وجود

... loading ...

وجود

جا نے کس ر و پ میں خد ا مل جا ئے

جمعرات 22 اکتوبر 2020 جا نے کس ر و پ میں خد ا مل جا ئے

ا س کا پوراجسم پسینے میں شرابور،داڑھی آنسوئوںسے تر تھی وہ آتے جاتے لوگوںکے سامنے ہاتھ جوڑرہاتھاہونٹوںپر کبھی دعا کبھی التجا مچل رہی تھی درجنوں افراداس کی بات سنی ان سنی کرتے جارہے تھے اس کے قدموںمیں ایک نوجوان اپنے ہی خون میں ڈوبا سڑک پر پڑا تڑپ رہا تھا ،یہ نوجوان اس کا ہونہار بیٹا تھا جو اپنے والد کے ساتھ دورکے ایک گائوں سے شہرمیں کسی کام کے لیے آئے ہوئے تھے وہ بس کے انتظارمیں کھڑے تھے کہ کوئی موٹر سائیکل سوار اندھا دھند اس سے ٹکرایا نوجوان اپنی جگہ سے اچھل کر فٹ پاتھ سے ٹکرایا اور خاک و خون میں لوٹ پوٹ ہونے لگا ،وہ بوڑھا اپنے بیٹے کو طبی امداد کے لیے اسپتال لے جانے کے لیے لوگوںکی منتیں کرتا، مضطرب ہوکر کبھی ادھر کبھی ادھر جاتا ،کبھی ڈبڈباتی آنکھوں سے بیٹے کی طرف دیکھتا،چند افراد جائے حادثہ پر بھی موجود تھے شایدہم میں سے بیشتر لوگ’’ تماشا‘‘ دیکھنے کے عادی ہیں دردِ دل رکھنے والے کچھ معاونت بھی کرنا چاہتے تھے لیکن قانونی موشگافیوں، پولیس کے تیزو تند سوالات ،وقت کی کمی یا لاپرواہی ،دوسروںمیں عدم دلچسپی کے باعث مدد کے لیے کوئی آگے نہیں بڑھا،ہرشخص اپنے حال میں مست تھا آخر ایک کار والے کو ترس آہی گیا ،جب اس نے زخمی کو ہسپتال لے جانے کے لیے اٹھانا چاہا تو معلوم ہوا زیادہ خون بہہ جانے کے باعث نوجوان ہر قسم کی طبی امداد سے بے نیاز ہو چکاہے۔باریش دھاڑیں مار مار کررونے لگا اس کے ارد گرد ہجوم اکھٹا ہونے لگا۔

 

با پ بیٹا اپنے کسی ر شتہ دار سے ملنے کوئی دس سال کے بعد شہر آئے تھے علاقہ کی ترقی دیکھ کر ان کی حیرت گم ہوگئی کہاں ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ،کچے پکے مکان،آم،جامن لیموں فالسے کے درخت اور اب کہاں یہ پوش آبادی، چمچاتی کاریں،قد آور پلازے ، رنگ برنگی ایک سے بڑھ کر ایک کوٹھی،سڑکوںکا جال اور کاروباری مراکز، ر شتہ دار کو ملنے کی خواہش میں وہ صبح سویرے ہی یہاں پہنچ گئے تھے ،دور دور تک بندہ نہ بندے کی ذات ،لگتا تھا جیسے یہاں دن ہی نہ نکلا ہو، گھنٹوں گزرنے کے باوجود کوئی سر گرمی دیکھنے میں نہیں آئی،دفاتر اور کاروباری مراکز اب تک بند تھے۔ تپتی دھوپ میں دونوں حیران پریشان تھے کہ اب جائیں تو کدھرجائیں؟ یہاں تو دنیاہی بدل گئی تھی کسی کو تلاش کرنا بھوسے کے ڈھیرمیں سوئی ڈھونڈنے کے مترادف تھا پھر بھی اس نے ہمت کرکے ایک نو جوان کو پتہ پو چھنے کے لیے روکا، وہ اس کی بات سنی ان سنی کرتے یہ جا وہ جا،ایک خاتون سے بات کرنے کی کوشش کی اس نے کانوںمیں موبائل کی ہینڈفری ٹھونسی ہوئی تھی، بیشتران کو اس اندازسے دیکھتے گزر جاتے جیسے وہ بھکاری ہوں، کوئی بات کرنے یا سننے کو تیارہی نہ تھا،وہ بڑبڑایاخدایا میں کہاں آگیا ہوں ،وہ سوچنے لگاکیا یہ علاقہ بھی پاکستان میں ہے یا پھر غلطی سے کسی اور دیس آگیاہوں،وہ انہی سوچوںمیں غلطان تھا اسے دور ایک دکان نظر آئی تھکے جسم،گرد آلود چہرے، ماتھے سے بہتاپسینہ،پیاس کی شدت کے ساتھ ڈگمگاتے قدموں سے جب وہ مطلوبہ جگہ پہنچے تودکاندار سے چوہدری اللہ وسایا بارے دریافت کیا۔

 

کوئی اتہ پتہ،دکاندار نے استفسارکیا،کوئی ایڈریس؟ بوڑھے نے نفی میں سرہلایا تودکاندار بولا بابا جی تم ساری زندگی بھی ایسے کسی چوہدری اللہ وسائے کو ڈھونڈتے رہو وہ نہیں ملنے والا۔پھراس نے کہا ہاں میں نے ایک کوٹھی پر چوہدری اللہ وسایا لکھا دیکھا تھا وہ تو یہاںسے کافی دور ہے ،تم بتائو تو سہی بوڑھے نے امیدکی ایک کرن جانتے ہوئے مضطرب ہوکر پو چھا،یہ ایک چوک چھوڑ کر ،دکاندار نے دور اشارہ کرتے ہوئے کہا دوسرے چوک سے دائیں مڑجانا وہیں کہیں چوہدری اللہ وسائے کی بڑ ی سی کوٹھی ہے،تھوڑا سا پانی ہی پلا دو ،بوڑھے نے لجاحت سے کہا ،بابیو! یہاں پانی نہیں لوگ منرل واٹرپیتے ہیں،وہ سوچتے سوچتے جارہے تھے مطلوبہ جگہ پہنچنے سے پہلے ہی بوڑھا چکرا کر گرگیا، دور دور تک کوئی بندہ نہ بشر،،لڑکے نے کئی کوٹھیوں کے گیٹ پر دستک دی کئی لوگوںسے مدد مانگی کسی نے ایک نہ سنی۔
یہ دو واقعات ، محض واقعات ہی نہیں ہمارے معاشرے کی جیتی جاگتی تصویریں ہیں یہ کہانیاں موجود ہ حالات کی عکاس ہیں ایک دوسرے سے لاتعلقی،بے حسی ،بے مروتی اس قدر غالب آگئی ہے کہ اب تو مطلب کے بغیر کوئی ہاتھ ملانا بھی پسندنہیں کرتا ،غریب رشتہ دارکی طرف دیکھنا بھی معیوب بن گیاہے ،شاید الفاظ کے معنی الٹ ہوگئے ہیں، یا لوگوںکی کھوپڑیاں،اس بے حسی ،انسان کی ناقدری اور روپے پیسے سے اتنی محبت کہ ماتم کرنے کو جی کرتاہے، اسلام نے دولت سے محبت کو فتنہ قرار دیاہے جبکہ صرف اپنی ذات کے متعلق سوچنا رہبانیت ہے ۔آج کوٹھی،کار،کاروبار اور ہر طرح کی آسائشیںہماری دسترس میں ہیں جن کے پاس وسائل ہیں دولت ان پر عاشق ہے ،کھانے کو ہزار نعمتیں ،پہننے کے لیے قیمتی ملبوسات کی وسیع رینج ، نزاکت ،شہرت اوردنیا جہاںکی مہنگی سے مہنگی چیزیں گھرکی لونڈی،لیکن ستم بالائے ستم یہ کہ دل محبت سے خالی ہو گئے ہیں، مسلمان ہونے کے باوجودہم مروت، احساس ،اخوت،بھائی چارہ اور ایک دوسرے س کی چاہت سے عاری ہوتے جارہے ہیں اوردل ہیں کہ خواہشات کے قبرستان بن گئے، قبرستان بھی ایسا کہ ٹوٹی پھوٹی قبریں جن پر کوئی دیا ٹمٹماتاہے نہ کوئی فاتحہ پڑھنے کے لیے آتاہو حیف صد حیف پھر بھی ہم سمجھتے ہیں زندہ ہیں۔ لیکن سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے کیا یہ سب کچھ زندگی کی علامت ہے؟ کیا ہم اپنے لاشے کندھوںپر اٹھائے نہیں پھرتے ،ہمارا رویہ ، شخصیت کا تضاد ، بناوٹ ،جھوٹی نمائش اور خلق ِ خدا سے سلوک سب کا سب ہماری مذہبی تعلیمات کے منافی ہے۔اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کے احکامات کی صریحاً خلاف ورزی ہے ،ہم نے یہ بھی کبھی غورنہیں کیا کہ بڑے بڑے گھروںمیں رہنے سے انسان بڑا نہیں ہوتا چھوٹے گھروںمیںبھی بڑے لوگ رہتے ہیں،ہمارے لیے یہ جاننا کافی نہیں کہ صرف اپنے متعلق سو چنا رہبانیت ہے اور راہب کا دل ویران ہوتاہے۔ایک بہترین معاشرے کی تشکیل، لوگوںکے دکھ سکھ میں شرکت،صلہ رحمی، مخلوق ِ خدا سے محبت اوراخوت ہی تو اسلام کی اصل روح ہے اس پر عمل کیے بغیر ہماری روح بے چین رہے گی حقیقی سکون نہیں مل سکتا:

ملوہر ایک سے اخلاص کے ساتھ

جانے کس روپ میں خدا مل جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر