... loading ...
سوال یہ ہے کہ کیا پی ڈی ایم کے کراچی میں ہونے والی جلسے سے وزیراعظم پاکستان عمران خان کی سیاسی مشکلات بڑھ جائیں گی ؟سب سے پہلے تو یہ جان لیجیے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کے لیے سب سے زیادہ اطمینان اور خوش بختی کی با ت ہی یہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ المعروف پی ڈی ایم کے بنیادی مقاصد میں تحریک انصاف کی حکومت گرانا سرے سے ہے ہی نہیں ۔یہ رائے کسی’’سیاسی دیوانے ‘‘کی سازشی تھیوری یاغلط فہمی کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک مسلمہ سیاسی حقیقت ہے۔ کیونکہ ہمیں بھی یقین کامل ہے کہ اگر پی ڈی ایم عمران خان کو اقتدار کے ایوان سے بے دخل کرنا چاہے تو اُس کے لیے یہ فقط چند گھنٹو ں کا ’’پارلیمانی کھیل ‘‘ہو گا اور تحریک انصاف کی حکومت ہوا میں ایسے تحلیل ہوجائے گی ، جیسے یہ کبھی تھی ہی نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس آسان ہدف کو حاصل کرنے کے لیے اپوزیشن رہنماؤں کو صرف اپنے استعفے اسپیکر قومی اسمبلی کے روبرو ہوکر پیش کرنا ہوں گے اور اگلے ہی لمحے عمران خان ،وزیراعظم کے آئینی منصب سے از خود ہی سبکدوش سمجھ لیے جائیں گے۔ یعنی اپوزیشن جماعتوں کے نزدیک حکومت گرانا ’’بازیچہ اطفال‘‘ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ مگر حکومت گرانے کا ’’سیاسی صراط مستقیم ‘‘نظر کے عین سامنے ہونے کے باوجود بھی اپوزیشن رہنماؤں نے تحریک انصاف کی حکومت گرانے کے لیے ’’سیاسی پل صراط ‘‘ کا مشکل، مہنگا اور خطرناک انتخاب اس لیے کیا ہے کہ اپوزیشن کا اصل نشانا وزیراعظم پاکستان عمران خان کے بجائے ریاست پاکستان کی سالمیت ہے۔یوں سمجھ لیجیے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سب سے زیادہ طاقت ور ہونے کا منفرد’’ سیاسی اعزاز‘‘ رکھنے والی اپوزیشن کے ’’مذموم عزائم ‘‘بہت ہی بڑے ہیں ۔شاید اسی لیے اس بار اپوزیشن اتحاد بھی بہت بڑا ہے ، اپوزیشن رہنماؤں کے لگائے جانے والے سیاسی نعرے بھی بہت بڑے ہیں اور اپوزیشن کے مطالبے بھی ضرورت سے کچھ بہت ہی بڑے ہیں ۔ لیکن یاد رہے کہ بڑے مطالبات منوانے اور بڑے عزائم کو من و عن پور کرنے کے لیے ’’سیاسی جلسے‘‘ اور ’’سیاسی قربانیاں ‘‘ بھی بہت ہی بڑی درکار ہیں۔
جہاں تک پی ڈی ایم کے بڑے سیاسی جلسوں کی بات ہے تو یقیناگوجرانوالہ میں ہونے والے اپوزیشن کے سیاسی اجتماع کو ایک بڑا’’سیاسی جلسہ‘‘ قرار دیا جاسکتاہے ،جس نے نہ صرف اپوزیشن رہنماؤں اور ان کے کارکنان کے سیاسی جذبات کو زبردست تقویت بخشی تھی ،بلکہ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر اپوزیشن کی اُبھرتی ہوئی سیاسی طاقت کا رنگ بھی خوب جمادیا تھا ۔ لیکن گوجرانوالہ کے برعکس کراچی میں ہونے والے پی ڈی ایم کے جلسے کو ایک ’’سیاسی جلسی ‘‘ ہی کہا جاسکتا ہے ، جس کانہ کوئی ’’آخری سرا ‘‘تھا اور نہ ہی کوئی’’عوامی پیرایہ‘‘ تھا۔ اپوزیشن اتحاد کے رہنماؤں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ اپوزیشن الیون یعنی پی ڈی ایم کی گیارہ جماعتوں نے مل جل کر بھی کراچی میں جس جلسے کا ’’سیاسی تکلف ‘‘ کیا، اس سے تو کئی گنا بڑا جلسہ چند ہفتے قبل جماعت اسلامی نے ’’حقوق کراچی مارچ ‘‘ کے نام سے تن تنہا ہی کردیا تھا ۔جبکہ کراچی میں ہونے والا پی ڈی ایم کا جلسہ ’’عوامی تاثر ‘‘سے بھی یکسر خالی تھا ۔ کیونکہ اپوزیشن کے اس جلسے سے کراچی کی عوام نے جس طرح سے ’’سیاسی لاتعلقی ‘‘کا اظہار کیا ،اُسے دیکھ کر تو ایسے محسوس ہورہا تھاکہ جیسے اپوزیشن اتحاد کی جماعتیں کراچی میں وفاقی حکومت کے خلاف احتجاجی جلسہ کرنے نہیں بلکہ کراچی پر ’’سیاسی حملہ‘‘ کرنے کے لیے وارد ہوئی ہیں۔اہلیان کراچی کے لیے سب سے زیادہ مایوس کن بات تو یہ تھی کہ اپوزیشن کے کسی ایک بھی رہنما نے بھی کراچی کے مسائل پر دو لفظ بولنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی ، اور یہ کرپشن زدہ رہنما شہرِ کراچی کے مسائل اُجاگر کرنے کی کوشش کرتے بھی آخر کیسے ؟ جب کہ کراچی کو مسائلستان بنانے والی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی اُن کی میزبانی فرمارہی تھی۔مرے کو مارے شاہِ مدار کے مصداق اُلٹا کیلیبری فونٹ سے جعل سازی کی لازوال شہرت دوام حاصل کرنے والی نام نہاد مادرِ جمہوریت نے مزار قائد کے تقدس کو اپنی کرپشن زدہ سیاست سے پامال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔
واضح رہے کہ مزارِ قائد کے ساتھ کراچی کے باسی ایک خاص عقیدت اور عشق رکھتے ہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ کراچی میں کتنے بھی بد سے بدتر سیاسی حالات رہے ہوں لیکن آج تک کسی سیاسی جماعت تو ایک طرف،کسی لسانی جماعت نے بھی قائداعظم کے مزار کو اپنی سیاست سے آلودہ کرنے کی بہیمانہ کوشش نہیں کی تھی۔ مگر افسوس صد افسوس اپوزیشن الیون اور خاندان آلِ شریف کی دست برد سے مزار قائد کا تقدس اور احترام بھی محفوظ نہ رہ سکا۔ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی اس نام نہاد سیاسی جراتِ رندانہ اور جاہلانہ سیاسی دست درازی سے اندازہ لگا یا جاسکتاہے کہ اس سیاسی اتحاد میں شامل سیاسی رہنما ریاست ِ پاکستان کی سالمیت کے خلاف کس طرح کے معاندانہ سیاسی عزائم اپنے قلوب میں چھپائے بیٹھے ہیں۔اچھی طرح سے ذہن نشین رہے کہ پی ڈی ایم میں شامل تما م اپوزیشن رہنما، وزیراعظم پاکستان عمران خان کی نفرت میں جو کچھ کر رہے ہیں یا مستقبل میں کرگزرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ،اُسے سیاست ہرگز نہیں قرار دیا جاسکتا۔ کیونکہ سیاست تو حکومت اور اقتدار کے لیے کی جانے والی بے ضرر سی ایک ’’سیاسی رسہ کشی ‘‘ کا نام ہے ۔جس میں حکومت ہو یا اپوزیشن دونوں کے پیش ِ نظر اقتدار کی کرسی کا حصول ہوتا ہے ۔مگر یہاں تو اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم سیاست کے نام پر ریاستی اداروں کے خلاف جس قسم کا ’’سیاہ کھیل ‘‘رچانا چاہ رہاہے ، یہ کھیل اگر اپنے منطقی انجام تک پہنچتا ہے تو پھر غالب امکان یہ ہی ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کی سیاسی مشکلات بڑھنے کے بجائے ،اُلٹا کم ہوجائیں گی جبکہ اپوزیشن اتحاد میں شامل رہنماؤں کی سیاسی مشکلات اس قدر بڑھ جائیں گی کہ سوچ ہے آپ کی اور ہماری۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔