرنے کی ناکامی نہیں تھی‘ جس کے نتیجے میں یہ تباہی پھیلی تھی بلکہ یہ لیڈرشپ کی ناکامی تھی۔ جنرل ولو بائی نے انٹیلی جنس انفارمیشن کو شکل ہی ایسی دی تھی کہ اس میں وہی باتیں تھیں جو جنرل میکارتھر سننا چاہتے تھے۔ لگتا ہے کہ جنرل ریٹ کلف بھی جنرل ولو بائی کی طرح یہی سمجھتے ہیں کہ ان کا فرض اپنے باس کی خدمت ہے‘ جو وہ چاہتا ہے کہ ہر کوئی ہر وقت ان کی بات سے اتفاق کرے۔
جنرل میکارتھر کے حوالے سے اکثر یہ با ت کی جاتی ہے کہ ’’اگر ا?پ انٹیلی جنس کو اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں تو ساری فیصلہ سازی کا اختیار آپ کے ہاتھ میں ہوتا ہے‘‘۔ انٹیلی جنس حکام اسے اداروں کو سیاست میں ملوث کرنا کہتے ہیں اور اسے ایسا زہر قاتل کہتے ہیں جو قومی سلامتی سے متعلق فیصلہ سازی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ آج ہم ریٹ کلف کے ذریعے وہ سب کچھ دیکھ سکتے ہیں کہ اداروں کو سیاست میں ملوث کرنے سے ہمارے ہاں کیا کچھ ہو سکتا ہے۔ ایک بڑی انٹیلی جنس کمیونٹی کو دیانت داری سے چلانے کے بجائے ریٹ کلف قومی رازوں کو ایک سیاسی ہتھیا رکے طو رپر استعمال کرنے کے حامی ہیں۔ انہوں نے جو میٹریل بھی اس وقت ڈی کلاسیفائیڈ کیا ہے اگر وہ زیادہ حساس نوعیت کا نہیں ہے تو بھی لوگوں کو اس کا جواز اور سورسنگ یا اس کا پس منظر بتانے میں ناکامی سے عوام میں کنفیوڑن پیدا ہوتی ہے اور عام ووٹر گمرا ہ ہوتا ہے۔ یہ ایک اہم نکتہ ہو سکتا ہے۔ سیاسی مقاصد یا تصوراتی بیانیے کی تخلیق کے لیے ضروری ہے کہ اس پورے سسٹم کوکرپٹ بنا دیا جائے جو تجزیے کے لیے گہرائی تک اس پر انحصار کرتا ہو لیکن اگر آپ اپنے تحادیوں کو یا اپنے ہی انٹیلی جنس افسروں کو ایسے نقصان دہ سگنل بھیج رہے ہیں تو انٹیلی جنس ایجنسیوں کے قبضے میں موجود لاکھوں صفحات میں سے کچھ میٹریل کو منتخب کر کے اس میں سے اپنے باس کی مرضی کے مطابق کوئی ا سٹوری گھڑنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔ لیکن انٹیلی جنس کمیونٹی کو اس طرح بیوقوف بنانے سے بنیادی طور پر اس کی تحقیر ہوتی ہے اور امریکی عوام ا س بات کو ہمیشہ اس طرح نہیں دیکھتے۔
اگر ہم جلد بازی میں بغیر سوچے سمجھے ڈی کلاسیفائیڈ کرتے ہیں اس کے ذرائع منظر عام پر آنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جس سے بیرونی دشمنوں کی مدد ہوتی ہے اور امریکی اتحادیوں کے اعتماد کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ ہمارے اتحادی یا اہم ذرائع ہمارے انٹیلی جنس حکام کے ساتھ اہم انفارمیشن کیوں شیئر کریں گے جو ان کی اس انفارمیشن کو کسی معمولی فائدے کے خاطر عوام کو بتانے سے گریز نہیں کریں گے۔ بالآخر اس سے ہمارا دفاع ہی کمزور ہو تا ہے۔ انٹیلی جنس کی دنیا میں آپ کی ساکھ ہی آپ کا سب کچھ ہوتی ہے۔ امریکہ کے اتحادیوں اور ہمارے ذرائع کو ہم پر اعتبار رہنا چاہئے۔ اور پالیسی سازوں کو یہ اعتماد رہنا چاہئے کہ ہمارے انٹیلی جنس پروفیشنلز ہمیں بہترین اور غیر جانبدارانہ تجزیہ بھیج رہے ہیں۔ اگر باہمی اعتبار کو ٹھیس پہنچ گئی اور محرکات اور دیانت داری پر سوال اٹھنے لگ گئے تو انٹیلی جنس اپنی وقعت کھو بیٹھتی ہے۔ مسٹر ریٹ کلف اور ان کے سہولت کاروں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ہمارے انٹیلی جنس اداروں کی ساکھ مجروح ہو گئی تو اسے بحال کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر