وجود

... loading ...

وجود

لارنس آف عربیا, پتھروں کی اسمگلنگ میں گرفتاری و رہائی

جمعرات 22 اکتوبر 2020 لارنس آف عربیا, پتھروں کی اسمگلنگ میں گرفتاری و رہائی

قسط نمبر:3

ہنستے ہنستے بڑے سے بڑے کام کرڈالنے والایہ نوجوان نہایت نڈروبے باک تھا،مگرسفاکی اس سے کوسوں دورتھی

دن کا کام جب ختم ہو جاتا تو وہ دیہات میں جا پہنچتا۔ دیہاتیوں کی طرح زمین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھتا۔ ان سے باتیں کرتا۔ دیہاتی زندگی کی گپ شپ اور ہنسی مذاق میں برابر کا شریک رہتا۔ ان لوگوں نے یہ معلوم کر لیا کہ وہ خوف کھانا جانتا ہی نہیں۔ انھیں حیرت تھی کہ اس کا چھوٹا سا جسم کتنا طاقتور ہے اپنے سادے سیدھے اور بے تکلف انداز میں وہ اس کو چاہنے بھی لگے تھے کیونکہ وہ ہر قسم کی بے رحمی اور سفاکی سے قطعاً نا آشنا تھا۔

وہ عموماً متین صورت نظر آتا لیکن اس کی ہنسی یا مسکراہٹ ایسا خوشگوار واقعہ ہوئی کہ دوسروں کو لا محالہ اس میں شریک ہونا پڑتا۔ قدیم زبانوں کی ہڈیاں کھودنے پر بھی اس میں حسِ ظرافت پائی جاتی تھی۔
انھیں کھنڈروں کے قریب جرمن انجینئر بھی کام کرتے تھے۔ وہ بغداد کی ریلوے لائن پر کام کر رہے تھے اور اس وقت ندی پر پل کی تعمیر میں مصروف تھے۔ بعض ملکی باشندوں کے ساتھ جرمنوں کا برتاؤ لارنس کو نا پسند تھا وہ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار بے محابا کر دیتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بعض جرمن کئی طریقوں پر اس سے نفرت کا اظہار کرنے لگے۔ لیکن لارنس نے ان کے جذبات نفرت کا کوئی اثر نہیں لیا اور کھنڈروں سے نکلے ہوئے پتھروں اور ملبوں کو سڑک کی تعمیر کے لیے لانے کی انھیں اجازت دے دی۔
ایک دن وہ اور اس کا اثری آرکیالوجسٹ دوست دولی اپنے چھوٹے سے گھر میں بیٹھے تھے کہ ان کا دیسی ملازم گھبرایا ہوا آیا اور کہنے لگا۔
سرکار! پولیس آپ کو پکڑنا چاہتی ہے۔

ترکی پولیس کا لحیم شحیم سپاہی بڑے طمطراق اور پورے اقتدار کے ساتھ اندر آ پہنچا اور لارنس کے قریب پہنچ کر کہنے لگا۔
قیمتی پتھروں کے چرانے کے جرم میں تم حراست میں ہو۔ تم نے وہ پتھر جرمنوں کو تیس ترک پونڈ میں بیچے ہیں۔
لارنس ہنسنے لگا اور پوچھا۔ چرائے ہیں؟ کیا فضول بکتے ہو یہ پتھر تو صرف ملبے تھے جو میںنے جرمنوں کو سڑک کی تعمیر کے لیے دے ڈالے۔
پولیس کے سپاہی نے کہا۔ اس سے تمہارے جرم کی نوعیت نہیں بدلتی تم کو میرے ساتھ آنا پڑے گا۔ لارنس کو اس نے گرفتار کر لیا۔ دولی راستہ بھر احتجاج کرتا ان دونوں کے ساتھ ہو لیا۔ لارنس اب بھی ہنس رہا تھا کیونکہ یہ بات اسے مضحکہ خیز معلوم ہوئی۔ عدالت پہنچنے پر معلوم ہوا کہ یہ محض مذاق نہ تھا۔ کمرہ عدالت لوگوں سے بھرا ہوا تھا اور ایک سرخ روغصیلا مجسٹریٹ اسی مقدمہ پر کارروائی کرنے کا منتظر تھا۔

فرد جرم پھر سنائی گئی اور جب اس کا ثبوت پیش کیا گیا تو لارنس اور اس کا دوست سمجھ گئے کہ ترک اپنا لفظ لفظ منوانا چاہتے ہیں۔
اغلب تھا کہ لارنس کو جیل خانے بھیج دیا جائے۔ عدالت میں لارنس اور اس کا دوست بحث کرتے رہے لیکن یہ سب بیکار ثابت ہوا۔ لیکن خوش نصیبی سے صفائی پیش کرنے کے لیے انھیں ایک ہفتہ کی مہلت مل گئی۔
دولی نے خالص دفتری زبان میں ان پتھروں کی حقیقت حال لکھی۔ اس نے اس کو بہت ہی معمولی بات سمجھا۔ لیکن دوسرے ہی ہفتہ لارنس دو سپاہیوں کی حراست میں لے جایا گیا اور اسے دوبارہ عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا۔
مجسٹریٹ نے یادداشتیں لے کر رکھ لیں۔ دولی اصرار کرتا رہا کہ یہ یادداشتیں اسے واپس مل جانی چاہیں۔ لیکن مجلس عدالت جب دوپہر کے کھانے کے لیے ملتوی ہوئی تو بوڑھا ترک مجسٹریٹ ان یادداشتوں کو اپنے ساتھ ہی لیتا گیا۔

دولی کو یہاں لارنس سے بات کرنے کا موقع ملا۔ اب انھیں یقین ہو گیا کہ مجسٹریٹ اسے جیل بجھوا دینے پر تلا ہوا ہے۔ دولی کو کاغذات واپس مل جانے چاہیے تھے لیکن نہیں ملے اس لیے اب ان دونوں کو دھاندلی کی سوجھی۔ ترکی میں جیل خانے بڑے گندے، غیر صحت بخش اور کیڑے مکوڑوں سے بھرے ہوئے مقام ہوتے ہیں اور جو لوگ ان میں ٹھونس دئیے جائیں ان کی زندگی ہولناک ہو جاتی ہے۔
عدالت کا اجلاس پھر شروع ہوا۔ کمرہ عدالت میں جو ترک موجود تھے ان کے چہروں پر خوشی کے آثار نمایاں تھے۔ لارنس کے سزایاب ہونے کا انھیں پورا یقین تھا۔ اس بات کو دونوں دوست باآسانی سمجھ سکتے تھے۔ کٹہرے میں کھڑے کھڑے دولی نے لارنس پر ایک نگاہ ڈالی اس نے سر ہلا دیا۔ یہ گویا اشارہ تھا۔
پستول نکالتے ہوئے دولی نے ڈپٹ کر کہا ’’اٹھاؤ ہاتھ۔‘‘
پستول کی رخ مجسٹریٹ کی طرف پھیرتے ہوئے اس نے پھر کہا۔ ’’حرکت نہ ہو ورنہ اڑ ہی جاؤ گے۔‘‘ ترک مجسٹریٹ خوب سمجھا ہوا تھا کہ پستول چھوٹ جائے تو نشانہ کبھی خطا نہیں کر سکتا۔

کمرۂ عدالت میں ہر شخص نے ہاتھ اوپر اٹھا لیے۔ برا فروختہ انگریز (دولی) کی للکار نے سب کو کافی بد حواس کر دیا تھا۔ دولی اپنا پستول ہر طرف گھما رہا تھا جس سے معلوم ہوتا تھا کہ ان میں سے ہر ایک بیک وقت اس کا نشانہ بن سکتا ہے۔
دولی کا للکارنا ہی تھا کہ لارنس کٹہرے سے باہر کودا اور عدالت کے عقب میں مجسٹریٹ کے کمرہ میں سے ہوتا ہوا بھاگا۔ کسی کو خیال تک نہ آیا کہ لارنس کر کیا رہا ہے سب کی نگاہیں دولی اور اس کے پستول پر لگی ہوئی تھیں۔
لوگوں کی بھیڑ میں سے بھاگتے ہوئے لارنس ہنستا جاتا تھا۔ یہ بات ایک معرکہ سے مشابہ معلوم ہوتی تھی۔ چوروں کی اس جماعت پر لارنس اور دولی یہ ثابت کر دینا چاہتے تھے کہ کسی انگریز پر اس قسم کی کارروائی سے وہ عہدہ بر آ نہیں ہو سکتے۔
چند ہی لمحوں بعد وہ ہاتھ میں کاغذات ہلاتے ہوئے پھر آن موجود ہوا اور کہا:
’’یہ ہیں میرے پاس کاغذات۔‘‘
دولی نے اس کو دروازہ کے قریب آنے کا اشارہ کیا اور خود بھی اس سے وہاں جا ملا۔ کسی کو ہمت نہ ہوئی کہ کمرۂ عدالت سے انھیں برآمدے میں نکلنے سے روک لے۔
قد آور دولی دھمکی کے طور پر پستول ہر طرف گھما رہا تھا وہ کافی خطرناک معلوم ہوتا تھا اوراس کا پستہ قد دوست بھی لڑائی کے لیے تیار تھا لیکن ترک بالکل خاموش تھے۔
دونوں دوست گلیارے کی طرف واپس ہوئے۔ مرعوب و مجبور ترک غضب ناک ہو ہو کر مجرم کو اپنے کیمپ کی طرف آزاد انسان کی حیثیت سے جاتا ہوا دیکھ رہے تھے۔
اس قضیہ کے متعلق پھر کوئی خبر نہیںملی۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ انھیں یقین ہو گیا ہو گا کہ یہ انگریز نژاد نوجوان صرف مٹی کھودنے ہی کے اہل نہ تھے بلکہ سپاہی بھی تھے۔

1913ء میں میجر یونگ (جواب میجر سر ہر برٹ یونگ کے سی ایم جی ڈی، ایس، او۔ گورنر شمالی رڈیشا ہیں) ان کھنڈروں کے معائنہ کے لیے آئے۔ گرمیوں میں کام بند کر دیا گیا تھا، البتہ ایک خاموش پستہ قد نوجوان انھیں ملا جو اکیلا یہاں رہتا تھا۔ اس کا نام لارنس تھا۔
لارنس نے میجر اور ان کے دوست کو پہاڑی کی سیر کرائی۔ اس نے جو تفصیل کہنی شروع کی تو میجراور ان کے دوست اتنے منہمک ہو گئے کہ ریل کا وقت گزر گیا۔ دن بھر میںیہی ایک ریل تھی جو انھیں مل سکتی تھی۔ لارنس نے ان کے رات بسر کرنے کا انتظام کیا۔ دوسرے دن میجر یونگ کا دوست تو روانہ ہو گیا لیکن خود میجر کئی دنوں تک ٹھہرے رہے۔
کھانا ان برتنوں میں اور پیالیوں میں پیش کیا جاتا جو صدیوں تک زمین میں دفن رہ چکے تھے۔ میجر یونگ کو یہ جان کر بڑیخوشی ہوئی کہ جن پیالیوں میں وہ قہوہ پی رہے ہیں انھیں تقریباً چار ہزار سال پیشتر ہٹیوں نے برتا تھا۔
ایک دفعہ میجر، لارنس کے ہمراہ قریب دیہات میں گئے۔ انھوں نے فوراً معلوم کر لیا کہ ان کا دوست دیسی باشندوں میں کتنا گھل مل گیا ہے۔ گاؤں والوں نے اس کو خوش آمدید کہا۔ لارنس ان کے ساتھ زمین پر بیٹھ گیا اور اس بے تکلفی اور صفائی سے بات چیت کرتا رہا کہ اس کو انگریز سمجھنا دشوار ہو گیا وہ یہیں اس کا متوطن جان پڑتا تھا۔
میجر یہ دیکھ کر سخت متحیر ہوئے۔ لارنس اثریات سے انتہائی شغف رکھنے کے باوجود ظریف الطبع بھی تھا۔
(جاری ہے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر