... loading ...
قسط نمبر؛2
علم کی پیاس نوجوان کوعام راستوں سے دوردوربھٹکاتی رہی ، وہ ان کھنڈروں تک بھی جاپہنچاجسے بہت کم لوگ جانتے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علم کی پیاس اسے عام راستوں سے دور دور بھٹکا دیتی تھی۔ اس سال موسم بہار میں چار مہینے تک وہ اسی سر زمین پر گھومتا پھرا۔ وہ فسلطین سے نکل کر قدیم اڈیسہ تک پہنچ گیا جسے کا آج کل عرفہ بھی کہتے ہیں۔
وہ تفصیل سے اس ملک کا معائنہ کر چکا جس کو مسیحی مجاہدوں نے لازوال شہرت بخشی۔ مجاہدوں کی یہ فوج فرماں رواؤں، خانہ بدوشوں سپاہیوں اور دیہاتیوں کی مختلف العناصر جماعتوں پر مشتمل تھی جو اپنے اپنے ملک سے نکل کر ایشیاء کی پرا سرار اور بیگانہ سر زمین میں گھس آئے تھے۔
دنیائے مسیحیت اور مسلمانوں میں یہ لڑایاں مسلسل تین سو سال تک جاری رہیں۔ مسیحی مجاہدوں نے قلعے تعمیر کیے لیکن وہ ہتھیا لیے گئے۔ شام اور فلسطین کے ان شہروں اور قلعوں کے آگے عرب اور مسیحی مجاہد مصر کے سلاطین، مغل شہنشاہ اور شاہاں فارس، سبھی اپنے اپنے وقت پر گزر گئے اور جب نوجوان لارنس نے تاریخ کے مطالعہ کی خاطر اتنی زیادہ روندی ہوئی زمین کے پتھر اکھیڑ نے شروع کیے تو گویا وہ خود اپنے نام آوری کا طویل سفر کر چکا تھا۔
لارنس جس وقت شام کا دورہ کر رہا تھا۔ وہ ملک تقریباً پانچ سو سال سے ترکوں کے زیر تسلط تھا جہاں کبھی مسیحی مجاہدوں کی صلیب فخر سے فضا میں لہراتی تھی وہاں آج ہلال کی حکمرانی تھی۔ شاہراہوں کو چھوڑ کر لارنس پرانے زمانے کے زائرین کے بھولے بسرے اور تنگ راستوں پر ہو لیا۔
Sahyoun سینون کے قلعہ پر چڑھ کر وہ چٹان کی چوٹی تک جا پہنچا۔ Antioch انٹی ادک میں اس نے سینٹ پال کے زمانے کے ویرانے دیکھے، کہیں کہیں اس کو اس زبردست دیوار کے محل وقوع کا پتہ لگا جو اس زمانہ میں شہر کو احاطہ کیے ہوئے تھی اور جس پر چار گھوڑے پہلو بہ پہلو دوڑائے جا سکتے تھے۔ برچھیوں کی لڑائی اسی انٹی اوک کے باہر لڑی گئی تھی۔ سرفروش مسیحیوں نے جب دیکھا کہ شکست کھانا ان کے لیے موت کا پیام ہے۔ تو انھوں نے سواروں کی ایک فوج بنائی جو گھوڑوں سے خالی تھی۔ نیزے بازوں کی ایک فوج تھی جن کے پاس نیزے نہ تھے۔ تیغ زن ایسے تھے جن کے پاس تلواریں ہی نہ تھیں۔ عورتیں تک مسلح ہو کر میدان میں آئیں سب نے مسیح کی عزت کے لیے جہاد کیا۔ غیر مسلح مجاہد اپنے دشمنوں سے ہتھیار چھینتے جاتے اور انھی سے ان کا قلع قمع کر دیتے تھے۔ قریب المرگ مسیحی اپنی تلواریں اور برچھیاں پیدل لڑنے والوں کو دیتے جاتے تھے۔ مسیحیوں کا محاذ جنگ مضبوط رہا اور آخر کار ایک زبردست فتح نصیب ہوئی۔
سوال ہو سکتا ہے کہ زمانہ حال کا نوجوان مجاہد ان عظیم الشان ویرانوں کو کس حد تک از سر نو تعمیر کر سکتا تھا۔ اس نے رچرڈ شیر دل کی لڑائیاں پھر سے لڑی ہیں۔ اس نے مسلمانوں اور عیسائیوں کے قلعوں کے وہ کھنڈر دیکھے جو صحرا کی ریت میں دھنس گئے تھے اور جن کا نام ہی نام باقی تھا۔ تہذیب اور شائستگی کے طور طریق کو بھول کر وہ بدوؤں میں گھل مل گیا اس نے ان کا ’’نمک کھایا‘‘ (کوئی بدوی کسی ایسے شخص کو ہرگز نقصان نہیں پہنچاتا جو اس کا نمک کھا چکا ہو یعنی اس کی مہمان نوازی کا حصہ دار بن چکا ہو۔)
کوئی نودار دا گر صحرا میں تن تنہا سفر کرے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ نہ صرف اس کی املاک خطرہ میں ہے بلکہ خود اس کی جان جوکھم میں ہے۔ لیکن نوجوان لارنس نے ان جوکھوں میں پڑنا قبول کیا۔ وہ ایک بے آب، جھلسے ہوئے اور سخت گیر ملک کا چکر لگاتا اوڈیسہ کے قدیم محل وقوع تک جا پہنچا۔
اس کے سفر کا آخری حصہ دریائے فرات کے پیچ و خم کے ساتھ ساتھ طے ہوا۔ اس سفر میں اسے پتہ لگا کہ اوڈیسہ کے قدیم گرجے مسجدوں یں تبدیل کر دئیے گئے ہیں، مسیحی مجاہدوں کے قلعے اور مینار جوں کے توں باقی ہیں جن میں عرب اپنے کتوں بکریوں اور بچوں سمیت رہتے بستے ہیں، بڑے بڑے احاطے معہ اپنی چار دیواریوں کے جوں کے توں باقی ہیں جن میں اونٹ اور بھیڑیں بھر دی گئی ہیں۔
بہت کم لوگ ہوں گے جو ان کھنڈروں کو جانتے ہوں۔ جانتے بھی ہوں تو ان کے لیے ان میں کوئی دلچسپی نہیں۔ چوروں نے ان کو اپنا رہن بنا لیا تھا۔ عرب کے خانہ بدوش یہاں شب گزاری کرتے اور آگے نکل جاتے۔ ان مقامات کو لارنس آزادانہ دار دیکھتا پھرتا۔ چٹانوں کے کھوؤں میں اس نے تاک جھانک جو شروع کی ہے تو بڑی بڑی چھپکلیاں تک چونک پڑیں جو دھوپ کھانے کے لیے باہر نکل آتی تھیں اور اس عجیب و غریب مخلوق کو اپنے کھوؤں میں سر ڈالتا دیکھ کر روپوش ہو جاتی تھیں۔ ممکن ہے ان بھولے بسرے ملکوں اور اس سے زیادہ ان ملکوں کی بھولی بسری فوجوں اور قلعوں کی تحقیق کا محرک خالص علم کی تلاش کے سوا کچھ اور رہا ہو۔ لارنس کے خاندان کا سرد الڑ رالے سے بھی تعلق تھا اور اس خاندان کی آئندہ نسلوں کو سروالڑ کی دلیری اور الواعزمی ورثہ میں ملی تھی، محرک خواہ کچھ ہو وہ اس ملک کے متعلق مزید معلومات حاصل کرنا چاہتا تھا۔
کیا وہ کسی غیبی مشیت کو پورا کر رہا تھا۔ یا اسے قدیم مسیحی مجاہدوں کی طرح آسمان میں کوئی نشانی نظر آئی تھی؟ان مشاہدات سے اثر پذیر ہو کر لارنس لوٹ آیا اور ایسا لاجواب مضمون لکھا کہ چار سال کے لیے اس کو وظیفہ عطا کیا گیا۔ اکیس سال کے طالب علم کے لیے یہ بہت بڑا اعزاز تھا۔ اس نے یہ چار سال مصر، فلسطین اور شام کی سیاحت میں بسر کیے۔ ان ملکوں میں صحرا کی ریت کے تودوں اور چٹانوں میں دبے ہوئے قدیم تمدن کی کھدائی شروع ہو چکی تھی۔ وہ ماہرین فن جو اس کام میں زیادہ تر عمر رسیدہ اور تجربہ کار لوگوں پر بھروسہ کرتے تھے، لارنس کے خود اپنے طور پر کیے ہوئے کام کو نظر انداز نہ کر سکے اور اس کی اعانت و امداد کا بڑی خوشی سے خیر مقدم کیا۔ یہاں پر برٹش میوزیم کی طرف سے منظم طریق پر کھدائیوں کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔ اس توقع پر کہ شاید قدیم دارالخلافہ ہیٹی کے بعض عجائبات ہاتھ لگ جائیں۔ در حقیقت یہ ریت کا بہت بڑا ٹیلہ تھا جو کئی صدیوں میں جا کر اتنا اونچا ہو گیا تھا کہ عمارتوں کے نشانات تک نظروں سے چھپ گئے تھے۔ چالیس سال پیشتر ایک بھولے بھٹکے مسافر نے ان عجیب و غریب چٹانوں اور دیواروں کی نشان دہی کی تھی جو کسی انہدام کے سبب نمایاں ہو گئی تھیں۔ اس وقت میوزیم کے ڈائریکٹروں نے اس ٹیلہ کو اس حد تک کھودنے کا ارادہ کر لیا تھا جب تک کہ ریت کا پہاڑ اپنے سارے راز منکشف نہ کر دے۔
اس کام میں نوجوان لارنس کی کی اعانت کا قبول کیا جانا اس کے لیے باعث فخر تھا اور از منہ قدیم کے آثارکی تحقیق میں خود اس کے لیے دلچسپی تھی۔ اس نے تن دہی اور ذہانت سیبڑے بوڑھوں تک کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔
1910-11ء میں سرما کا موسم تھا۔ اس مقام پر چند ہی لوگ جنھیں تاریخ قدیم سے شغف تھا ،کھنڈروں کی جانچ پڑتال کا کام جاری رکھے ہوئے تھے۔ جو نووار بھی وہاں جا پہنچے اپنے دوست احباب کو لکھتے کہ ہم نے ایک نوجوان کو دیکھا جس کا نام لارنس ہے ایک دوسرے نوجوان طالب علم نے جو لارنس کے ساتھ کام کرتا تھا اپنے تجربات کا کچھ حال بتایا ہے۔ وہ خود کو اور اپنے دوستوں کو ’’انوکھے کار آموز‘‘ کے نام سے یاد کرتا ہے۔
کچھ ہی عرصہ بعد عرب اور کردحتیٰ کہ ترک بھی وہیں یا انھی کھنڈروں کے آس پاس کام میں لگے ہوئے تھے۔ اس خاموش خرد سال انگریز کی طرف ملتفت ہونے لگے۔ وہ اس کا ذکر بڑی حیرت سے کرتے۔ وہ ان کے طور طریقوں سے بیگانہ نہ تھا اور ان کی زبانوں میں رک رک کر مگر صحیح طور پر بات چیت کر سکتا تھا۔
(جاری ہے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔