وجود

... loading ...

وجود

ایمنسٹی کا اخراج ،بھارتی جمہوریت پر سوال

هفته 24 اکتوبر 2020 ایمنسٹی کا اخراج ،بھارتی جمہوریت پر سوال

آپ کو نریندر مودی کی جانب سے بھارت کا حوالہ دیتے ہوئے اس کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دینے پر فخر کا احساس یاد ہوگا‘ انہوں نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے اولین برسوں میں بار بار اس کا اعادہ کیا تھا۔ کوئی بھی بھارت کی اس خصوصیت سے انکار نہیں کرسکتا۔ بھارت بار بار انتخابات کروانے اور حکومتیں تبدیل کرنے کے لیے شہرت رکھتا ہے۔ کوئی بھی مودی کے دعوے پر اعتراض نہیں کرسکتا۔ ان کا دعویٰ غیر متنازع طور پر درست تھا۔ ہم آزاد عدلیہ میں یقین رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ صحافت آزاد اور نڈر ہے لیکن یہ صرف جمہوریت کا دکھاوا ہیں کیونکہ میرے دل میں انسانی حقوق زیادہ محترم ہیں۔ حکومت کے گزشتہ 6 سال میں بہت کچھ ایسا پیش آچکا ہے کہ جمہوری بنیادی جذبے کا احترام ابھرکر سامنے آیا ہے۔ ایمنسٹی اکثر ان کی باتوں کی پْرزور تائید کرتی تھی؛ تاہم جموں و کشمیر میں کارروائی اور پولیس کی جانب سے دہلی میں فروری کے فسادات سے نمٹنے کے طریقے پر ایمنسٹی نے اپنی آواز بھارتی افواج اور سکیورٹی اداروں کی جانب سے استحصال کے خلاف اٹھائی تھی۔ اور یہ کوئی ایسی ڈھکی چھپی بات بھی نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ گزشتہ چھ سالوں سے‘ جب سے بی جے پی حکومت اقتدار میں آئی ہے‘ انسانی حقوق کو ٹھیس پہنچائی جا رہی ہے اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔کیا سول سوسائٹی اور صحافتی طبقات یہ بات نہیں جانتے کہ انسدادِ دہشت گردی اور غداری کے قوانین اکثر ناراض افراد کو کچلنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔کیا جموں و کشمیر‘ نکسل رہنمائوں اور ناگالینڈ واسیوں کے لیے ان قوانین کا بے دریغ استعمال نہیں کیا گیا؟ کیا یہ بات سامنے کی حقیقت نہیں کہ مسلح افواج (میں خصوصی اختیارات کے) قانون کی وجہ سے 1984ء میں سکھوں کا قتل عام ہوا اور آزادی تقریر ختم کردی گئی۔ جو افراد حکومت کے اقدامات کی تائید کرتے تھے اور ان پر فخر کرتے تھے‘ ان کے لیے یہ ایک کانٹا تھی لیکن اس سے عوام کی نمائندگی بھی ہوئی اور اس کے لیے انہیں احسان مند ہونا پڑا۔

میں ان الزامات کی تیز رفتاری پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا جو ایمنسٹی کے خلاف عائد کیے جاتے ہیں۔ہر دور میں یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک فریق تصویر کا ایک رخ پیش کرتا ہے اور دوسرا کوئی نیا رخ لے کر سامنے آتا ہے۔ ایمنسٹی پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس نے بھارتی قوانین میں کمی کی اور مشتبہ جواز کی بنا پر فنڈزاکٹھے کیے۔ ایمنسٹی اس کا انکار کرنے پر مجبور ہوگئی تھی۔ مودی حکومت کا کہنا ہے کہ منموہن سنگھ کی زیر قیادت حکومت بھی ایمنسٹی کے خلاف کارروائی پر مجبور ہوگئی تھی‘ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ جانب داری یا سیاسی انتقام نہیں ہے۔ حکومت نے ایمنسٹی کو فنڈ فراہم کیا حالانکہ وہ اس کو تنقید کا نشانہ بناتی تھی لیکن فنڈز کی کمی کا شکار تھی۔ سادہ سے الفاظ میں مَیں کہنا چاہتا ہوں کہ چاہے یہ دلیل کی خاطر ہو‘ ا?پ تسلیم کرتے ہیں کہ ایمنسٹی غلطی پر تھی؟دانشمند جمہوریت محتاط طور پر غور کرتی ہے اور پھر کون سے اقدامات کرنا چاہئیں‘ اس کا فیصلہ کرتی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ مسلح افواج کی جانب سے ایمنسٹی کی کارروائی دکان بند کردے گی اور انہیں تخلیہ کرنا پڑے گا۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت صرف ہمارا پختہ ارادہ ہی نہیں ہے بلکہ درحقیقت اس سے ہمیں آخر کار شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔

ایمنسٹی کو برخاست کرنے کی ضرورت ہے لیکن فضا جو کبھی ہماری دہلیز پر ہے‘ قیمتی ہے۔ درحقیقت اس کا متبادل موجود نہیں ہے کیونکہ یہ جو کارروائی کرتا ہے‘ وہ ناقابل تبدیل ہے۔ یہ بھارت کے لیے خراجِ عقیدت ہے کہ ایمنسٹی نے دستبرداری کا فیصلہ کیا کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ اس طرح کئی ممالک شبہ میں مبتلا ہوگئے تھے۔ ایمنسٹی کے عزائم کیا ہیں؟ اور وہ چین اور دوسرے علاقائی ممالک کے خلاف کارآمد ثابت نہیں ہوسکتی۔ اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایمنسٹی بہتر پوزیشن پر ہے۔اس مرحلہ پر ہمیں دوبارہ فخر کا اظہار نہیں کرنا چاہئے کہ ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں۔ یہ بات خود ہمیں نہیں کہنا چاہئے۔ ہم میں سے کئی افراد کو سیاسی رہنماو?ں پر کافی یقین ہے۔ کہا جاتا ہے کہ باقی دنیا کو امید ہے کہ انہیں ترغیب دی جاسکے گی لیکن دنیا کو یقین ہے کہ ہم نے ایمنسٹی کے ساتھ اور اس کے ساتھ منصفانہ اور مناسب رویہ اختیار کیا ہے یا پھر وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ایمنسٹی کو بار بار انکشافات کرنے کی سزا دی گئی ہے اور وہ بھارتی جمہوریت کا کھوکھلا پن برسر عام ظاہر کرتی رہی ہے۔ حزب اختلاف کے رہنما ششی تھرور نے ایمنسٹی کے انخلا کو پورے ملک کے لیے ایک دھچکا قرار دیا ہے۔اپنے سوشل میڈیا پیغام میں انہوں نے کہا کہ بھارت کو زیادہ تر اس کی آزاد جمہوریت ہونے کی ساکھ اور میڈیا سمیت سول سوسائٹی تنظیموں کی آزادی کی بنیاد پر دنیا میں ایک اعتدال پسند ملک سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح کے اقدامات سے بطور جمہوری اور اعتدال پسند ملک ہماری ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ حکومتی اقدام دنیا بھر میں ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔اب انسانی حقوق کے مسئلے پر ایمنسٹی زیادہ بلند درجہ پر پہنچ گئی ہے جو حکومتِ ہند سے بھی اونچا ہے۔ میں صرف مودی حکومت کا حوالہ نہیں دے رہا ہوں بلکہ ان کے پیشروئوں کا بھی حوالہ دیتا ہوں۔ خاص طور پر اندرا گاندھی کا، میں تسلیم کرتا ہوں کہ ایمنسٹی میں بھی کوتاہیاں موجود ہیں۔ ممکن ہے کہ اس کے مالی معاملات میں کچھ بے ضابطگیاں ہوئی ہوں ‘ مگر کیا یہ معاملہ صرف ایمنسٹی تک تھا؟ دوسری طرف اس کے بانی پیٹر بیننسن تھے‘ جنہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ 1966ء میں ان کی تنظیم برطانوی دفتر خارجہ اور MI6 کے امور میں دخل اندازی کررہی تھی اور چند افراد کو ان کی بات پر یقین بھی آگیا اور 1977ء میں ایمنسٹی نے نوبیل امن انعام جیت لیا۔ سپاس نامہ کے الفاظ میں ’’ظلمت میں اجالا‘‘ لاکھوں قیدی ضمیر رکھتے تھے، یہ ایک صداقت ہے۔ اب یہ روشنی ہماری زندگیوں سے باہر نکل چکی ہے۔ ایسا 1948ء میں پہلی بار ہوا تھا گاندھی کا قتل نئے آزاد ہند کو اپنے ضمیر سے محروم کرنے کی وجہ بنا۔ ایمنسٹی سے اخراج کا مطلب یہ ہوگا کہ ایک آواز جو ہمیں یہ یاد دلاتی تھی کہ ہم اکثر اقدار میں کمی کے مجرم ہے‘ ان آوازوں کو خاموش کررہے ہیں۔
اکثر یہ ارادوں کا اعادہ کرنے کی آواز تھی لیکن ہمیشہ ضروری آواز رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کی بات سنی جاسکتی ہے اور اس بات کا دوبارہ یقین دلایا جاسکتا ہے کہ یہ ممالک جمہوریت کا ثبوت ہے حالانکہ بعض اوقات اس میں کوتاہی ہوتی ہے اور پیشرفت نہیں ہوسکتی۔ اس لیے ہم اس کو اب سننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس کو آسانی سے خاموش کردیا جائے گا اور ’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘‘ کا صفایا ہوجائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر