... loading ...
(قسط نمبر: 5)
لارنس نے کئی سال غریب عربوں کے درمیان گزارے انکا بھیس بدل کر مقدس شہر مکہ میں بھی جاپہنچا،ان میں آزادی کاجوش جگایا
سینکڑوں سال قبل ایک عظیم الشان قوم اس ملک میں آبادرہ چکی ہے۔ اب اس کی یادگار صرف قصے کہانیاں رہ گئی ہیں یا چند چٹانیں۔ وحشیوں نے روم کی تھکی ہوئی حکومت کا صفایا کر دیا تھا اور چند صدیوں تک فرقے اور قبیلے شہر بشہر آوارہ گردی کرتے رہے۔ وہ ان کھنڈروں کی جو روم کی گذشتہ عظمت کی یاد گار تھے، تعمیر کر ہی رہے تھے کہ ان سے طاقتور قبیلوں نے انھیں بھی مار بھگایا۔
پھر ایک یتیم نے جس کا نام محمدؐ تھا ایک نئے دین کی تلقین کی۔ نویں صدی عیسوی تک اس کے پیرو کار قرآن (عربی بائبل) کے اثر سے اس وقت کی معلوم سر زمین یعنی کیتھے (Cathay) کی دور دراز پھیلی ہوئی فوجی چوکیوں سے لے کر اسپین تک پھیل گئے۔ عربوں نے سلطنتیں قائم کیں۔ ہئیت، طب اور ریاضی میں وہ یکتائے روزگار تھے۔ مقناطیسی سوئی سینکڑوں سال قبل انھوں نے ہی ایجاد کی۔ وہ بہترین جہازراں تھے۔ اس وقت کے عرب کئی چیزوں سے واقف تھے جن کو دنیا بعد میں صدیوں تک بھولی رہی۔ اب بھی اس زمانہ میں انکے مدفون شہروں کی کھدائی میں کوئی ایسی بیش بہا چیز ہاتھ لگ جاتی ہے جس کے رنگ کی خوبصورتی اور وضع کی درستی ہماری فہم سے بالا تر ہوتی ہے۔
جنگ عظیم کے پیشتر کے چار برسوں میں لارنس نے ان قدیم سلطنتوں کے طول و عرض کا دورہ نہیں کیا یا نہ کر سکا۔ لیکن وہ وہاں ضرور گیا جس کو اس سر زمین کے تمدن کا گہوارہ کہنا چاہیے، یہاں کے کھنڈروں اور مقبروں میں مدفون نوادر اور چٹانوں کے کتبوں میں… جس کو عہد قدیم کی مشقی تختیاں کہنا چاہیے… اس نے حیرت انگیز ماضی کی کہانی پڑھی۔
مسیحی مجاہدوں کے قلعوں میں اس نے عیسائیت کی پرقوت پیش قدمی اور اسلام کے مقابلہ میں طویل معرکوں کے بعد اس کی پسپائی مشاہدہ کی۔ وہ فلسطین سے شام گیا اور اس ملک میں سے گزرتا ہوا اس مقام پر جا پہنچا جہاں انگلستان اور یورپ کے سردار اور دیہاتی اپنے مقدس شہر یروشلم کے لیے کئی دفعہ لڑ چکے تھے۔ اس نے ان سڑکوں پر سفر کیا جن پر موٹریں حال میں چلنے لگی تھیں اور ان راستوں پر بھی جو سینا اور شام کے ریگستانوں کو قطع کرتے ہوئے گزرتے ہیں اور جن پر اونٹوں کے بے شمار کاروانوں کی آمدورفتنے ہمیشہ بدلتے ہوئے صحرا میں بھی ایک مستقل راستہ بنا دیا تھا۔ان پگڈنڈیوں پر بھی اس کے قدم پہنچے جن کو صرف عرب کا قصہ گوہی جان سکتا تھا۔ اس ملک کے اس سوکھے ساکھے بے آب و گیاہ، جان لیوا اور بظاہر نا قابل گزر معلوم ہونے والے علاقوں میں جو آڑے ترچھے آتش فشانوں سے مشابہ تھے، یہ پگڈنڈیاں صرف قریب کے راستوں کا کام دیتیں اور وہ بھی صرف اسی شخص کے لیے جس میں ہمت شجاعت اور قوت ہو۔
لوگوں کی زبانوں پر ترکوں کے ظلم و تعدی کے قصے تھے۔ پانچ سو سال تک ترکوں کی حکومت نے عربوں کا برا حال کر دیا تھا وہ چپکے چپکے بیان کرتے، اس لیے کہ کوئی سن پاتا تو شکایت کرنے والے کو قید اور بعض دفعہ جسمانی تعذیب حتیٰ کہ موت تک کی سزا ملتی۔
عربوں کی عظیم الشان سلطنت بری طرح منتشر ہو چکی تھی۔
ہر قبیلہ کی وفا شعاری کا مرکز جداگانہ تھا۔ ایک ہی قوم کے افراد ہونے کے باوجود وہ ایک دوسرے سے نفرت کرتے تھے۔ وہ اعلانیہ رائفل اور چھرے سے لڑتے اور ایک دوسرے کاروانوں پر چھاپے مار کر اونٹوں اور غلاموں کو لے جاتے۔ پہاڑ پر رہنے والے رات کے وقت میدانوں میں اتر آتے اور جب سورج نکلتا تو تباہی اور لوٹ اور حملہ کے گزر جانے کا منظر پیش نظر ہوتا۔
وہ ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے۔ ان میں ہر ایک اپنے دشمن کو مار ڈالنے کا حلف اٹھا چکا تھا۔ البتہ شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک دوار ادے یا تصور کا فرما نظر آتے تھے وہ اپنی گزشتہ سلطنت کے خواب دیکھنے لگے تھے اور خود کو ترکوں کی قابل نفرت غلامی سے آزاد کرا لینا چاہتے تھے۔
لارنس کوئی متمول آدمی تو نہ تھا۔ اس نے اپنی ابتدائی زندگی کے کئی سال مشرق قریب میں غریب لیکن خود دار عربوں کے درمیان گزارے۔ وہ ان کی آزادی کی خواہش سے بہت متاثر ہوا اور جب ان کو اچھی طرح پہچان گیا تو ان پر اعتماد کرنے لگا۔
کئی سیاح گزرے ہیں جنھوں نے عربوں کا بھیس بدل کر ریگستانوں کو طے کر ڈالا ہے حتیٰ کہ مقدس شہر مکہ میں بھی جاداخل ہوئے۔
لارنس پستہ قد تھا، داڑھی مونچھ دونوں صاف کرتا، اس کے بال سنہری تھے اور آنکھیں نیلی، اس کا جسم دھوپ سے گندمی ہونے کے بجائے اینٹ کی طرح سرخ ہو جاتا ہے۔ اس طرح وہ عربوں کی بالکل ضد تھا۔ جہاں کہیں اجنبی کی حیثیت سے جاتا فوراً پہچان لیا جاتا۔ وہ ایسا تھا جس کو دیکھ کر عموماً عربوں کے دل میں نفرت ہی نہیں بلکہ اس پر حملہ کرنے لوٹ لینے حتیٰ کہ مار ڈالنے کا خیال پیدا ہو سکتا تھا لیکن وہ ان کی مصیبتوں میںاعلانیہ طور پر ان سے ہمدردی کا اظہار کرتا وہ ان کے ارادوں اور خواہشوں سے اتنا قریب تھا اور ان کے خوابوں پر ایسا یقین واثق رکھتا تھا کہ انھوں نے اس کو اپنے دل میں جگہ دی اور اس کو اپنا مخلص سمجھا۔
یہ تو اس کی سیرت کا ظاہری پہلو تھا لیکن اس کا ایک خاص پہلو اور بھی تھا۔ وہ عسکریت کی تاریخ سے واقف تھا اور فوجی معرکوں اور صلیبی لڑائیوں کا گہرا مطالعہ کر چکا تھا۔ اس علم اور واقفیت نے اس کی فطرت کے جاں بازانہ حوصلہ سے ہم آہنگ ہو کر جو سیاحوں اور سپاہیوں سے سلسلہ بسلسلہ اس کو ورثہ میں ملا تھا، اس میں یہ صلاحیت پیدا کر دی تھی کہ صدیوں پہلے کی زندگی کا تصور کر سکتا تھا۔
ماضی کی عظمتوں اور حال کی تباہیوں نے اس عجیب اور محیر العقول ملک سے مزید واقف ہونے کی آرزو اس میں پیدا کر دی تھی۔
اس کے تمام تصورات محض خواب ہی خواب نہ ہوتے۔ انگلستان واپس آ کر اس نے مبسوط کتابیں لکھیں جن میں اپنے دیکھے ہوئے مقاموں اور چٹانوں اور ریت میں دبے ہوئے قدیم شہروں کی تفصیل نہایت خوبی سے بیان کی۔
پرانے ماہروں اور برسوں کا تجربہ رکھنے والوں نے ان رودادوں میں ایک عجیب و غریب دل و دماغ کی شہادت پائی اور وہ ذہن جو اس ملک اور اس کی تاریخ سے واقف تھے لارنس کو غیر معمولی ذہین شخص سمجھنے لگے۔ ایک بڑے آدمی نے دوسرے سے کہا:
’’ایک غیر معمولی لڑکا… عربوں کے درمیان بھٹکتے رہنے کے لیے وقف ہو چکا ہے۔‘‘
1913 ء میں لارنس نے دو عرب فورمین اپنے ساتھ لے لیے جس کے سبب آکسفورڈ میں گپ بازی کا خوب بازار گرم رہا۔
عرب اس کے باغ پائین والی جھونپڑی میں رہتے تھے۔ یہ جھونپڑی اس نے اپنے مطالعہ کے کمرہ کے طور پر بنائی تھی۔ نیز اس لیے بھی کہ اپنے چھوٹے بھائیوں کی پر شور مداخلت سے یہاں سکون مل سکے۔ ان عربوں کے مختصر زمانہ قیام میں لارنس نے انھیں سائیکل کی سواری سکھلائی۔ لیکن عربوں کی تمام تر توجہ اس امر پر رہتی کہ انتہائی تیز رفتاری کے اصول سمجھ میں آ جائیں۔
جنگ عظیم سے پہلے ٹریفک کوئی زیادہ نہ تھی۔ پھر بھی یہ نسبتاً نئی سواری عام رہروں کے لیے کچھ پریشان کن ہی تھی۔ لارنس عربوں کو لے کر بہت کم باہر نکلتا ۔ عرب اپنی لمبی چوڑی عباء میں ملبوس ہوتے جس پر لوگوں کو ان کے عورت ہونے کا گمان گزرتا۔ ان میں ایک عرب کے چہرہ پر داڑھی تھی جس کے متعلق لوگ اس کے سوا کچھ نہ سمجھتے ہوں گے۔ یہ بھی سرکس کی مشہورداڑھی والی عورتوں میں سے ایک ہے۔
عرب ایک دفعہ چڑیا گھر بھی گئے۔ بعض جانوروں کو تو وہ جانتے تھے۔ خود عربستان میں چھوٹے چھوٹے سانپ بکثرت پائے جاتے ہیں لیکن اجگر کو دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئے۔ ان سے جب پوچھا گیا ہو گا کہ تم نے چڑیا گھر میں کیا دیکھ تو انھوں نے یقینا یہی جواب دیا ہو گا کہ ہم نے ’’مکانوں کے برابر لمبے سانپ دیکھے۔‘‘ اور چونکہ تمام عرب قصہ گوئی میں بڑے استاد ہوتے ہیں۔ اس لیے امکان ہے کہ اپنے ملک پہنچتے پہنچتے ان سانپوں کی لمبائی گلی کے برابر ہو گئی ہو گی۔
(جاری ہے)