... loading ...
دوستو، س سے سندھ آتا ہے اور ’’س‘‘ ہی سے ’’سنگہم‘‘ بھی آتا ہے۔۔سندھ پولیس آج سنگہم کیوں بنی؟؟ پہلے تو آپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ’’سنگہم‘‘ کس بلا کا نام ہے؟ یہ پڑوسی ملک کی مووی ہے، جس میں پولیس کے مسائل ،ان کے اختیارات اور پھر ہیپی اینڈنگ میں پولیس کی ہر جگہ فتح دکھائی ہے۔۔ اسی مووی میں ایک جگہ جب ایک وزیر سنگہم کو کسی معاملے سے دور رہنے کاحکم دیتا ہے تو سنگہم اپنی وردی اور بیلٹ اتار کر وزیرکے ہاتھ میں پکڑادیتا ہے ،پھر پینٹ اور بنیان میں روڈ پر نکل جاتا ہے، اس کے بعد پورے شہر کی پولیس کام چھوڑ کر یہی کرنے لگ جاتی ہے۔۔ سندھ پولیس نے بھی ایسا ہی کیا۔۔ کیپٹن صفدر کے خلاف مقدمے کے معاملے پر اچانک ہی سندھ پولیس کی ’’غیرت‘‘ جاگ گئی اور آئی جی سے لے کر ہیڈمحرر تک سب چھٹیوں کی درخواستیں جمع کرانے لگے۔۔مگر پھر اچانک ایک فون چلاگیا، جس کے بعد سب کے تعزیئے ٹھنڈے ہوگئے، اور سب پرانی تنخواہوں پر ہی کام کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔۔ سندھ پولیس نے چونکہ سنگہم بننے کی کوشش کی اس لیے ہم اب سندھ پولیس کو ’’سندھم پولیس‘‘ کہہ سکتے ہیں۔۔
یہ بات تو روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارے ملک میں انصاف ناپید ہے، غریب کے لیے ناممکن ہے کہ اسے انصاف مل سکے، اس لیے جب کسی غریب کو تسلی کرائی کہ اسے انصاف ضرور ملے گاتو وہ انصاف پر ’’لاف‘‘(ہنستا) ضرور کرتا ہے، ہنسی والا’’ لاف ‘‘ اپنی جگہ اکثر ٹوٹے دل والے اور انصاف سے ناامید تو انصاف پر ’’لام‘‘ بھی بھیج دیتے ہیں۔۔مرحوم سلطان راہی جب بھی اپنی فلموں میں انصاف و قانون کے خلاف علم بغاوت بلند کرتا تھا تو غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے فلم بینوں کا جوش و جذبہ دیکھنے لائق ہوتا تھا، سیٹیاں، تالیاں اور بڑھکیں ماری جاتی تھیں جس سے پورا سینما ہال گونج اٹھتا تھا، ہمیں یاد ہے ایک فلم میں سلطان راہی سوال اٹھاتا ہے کہ عدالتیں شام کو اور رات کو کیوں انصاف فراہم نہیں کرتیں؟؟ آج بھی اگر چیف جسٹس پاکستان اس سوال پر سنجیدگی سے غور کریں تو التوا کا شکار لاکھوں مقدمے خوش اسلوبی سے اپنے انجام کو پہنچ سکتے ہیں، عدالتوں میں تین شفٹیں لگائی جائیں، اور دھڑادھڑمقدمے نمٹائے جائیں۔۔ جب چیف جسٹس پاکستان اتوار کے روز عدالت لگاسکتے ہیں تو شام اور رات کی عدالتیں بھی لگانا کچھ ایسا ناممکن نہیں، ہماری تجویز ہے کہ اگر عدالتیں تین شفٹوں میں کام کرنا شروع کردیں تو راتوں رات اس معاشرے کی قسمت بدل سکتی ہے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے، کوئی بھی معاشرہ کفر کے ساتھ تو برقرار رہ سکتے ہے ،ناانصافی کے ساتھ نہیں۔۔
ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے۔۔اگر ایک عدالت کے ’’مجرم‘‘ دوسری عدالت میں ’’محترم‘‘ قرار پارہے ہیں تو سمجھ لںی ہمارا عدالتی نظام کتنا شفاف اور انصاف پر مبنی ہے۔۔۔یہاں تو یہ حالت ہے کہ عزیر بلوچ کیس کا کچھ پتہ نہیں، عابد باکسر پر کئی کیسز ہیں وہ آزاد گھوم رہا ہے،اربوں روپے کی کرپشن میں ملوث ڈاکٹر عاصم کے کئی کیسوں کا کوئی فیصلہ اب تک نہیں ہوسکا، شرجیل میمن کیس کا رزلٹ بھی صفر، ریمنڈ ڈیوس کو بھلا کون بھول سکتا ہے،بلوچستان اسمبلی کے ایک رکن نے آن ڈیوٹی پولیس اہلکار کو گاڑی تلے روندا،پھروہ باعزت بری ہوگیا،ماڈل ایان علی ڈالروں کی اسمگلنگ کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑی گئی، تفتیش کرنے والا افسر قتل ہوگیا، محترمہ پچھلے دو سال سے کسی پیشی پر عدالت ہی نہیں آئیں،ضمانت پر رہاہیں۔۔کراچی والے سانحہ بارہ مئی کو آج تک بھلا نہ پائے،جس میں پچاس سے زائد معصوم جانیں قتل ہوئیں لیکن برسوں بعد بھی یہ مقدمہ توجہ کا طالب ہے۔۔ اسحاق ڈار رزلٹ صفر۔۔نیو بینظیر ائیر پورٹ کرپشن کیس رزلٹ صفر۔۔رئیسانی حرام کمائی گھر سے برآمد رزلٹ صفر۔۔ایم کیو ایم غداری کیس ثبوت موجود رزلٹ صفر۔۔اصغر خان کیس رزلٹ صفر۔۔شہد کی بوتل رزلٹ صفر۔۔لاہور کا سانحہ ماڈل ٹاؤن،رزلٹ صفر۔۔شاہ رخ جتوئی کیس رزلٹ صفر۔۔راؤ انوار ناحق قتلِ عام ثبوت موجود رزلٹ صفر۔۔56 کمپنی ا سکینڈل رزلٹ صفر۔۔صاف پانی کرپشن کیس رزلٹ صفر۔۔سستی روٹی تندور کرپشن رزلٹ صفر۔۔کلبھوشن یادیو دشمن جاسوس رزلٹ صفر۔۔گستاخ بلاگرز کیس آزاد رزلٹ صفر۔۔حسین حقانی کیس رزلٹ صفر۔۔یہ تو چند موٹے موٹے کیسز تھے جو یادآگئے تو بتادیا، نجانے ان جیسے ہزاروں کیس امیروں، وڈیروں، جاگیرداروں اور بزنس مینوں کے کیسز کے رزلٹ صفرہی ہیں۔۔مگر غریب آدمی کے لیے قانون فرعون بن جاتا ہے۔۔انصاف نہیں ملتا۔۔ہزاروں بے گناہ قید میں اور گناہ گار آزادگھوم رہے ہیں۔۔یہاں کوئی غریب آدمی’’ ادارے ‘‘پر تنقید کر لے تو غداری میں دھر لیا جاتا ہے مگر نوازشریف،الطاف بھائی آزاد، زرداری اینٹ سے اینٹ بجائے آزاد، پرویز رشید آزاد، حسین حقانی آزاد، اسفند یار ولی آزاد، محمود خان اچکزئی آزاد، سپریم کورٹ پر حملہ کرنے والے آزاد، تھانوں پر حملہ کر کے اپنے بندے چھڑانے والے آزاد، ناکے پر کھڑے پولیس اہلکاروں پر شراب کے نشے میں دھت گاڑیاں چڑھانے والے آزاد۔۔ہمارے پیارے دوست کاکہنا ہے۔۔اس ملک میں ایسا قانون ہے،جس میں بڑے پھنستے نہیں، اور چھوٹے بچتے نہیں۔۔
دنیا بھر کے سیاست دان تو لمبی لمبی تقریروں سے بورکرتے ہیں لیکن ہمارے سیاست دان یہی کام چھوٹی چھوٹی تقریروں سے بھی کرلیتے ہیں،اور تقریریں بھی ایسی کہ اس بار گوجرانوالہ میں اپنے فیوریٹ لیڈر کی ایسی تقریر سنی جو کسی نیوزچینل نے دکھانے کی ہمت نہیں کی، سوشل میڈیا پر تقریر بغور سننے کے بعد بھی بڑی شرمندگی ہوئی کیونکہ ہمیں تقریر سمجھ ہی نہ آئی‘ جب اس تقریر کے چرچے سوشل میڈیا پر سنے تو ہمت کرکے پھر وہی تقریر سنی تو پھر شرمندگی ہوئی کیونکہ اس بار تقریر سمجھ آگئی تھی۔۔ بات ہورہی تھی، پولیس کی۔۔دیہاتی گندم کی بوریاں شہر پہنچا کر اپنی ٹریکٹر ٹرالی پر گاؤں واپس جا رہا تھا کہ راستہ میں تھانیدار اپنی نفری کے ساتھ ناکا لگائے کھڑا تھا۔ دیہاتی سے کاغذات طلب کیے گئے مگر نہ تھے۔ وہ منت سماجت پر اتر آیا۔ تھانیدار نے کہا کوئی ایسا شخص ہے جسے تم بھی جانتے ہو اور میں بھی پھر تم جا سکتے ہو۔ دیہاتی پریشان ہو کر بیٹھ گیا کہ گاؤں سے اتنی دور میں ایسا شخص کہاں سے لاؤں۔تھوڑی دیر بعد ایک سپاہی اس کے قریب آیا اور آہستگی سے بولا ۔۔قائد اعظم کو تم بھی جانتے ہو اور تھانیدار بھی تو اپنی جیب سے قائد اعظم کی فوٹو والا نوٹ نکال اور اپنی جان چھڑا۔۔
اوراب چلتے چلتے آخری بات۔۔جو لوگ ہمیں نہیں جانتے، ان کی نظر میں ہم عام ہیں۔جو ہم سے حسد رکھتے ہیں، ان کی نظر میں ہم مغرور ہیں۔ جو ہمیں سمجھتے ہیں، ان کی نظر میں ہم اچھے ہیں۔ جو ہم سے محبت کرتے ہیں، ان کی نظر میں ہم خاص ہیں۔ جو ہم سے دشمنی رکھتے ہیں، ان کی نظر میں ہم بْرے ہیں۔ہر شخص کا اپنا ایک الگ نظریہ اور دیکھنے کا طریقہ ہے۔ لہذا دوسروں کی نظر میں اچھا بننے کے پیچھے، اپنے آپ کو مت تھکائیے۔اللہ آپ سے راضی ہو جائے، یہی آپ کے لیے کافی ہے۔ لوگوں کو راضی کرنا ایسا مقصد ہے، جو کبھی پورا نہیں ہو سکتا۔اللّہ کو راضی کرنا ایسا مقصد ہے، جس کو چھوڑا نہیں جا سکتا۔تو جو چیز مل نہیں سکتی، اس ے چھوڑ کر وہ چیز پکڑیئے ۔۔جسے چھوڑا نہیں جا سکتا۔۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔