وجود

... loading ...

وجود

اپوزیشن الیون کے اصل سیاسی اہداف؟

جمعرات 22 اکتوبر 2020 اپوزیشن الیون کے اصل سیاسی اہداف؟

سوال یہ ہے کہ کیا پی ڈی ایم کے کراچی میں ہونے والی جلسے سے وزیراعظم پاکستان عمران خان کی سیاسی مشکلات بڑھ جائیں گی ؟سب سے پہلے تو یہ جان لیجیے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کے لیے سب سے زیادہ اطمینان اور خوش بختی کی با ت ہی یہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ المعروف پی ڈی ایم کے بنیادی مقاصد میں تحریک انصاف کی حکومت گرانا سرے سے ہے ہی نہیں ۔یہ رائے کسی’’سیاسی دیوانے ‘‘کی سازشی تھیوری یاغلط فہمی کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک مسلمہ سیاسی حقیقت ہے۔ کیونکہ ہمیں بھی یقین کامل ہے کہ اگر پی ڈی ایم عمران خان کو اقتدار کے ایوان سے بے دخل کرنا چاہے تو اُس کے لیے یہ فقط چند گھنٹو ں کا ’’پارلیمانی کھیل ‘‘ہو گا اور تحریک انصاف کی حکومت ہوا میں ایسے تحلیل ہوجائے گی ، جیسے یہ کبھی تھی ہی نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس آسان ہدف کو حاصل کرنے کے لیے اپوزیشن رہنماؤں کو صرف اپنے استعفے اسپیکر قومی اسمبلی کے روبرو ہوکر پیش کرنا ہوں گے اور اگلے ہی لمحے عمران خان ،وزیراعظم کے آئینی منصب سے از خود ہی سبکدوش سمجھ لیے جائیں گے۔ یعنی اپوزیشن جماعتوں کے نزدیک حکومت گرانا ’’بازیچہ اطفال‘‘ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ مگر حکومت گرانے کا ’’سیاسی صراط مستقیم ‘‘نظر کے عین سامنے ہونے کے باوجود بھی اپوزیشن رہنماؤں نے تحریک انصاف کی حکومت گرانے کے لیے ’’سیاسی پل صراط ‘‘ کا مشکل، مہنگا اور خطرناک انتخاب اس لیے کیا ہے کہ اپوزیشن کا اصل نشانا وزیراعظم پاکستان عمران خان کے بجائے ریاست پاکستان کی سالمیت ہے۔یوں سمجھ لیجیے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سب سے زیادہ طاقت ور ہونے کا منفرد’’ سیاسی اعزاز‘‘ رکھنے والی اپوزیشن کے ’’مذموم عزائم ‘‘بہت ہی بڑے ہیں ۔شاید اسی لیے اس بار اپوزیشن اتحاد بھی بہت بڑا ہے ، اپوزیشن رہنماؤں کے لگائے جانے والے سیاسی نعرے بھی بہت بڑے ہیں اور اپوزیشن کے مطالبے بھی ضرورت سے کچھ بہت ہی بڑے ہیں ۔ لیکن یاد رہے کہ بڑے مطالبات منوانے اور بڑے عزائم کو من و عن پور کرنے کے لیے ’’سیاسی جلسے‘‘ اور ’’سیاسی قربانیاں ‘‘ بھی بہت ہی بڑی درکار ہیں۔

جہاں تک پی ڈی ایم کے بڑے سیاسی جلسوں کی بات ہے تو یقیناگوجرانوالہ میں ہونے والے اپوزیشن کے سیاسی اجتماع کو ایک بڑا’’سیاسی جلسہ‘‘ قرار دیا جاسکتاہے ،جس نے نہ صرف اپوزیشن رہنماؤں اور ان کے کارکنان کے سیاسی جذبات کو زبردست تقویت بخشی تھی ،بلکہ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر اپوزیشن کی اُبھرتی ہوئی سیاسی طاقت کا رنگ بھی خوب جمادیا تھا ۔ لیکن گوجرانوالہ کے برعکس کراچی میں ہونے والے پی ڈی ایم کے جلسے کو ایک ’’سیاسی جلسی ‘‘ ہی کہا جاسکتا ہے ، جس کانہ کوئی ’’آخری سرا ‘‘تھا اور نہ ہی کوئی’’عوامی پیرایہ‘‘ تھا۔ اپوزیشن اتحاد کے رہنماؤں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ اپوزیشن الیون یعنی پی ڈی ایم کی گیارہ جماعتوں نے مل جل کر بھی کراچی میں جس جلسے کا ’’سیاسی تکلف ‘‘ کیا، اس سے تو کئی گنا بڑا جلسہ چند ہفتے قبل جماعت اسلامی نے ’’حقوق کراچی مارچ ‘‘ کے نام سے تن تنہا ہی کردیا تھا ۔جبکہ کراچی میں ہونے والا پی ڈی ایم کا جلسہ ’’عوامی تاثر ‘‘سے بھی یکسر خالی تھا ۔ کیونکہ اپوزیشن کے اس جلسے سے کراچی کی عوام نے جس طرح سے ’’سیاسی لاتعلقی ‘‘کا اظہار کیا ،اُسے دیکھ کر تو ایسے محسوس ہورہا تھاکہ جیسے اپوزیشن اتحاد کی جماعتیں کراچی میں وفاقی حکومت کے خلاف احتجاجی جلسہ کرنے نہیں بلکہ کراچی پر ’’سیاسی حملہ‘‘ کرنے کے لیے وارد ہوئی ہیں۔اہلیان کراچی کے لیے سب سے زیادہ مایوس کن بات تو یہ تھی کہ اپوزیشن کے کسی ایک بھی رہنما نے بھی کراچی کے مسائل پر دو لفظ بولنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی ، اور یہ کرپشن زدہ رہنما شہرِ کراچی کے مسائل اُجاگر کرنے کی کوشش کرتے بھی آخر کیسے ؟ جب کہ کراچی کو مسائلستان بنانے والی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی اُن کی میزبانی فرمارہی تھی۔مرے کو مارے شاہِ مدار کے مصداق اُلٹا کیلیبری فونٹ سے جعل سازی کی لازوال شہرت دوام حاصل کرنے والی نام نہاد مادرِ جمہوریت نے مزار قائد کے تقدس کو اپنی کرپشن زدہ سیاست سے پامال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔

واضح رہے کہ مزارِ قائد کے ساتھ کراچی کے باسی ایک خاص عقیدت اور عشق رکھتے ہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ کراچی میں کتنے بھی بد سے بدتر سیاسی حالات رہے ہوں لیکن آج تک کسی سیاسی جماعت تو ایک طرف،کسی لسانی جماعت نے بھی قائداعظم کے مزار کو اپنی سیاست سے آلودہ کرنے کی بہیمانہ کوشش نہیں کی تھی۔ مگر افسوس صد افسوس اپوزیشن الیون اور خاندان آلِ شریف کی دست برد سے مزار قائد کا تقدس اور احترام بھی محفوظ نہ رہ سکا۔ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی اس نام نہاد سیاسی جراتِ رندانہ اور جاہلانہ سیاسی دست درازی سے اندازہ لگا یا جاسکتاہے کہ اس سیاسی اتحاد میں شامل سیاسی رہنما ریاست ِ پاکستان کی سالمیت کے خلاف کس طرح کے معاندانہ سیاسی عزائم اپنے قلوب میں چھپائے بیٹھے ہیں۔اچھی طرح سے ذہن نشین رہے کہ پی ڈی ایم میں شامل تما م اپوزیشن رہنما، وزیراعظم پاکستان عمران خان کی نفرت میں جو کچھ کر رہے ہیں یا مستقبل میں کرگزرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ،اُسے سیاست ہرگز نہیں قرار دیا جاسکتا۔ کیونکہ سیاست تو حکومت اور اقتدار کے لیے کی جانے والی بے ضرر سی ایک ’’سیاسی رسہ کشی ‘‘ کا نام ہے ۔جس میں حکومت ہو یا اپوزیشن دونوں کے پیش ِ نظر اقتدار کی کرسی کا حصول ہوتا ہے ۔مگر یہاں تو اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم سیاست کے نام پر ریاستی اداروں کے خلاف جس قسم کا ’’سیاہ کھیل ‘‘رچانا چاہ رہاہے ، یہ کھیل اگر اپنے منطقی انجام تک پہنچتا ہے تو پھر غالب امکان یہ ہی ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کی سیاسی مشکلات بڑھنے کے بجائے ،اُلٹا کم ہوجائیں گی جبکہ اپوزیشن اتحاد میں شامل رہنماؤں کی سیاسی مشکلات اس قدر بڑھ جائیں گی کہ سوچ ہے آپ کی اور ہماری۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر