... loading ...
فوجی وردی میں ملبوس نیلی آنکھوں والایہ نوجوان مسلمانوں کے مقدس ملک جارہاتھا،اس کے سفرکی غایت عرب سلطنت کاقیام تھا
عربوں کے پاس چند ہی بندوقیں تھیں اور وہ بھی اتنی پرانی تھیں کہ پہلی ہی بار کے چھوٹنے میں ان کے پھوٹ جانے کا اندیشہ تھا
(قسط نمبر: 9)
یہ صورت حال تھی کہ پردہ اٹھا۔ لارنس ڈرامائی طور پر بغاوت عرب میں داخل ہو چکا تھا۔ بعض دلچسپ قصے یوں بھی مشہور ہیں کہ اس نے پندرہ روز کی رخصت چاہی اور چونکہ اس کے ہمیشہ کے ساتھی اس سے اکتا گئے تھے اس لیے رخصت فوراً منظور کر لی گئی۔ اس قصہ کے سلسلہ میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی رخصت سے واپس ہی نہ ہوا بلکہ ٹھہرا رہا اور اس طرح اپنی مہم شروع کی۔ یہ قصہ دلچسپ تو ضرور ہے لیکن بیشتر قصوں کی طرح حقیقت اس سے بھی عجیب تر ہے۔ جو باتیں ممکن الوقوع تھیں ان کا ذکر اس نے اپنے بعض دوستوں سے کیا تھا۔ چند مہینوں تک وہ باضابطگی اور احتیاط کے ساتھ پردہ کے پیچھے کام کرتا رہا جس کا منشاء فوجی کارروائیوں کے ذمہ دار بڑے بڑے جرنیلوں کو یہ یقین دلانا تھا کہ اگر وہ اس کو عربستان بھیج دیں تو مقصد فتح کے حصول میں وہ تھوڑی بہت مدد کر سکتا ہے۔ ان عہدہ داروں کے یقین میں کچھ نہ کچھ وزن ہو گا ،تب ہی تو انھوں نے اس فولاد جیسی نیلی آنکھوں والے ضدی نوجوان کی طرف سے فکر مند ہونے کے بجائے اس کو اپنے مشن پر رواہ ہونے کی اجازت دے دی۔ عمر رسیدہ ماہروں کی اس ’’شوقین سپاہی‘‘ کے منصوبے میں کوئی بات نظر آئی ہو گی۔ ارباب اقتدار نے خاص فوجی خدمت سے اس کی تبدیلی اس طرف کر دی جس کو ایک طرح خفیہ خدمت کا محکمہ کہا جا سکتا ہے۔
اگرچہ وہ عربوں میں توقیر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن اب وہ اس مقدس ملک کو جا رہا ہے جس کے دروازے تمام بے دینوں پر بند ہیں۔ یہ بے دین، اپنے تصور میں یقین رکھتا تھا کہ یہاں اسے دو امور انجام دینے ہیں۔ پہلا کام ایک لیڈر کی تلاش تھا پھر اس کو یہ یقین دلانا کہ عرب کے آپس کے لڑنے مرنے والے قبیلے اپنی برسوں کی خوں ریز لڑائیوں کو بھول کر آپس میں متحد ہو سکتے ہیں اور ترکوں کو ملک سے نکال باہر کر سکتے ہیں جنھوں نے اس ملک کو اتنے عرصہ تک لوٹا ہے۔ ملک پر ترکوں کی گرفت مضبوط تھی۔ ملک کی واحد ریلوے لائن پر انھی کا قبضہ تھا اور رائفل کی مار سے بھی کم کم فاصلہ پر ان کی مستحکم چوکیاں بنی ہوئی تھیں۔ ان کے پاس جدید بندوقیں اور رائفلیں بھی تھیں۔
عربوں کے پاس چند ہی بندوقیں تھیں اور وہ بھی اتنی پرانی کہ پہلی ہی بار کے چھوٹنے میں ان کے پھوٹ جانے کا اندیشہ تھا۔ ان کے ہتھیاروں میں پرانی وضع کی بھرمار بندوقیں اور ایسی بندوقیں بھی شامل تھیں جن کو چقماق سے اڑایا جاتا تھا۔ نیزے تھے اور خنجر۔ عرب پیدائشی قزاق تھے۔ لڑائی لڑائی کی خاطر لڑنے کی بجائے لوٹنا، چرانا اور آگ لگانا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ وہ جب لڑنے سے تھک جاتے تو عموماً گھر لوٹ جاتے۔ لارنس یہ سب جانتا تھا اس پر بھی اکتوبر 1916ء میں وہ اپنے خوابوں اور ناقابل تسخیر ارادہ سے لیس ہو کر وہ عرب کے ساحل کی طرف چل پڑا۔ مدد کا کوئی وعدہ اس سے نہیں کیا گیا تھا۔ سوائے اپنے منصوبہ کے اس کے پاس کچھ بھی نہ تھا۔عربستان کی مہم شروع ہو چکی تھی۔ لارنس سوئیز سے روانہ ہوا، کشتی سست رفتاری سے خلیج میں چلنے لگی۔ لارنس پر فکر انداز میں ان پتھریلے ساحلوں کی طرف دیکھنے لگا جن میں اس کی ابتدائی دنوں کی آوارہ گردی کے مناظر پوشیدہ تھے۔
دو سال قبل وہ عقبہ سے ریگستان سینا کے وسط تک زائرین کے راستہ پر چلتا ہوا پہنچا تھا۔ اسی وقت سے اس ریگستان نے اس کا دل موہ لیا تھا۔ اب وہ پہلی بار مسلمانوں کے مقدس ملک کو جا رہا ہے۔ اس سفر کی ایک غایت سلطنت عرب کا قیام بھی ہے۔
کشتی کے ملاح ان عجیب مسافروں کو دیکھ کر حیرت زدہ تھے۔ خصوصاً اس شخص کو دیکھ کر جو فوجی وردی پہن کر بھی سپاہی نہ معلوم ہوتا تھا۔ انھوں نے اندازہ لگا لیا کہ وہ اپنے ساتھی سے بہت کم گفتگو کرتا ہے اور اکثر اوقات اپنے خیال میں محو رہتا ہے۔
ملاحوں نے پوچھا کہاں جا رہے ہو؟۔
کسی نے جواب دیا۔ جدہ۔‘‘
کس لیے؟
اس کا جواب نہیں دیا جا سکتا تھا۔ اختتام سفر پر بھی وہ نہ سمجھ سکے کہ اس کے سفر کی غایت کیا تھی۔ بحرقلزم کا یہ سفر نمایاں واقعات سے خالی ہے۔ مسٹر اسٹورز کو حیرت تھی کہ لارنس آخر کرنا کیا چاہتا ہے۔ ان کے لیے یہ بھی مشکل تھا کہ اس کو گفتگو پر آمادہ نہ کر سکیں۔
گرمی بہت شدید تھی اتنی شدید کہ سانس لینا تک دوبھر ہو گیا۔ جب رات آئی تو کچھ سکون ملا اور ممکن ہوا کہ کشتی کے چھوٹے عرشہ پر قدرے سکون کے ساتھ چند قدم چل پھر سکیں، ہر روز یہی نقشہ رہتا۔
کشتی اس سمندر کے چکی تال پر جو طویل طویل لیکن سست رفتار اتار چڑھاؤ کے ساتھ جلتے ہوئے سورج کے نیچے لہریں لے رہا تھا، آہستہ لیکن ہموار رفتار سے دھواں اڑاتی چلی جا رہی تھی۔ اس وقت عرشہ پر کھڑے ہونے یا کسی سلاخ کے باہر جھکنے کی کوشش کرنا محض حماقت تھی اس لیے کہ گرمی کی حدت سے جسم کا گوشت جل اٹھتا۔ دن کے وقت وہ عرشہ گھر کے سایہ کے آگے دو یا تین کمبلوں کی موٹائی کا پردہ ڈال لیا کرتا تو وقت کے گزرنے کے ساتھ یہ سایہ بھی ہٹتا جاتا تو وہ خود بھی اس کے ساتھ ہٹنے لگتا۔ اس سے بھی عجیب بات یہ تھی کہ انگریزی نام اور انگریزی یونیفارم کے باوجود لارنس کسی عرب کی طرح پاؤ سمیٹ کر بیٹھنے میں آرام محسوس کرتا۔
ان کے جدہ پہنچنے سے ایک دن قبل موسم میں کچھ تغیر رونما ہوا۔ آسمان یکایک سیاہ اور تیرہ تار حد تک نیلگوں ہو گیا۔ جو طوفان کی آمد کا پیش خیمہ ہے۔
ایک دن تکلیف میں گزرا۔ بدشگون جھلائی ہوئی ہوا جہاز کے ماتھے پر پانی اڑاتی رہی۔ سمندر میں تموج عظیم تھا جس سے کبھی کبھی پانی کے تھپیڑے کشتی کے عرشہ پر بھی پڑنے لگتے تھے۔
ایک گونج کے ساتھ ہوا کا جھکڑ خلیج پر سے گزر گیا۔ موجیں بلند ہوئیں اور ان کے ساتھ کشتی بھی ابھری۔ کشتی جب موجوں کے اتار کے ساتھ سطح پر آتی تو اس کا پنکھا لہروں کو دھکیل کر آگے بڑھتا ہوا نظر آتا۔ اس ہولناک سمندر میں کشتی پانی کو چیرتی دشوای کے ساتھ راستہ پیدا کرتی چلی جا رہی تھی۔ سطح آب پر وہ ایسی معلوم ہوتی گویا کتاتیرتا ہوا پانی سے باہر آ رہا ہے۔
طوفان جس تیزی سے آیا تھا اسی تیزی سے گزر گیا۔ اب وہ پھر خاموش سمندر میں بڑھے جا رہے تھے۔صبح میں لارنس سلاخوں کے اوپر سے سمندر کو دیکھا کرتا جس پر تیزی سے بلند ہونے والے سورج کی شعاعیں ابھی ابھی پڑنے لگتی تھیں۔ اس پر ایک چوڑی چکلی قوس قزح کا دھوکہ ہوتا جس میں تیل کے چھتے آڑے ترچھے نقش و نگار بنے ہوتے۔
کہیں کہیں گشت لگاتی ہوئی شارک مچھلی کا پر یا سوسماروں کی ٹکڑیاں خاموش سطح آب میں لرزش پیدا کر دیتیں۔ سمندر سے روشنی کی زندہ لکیریں نمودار ہوتیں اور آنکھ جھپکنے میں نظر سے غائب ہو جاتیں قلانچیں مارتی ہوئی مچھلیاں نیچے چھپے ہوے خطرہ کے ڈر سے بھاگ جاتی تھیں۔
کسی ایسی ہی صبح میں یہ سیدھی سادی کشتی عہد قدیم کے نارزمنوں Norsemen کے اس بادبانی جہاز سے مشابہ معلوم ہوتی جو نامعلوم مہموں پر کسی خیالی سمندر میں سفر کرتے تھے۔
جب معلوم ہوا کہ جدہ قریب ہے تو مسٹر اسٹورز آگے کی طرف دیکھنے لگے۔ یہ بات انھوں نے لارنس سے بھی کہی لیکن اس اطلاع نے لارنس میں کوئی ہیجان پیدا نہیں کیا۔ اس کے چہرہ کی متانت علی حالہ قائم رہی البتہ اس کی تیز نیلگوں آنکھوں میں چمک تھی، پھر وہ بھی بند ہو گئیں۔
(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔