... loading ...
وہ نو عمر، بے سلیقہ اور انتہائی غیر فوجی قسم کا انسان تھا لیکن اس کا قلب دنیا کے بعض عظیم ترین جرنیلوں سے ٹکر کھاتا تھا
(قسط نمبر:7)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن سیکنڈ لیفٹنٹ ٹامس ایڈورڈ لارنس کا خیال کچھ اور تھا۔ بعض نقشوں کے متعلق وہ جانتا تھا کہ وہ سرتا سر غلط ہیں اس لیے انھیں پرزے پرزے کر دیتا۔ دوسروں میں من مانی تبدیلیاں کرتا۔ نقشہ پر جن چیزوں کو مہمل سمجھتا وہاں حیران کر دینے والی یادداشتیں لکھ دیتا۔
اس سے کہا بھی گیا کہ وہ اس طریقہ عمل کا مجاز نہیں ہے لیکن وہ برابر یہی کرتا رہا۔ اس کے بالا دست جانتے تھے کہ یہ اس کا غلط طریہ کار ہے لیکن بہت جلد وہ یہ بھی سمجھ گئے کہ لارنس محض د لگی کے طور پر یہ حرکتیں نہیں کر رہا ہے۔
اس کو اپنے ہر فعل پر اعتماد ہوتا۔ وہ جانتا اور کہہ دیتا (مخاطب چاہے اس کے مساوی درجہ کا عہدہ دارہ ہو یا اونچے درجہ کا) کہ نقشہ کی ایک غلطی بھی لڑائی کے ہارے جانے کا موجب بن سکتی ہے اور بالخصوص اس ملک میں جس کی ’’تحقیقات‘‘ وہ کر رہے ہیں کسی غلطی کا ہرگز روادار نہ ہونا چاہیے، اس لیے کہ ریگستانی ملک غلطیوں اور فرو گزاشتوں کے باب میں بہت سخت گیر واقع ہوئے ہیں مثلاً کسی چشمہ کی جگہ کے تعین میں دس میل کا فرق زندگی اور موت کا فرق ہے ملک میں ادھر ادھر پھیلی ہوئی بیسیوں چھوٹی چھوٹی وادیوں میں سے کسی ایک کے نام کی غلطی بھی راہ بھٹک جانے کا موجب بن سکتی ہے۔
کسی متمدن ملک میں اس طرح راہ بھٹکنے میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ بہت جلد کوئی نشان راہ ایسا مل جائے گا جو سیدھے راستہ پر لاڈالے گا لیکن ریگستان میں راہ بھٹکنے سے تمہارا انجام بھی تم سے پیشتر لاکھوں ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہو گا اور سالہا سال بعد تمہاری سفید ہڈیاں کسی بھولے بھٹکے مسافر کو پڑی نظر آئیں گی۔
جی ہاں! لارنس جانتا تھا کہ اس ملک میں نقشہ پر غلط نشانات کے کیا معنی ہوتے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ لڑائیاں کس طرح جیتی اور ہاری جاتی ہیں۔ وہ نو عمر، بے سلیقہ اور انتہائی غیر فوجی قسم کا انسان تھا لیکن اس کا قلب دنیا کے بعض عظیم ترین جرنیلوں سے ٹکر کھاتا تھا۔
کپٹن ہو یا جرنیل، لارنس نہ سلام کرتا اور نہ اس کی طرف متوجہ ہونے میں پہل کرتا۔ نہ مخاطب کیے جانے کا منتظر ہوتا، نہ خود اس قسم کی گفتگو کرتا۔ مثلاً ’’معاف فرمائیے حضور! میں آپ کی توجہ نہایت ادب سے اس حقیقت کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ اس نقشہ میں ایک غلطی ہے۔‘‘
بر خلاف اس کے وہ اپنی انگلی غلطی پر ٹیک دیتا اور مختصر الفاظ میں کہتا:
’’یہ غلط ہے‘‘ یا ’’یہ ٹھیک نہیں ہے‘‘ یا ’’یہ لغوہے۔‘‘ اس کو بدل دینا چاہیے۔‘‘
اور ساتھ ہی وہ لفظ ’’جناب‘‘ کو بھی نظر انداز کر جاتا۔
بلاشبہ وہ جنگ جاری رکھنے والوں کی نظر میں سرے سے سپاہی ہی نہ تھا۔لیکن مشرق قریب کے معاملات میں اس کی قابلیت اور حیثیت مستند مانی جانے لگی تھی، اس لیے کہ وہ اس ملک کے متعلق ہر دوسرے شخص سے کچھ نہ کچھ زیادہ واقفیت کا ثبوت دیتا رہا تھا۔ اب کسی ملک کے کسی قطعہ سے متعلق اس کی توضیحی اطلاعیں پس پشت نہیں ڈال دی جاتی تھیں۔ وہ اتنا جلد اپنا سکہ بٹھا چکا تھا کہ خاص قابلیت کے اور بالخصوص ترکوں کے طور طریقوں سے خوب واقف کار عہدہ داروں کو کٹ کی صورت حال کی اطلاع دینے کے لیے میسو پوٹومیا طے پایا تو منتخب افراد میں لارنس بھی شامل تھا۔
بالآخر لارنس بصرے جا پہنچا اور وہاں مس گرٹوڈیل سے مل کر بہت مسرورو متعجب ہوا۔ یہ خاتون ممتاز زندگی گزار چکی تھیں اور جنگ سے قبل شام اور عربستان کے بعض نامعلوم یا کم معلوم علاقوں کی چھان بین میں سختیاں اور خطرے برداشت کرتی، صحرا کے بعض اندرونی حصوں تک جا پہنچی تھیں خاتون موصوف اس ملک اور یہاں کے قبیلوں سے واقفیت کی بناء پر مشہور ہیں۔ انھوں نے اپنے علم اور واقفیت کے ذریعہ نہ صرف امن کے زمانہ میں بلکہ دوران جنگ میں بھی انگلستان کی بڑی خدمت کی ہے۔
وہ ملے اور پرانی ریگستانی مہموں اور بالخصوص Carchermish کے کھنڈروں کے متعلق گفتگو کرتے رہے۔ وہ ان پرانے موضوعوں پر گفتگو کر ہی رہے تھے کہ ندی کے پرے بندوقوں کی درشت آواز سنائی دی جس نے جنگ کی دائمی یاد کو تازہ کر دیا۔
لارنس نے بڑے تپاک سے اس جاں باز خاتون کو الوداع کہا۔
دریا پر پہنچتے ہی لارنس کو معلوم ہوا کہ یہاں قریب ہی میں اسے ایک بڑی مہم سرکرنی ہے۔ برطانوی فوجی افسروں کی جماعت کٹ کی مجوزہ فوجی دست برداری کے متعلق ابتدائی بات چیت شروع کر چکی تھی۔ محافظ فوج کی انتہائی جاں بازی اور قربانیوں کے باوجود یہ ظاہر ہو چکا تھا کہ کٹ کرو چھوڑ دینا ہی پڑے گا،باقی صرف یہ رہ گیا تھا کہ ترکوں سے ممکنہ بہتر شرائط منوالی جائیں۔
لارنس کے ذمہ یہ کام تھا کہ ممکنہ تعداد میں انگریز زخمیوں کو منتقل کرتا رہے۔ لارنس کو مدد کے لیے یہاں بھیجا ہی اس لیے گیا تھا کہ وہ اس ملک سے خوب واقف تھا۔ اس نے خندقوں میں چند دن گزارے جہاں وہ فوجی افسروں سے مسلسل گفتگو کرتا رہا۔ مردہ لاشوں کی سخت بد بو دار اور مہلک ہوا میں سانس لینے اور ایسی غذا کھانے سے جس کو مکھیوں اور کیڑوں کے نرغہ سے محفوظ ہیں، رکھا جا سکتا تھا۔ لارنس کو ہلکا سا بخار چڑھ آیا لیکن چند ہی روز کے آرام کے بعد وہ پھر اٹھ کھڑا ہوا۔ اگرچہ اب بھی وہ کمزور تھا لیکن اپنے فرائض انجام دیتا رہا۔ انگریز عہدہ داروں کے لیے بشمول لارنس اب وہ وقت آ گیا تھا کہ ترکی افواج کے سفید جھنڈے کے آگے سپر ڈالدیں۔ یہ لارنس کے لیے ایک انوکھی بات تھی۔ وہ بڑھاپے اور علالت کی پر سکون موت سے آشنا تھا۔ نہر سوئز پر لڑائی کے بعد اس نے بعض مردہ ترکوں کے فوٹو بھی لیے تھے۔ لیکن یہ اس سے بھی زیادہ المناک اور وحشت ناک چیز تھی۔ وہ دو سو گز ہی گئے ہو ںگے کہ اس نوجوان طالب علم (لارنس) نے خود کو جنگ کی تمام ہولناکیوں میں گھرا پایا۔ جہاں تہاں خودد اس کے ہم وطنوں اور ترکوں کی لاشوں کے انبار لگے تھے جو بے دھڑک فتح کے داؤ پر لگا دئیے گئے تھے۔ اس المناک منظر نے ان کی فطرت کے سارے ستھرے پن اور بلاوجہ اذیت رسانی سے اس کے عادتی گریز اور تنفر میں ایک ہیجان سا پیدا کر دیا۔ لڑائی تو بہر حال لڑنی تھی۔ لیکن اس نے کچھ ایسا محسوس کیا کہ لڑائی جیتنا ہی ہے تو اس کو اتلاف جان کے کم سے کم نقصان کے ساتھ محض ہوشیاری سے جیتنا چاہیے جس کو فوجی ماہرین کی اصطلاح میں فن حرب Straegy کہا جاتا ہے۔ خوں ریز جنگ جوئی میں وہ خود کو دلیر نہیں پاتا تھا۔ لیکن فتح و شکست کا انحصار اسی پر تھا۔ یہ لڑائی ترک جیت ہی چکے تھے اور لارنس بظاہر اگرچہ جری نظر آتا تھا لیکن اس کو اپنے احساسات کے چھپانے میں بڑی جدوجہد کرنی پڑتی تھی۔
اس قسم کی لڑائی میں کوئی عظمت و برتری نہ تھی۔ اس لیے کہ یہی قتل و خون ریزی کا دوسرا نام تھا اور ترک اپنے ابتدائی اقدام پر فتح پا چکے تھے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ جنگ آزادی کا نصب العین ہیولیٰ کی شکل میں ان دنوں اس کے خیالات پر مستولی ہو، ظفریابی کا یہ طریقہ تباہ کن حد تک سست رفتار تھا۔ جنگ ایسی چیز ہے جس کو جلد ختم ہونا یا کر دینا چاہیے کیونکہ سوائے تباہی کے اس کا نتیجہ کچھ اور نہیں ہوتا۔فوجی صدر مقام سے اب اس کے تفویض یہ کام کیا گیا کہ ہوائی فوٹو گرافی کے ذریعہ نقشے بنانے کے امکانات پر رپورٹ روانہ کرے اور تحقیقات شروع کرنے کے لیے اس کو بصرے بھیج دیا گیا۔ اس سے مقصود ممکن ہے لارنس کو آزمانا ہو یا ان ہی کی جدید گھڑی ہوئی اصطلاح ’’شرارت‘‘ Mischief سے اس کو کہیں دور مشغول رکھنا ہو۔
(جاری ہے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔