وجود

... loading ...

وجود

سیاسی بحران اور امن کا مسئلہ

جمعرات 22 اکتوبر 2020 سیاسی بحران اور امن کا مسئلہ

ملک کی سیاست میں بحران ،عدم استحکام اور بھونچال کی کیفیت ہے ۔وہیں کہیں نہ کہیں قرار و امن تہہ و بالا کردیا جاتا ہے ۔سندھ ،خیبر پشتونخوا گاہے بلوچستان میں سنگین و روح فرسا واقعار رونما ہو جاتے ہیں۔پچھلے دنوں (15اکتوبر2020 ) بلوچستان کے ساحلی علاقے اورماڑہ میں بلوچ عسکریت پسندوں کے حملے میں سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں سمیت 15افراد جاں بحق ہوئے ۔اسی روز شمالی وزیرستان میں رزمک کے مقام پر شرپسندوں کی جانب سے آئی ای ڈی حملے میں کیپٹن عمر فاروق، نائب صوبیدار ریاض احمد، نائب صوبیدار شکیل آزاد اور لائنس نائیک عصمت اللہ جان سے گئے۔ ریاست عسکریت پسندوں کی عملیات کا سالوں سے سامنے کیے ہوئے ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضہ اور افغانستان پرحملے میں امریکا اور نیٹو کا اتحادی بننے کے بعد مسلح تنظیمیں منظر عام پر آئیں۔ ساتھ قبائلی علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان کے اثرات پھیلتے گئے ،حتیٰ کہ کنٹرول کی حامل بنی۔ یہاں تک کہ سوات اپنے قبضہ میں لے لیا۔ بلوچ عسکریت پسندوں کے لیے افغانستان پناہ گاہ و تربیت گاہ ٹھہرا۔ افغانستان میں بھارت کو نفوذ و رسوخ حاصل ہوا۔ پاکستان دہشتگردی کے خلاف نام نہاد جنگ کا حصہ بن کر بھی افغانستان سے بے دخل کردیا گیا۔یقینا مشرف رجیم افغانوں کے قتل عام میں شریک اور برادر کشی کی مرتکب ہوئی۔ چناں چہ پاکستان کو مکافات عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ اب اگر افغانستان میں امن نہیں تو پاکستان بھی پرسکون نہیں۔ تحریک طالبان پاکستان اور دوسرے مسلح گروہوں نے آپریشن کے بعد افغانستان کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنایا۔ جن کو بھارت کی انٹیلی جنس اور افغان این ڈی ایس کی پوری پشت پناہی حاصل ہے۔ اگست2020کے وسط میں افغانستان کے اندر تحریک طالبان پاکستان، جماعت الاحرار اور حزب الاحرار کے درمیان انضمام ہوا۔ آخر الذکر گروہوں کے کمانڈروں عمر خالد خراسانی اور عمر خراسانی اور ان کے دوسرے نمائندوں نے تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ابو عاصم منصور کے ہاتھوں بعیت کرلیا۔ پاکستان مخالف عزم کا اظہار کیا گیا۔ متوازی طور پر دولت اسلامیہ پاکستان کے نام سے افغانستان میں موجود گروہ نے بھی پاکستان مخالف عزائم پر مبنی اعلامیہ جاری کیا۔

پچھلے مہینوں بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے اتحاد بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) اور سندھو دیش روولیوشنری آرمی ( ایس آر اے ) نے مشترکہ محاذ کے قیام کا اعلان کیا۔ براس بلوچ لبریشن آرمی ( بی ایل اے)، بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف)، بلوچ ریپبلکن آرمی ( بی آر اے) اوربلوچ ریپبکن گارڈز ( بی آر جی) پر مشتمل ہے۔ مذکورہ بالا اور ماڑہ حملے کی ذمہ داری اس تنظیم نے قبول کرلی۔درحقیقت بلوچ عسکریت پسندوں پر کلی قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ نہ ہی سیاسی میدان میں ہم آہنگی اور افہام و تفہیم کا ماحول پیدا کیا جاسکا ہے۔ سیاسی نقد و جرح ضرور ہو، لیکن کسی قومی سطح کے رہنمائوں پر بھارت نوازی یا مودی کی دوستی کابہتان ناپسندیدہ عمل ۔ خصوصاً پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حالیہ تحریک کے تناظر میں حکومتی لوگوں کا بیانیہ صائب نہیں ۔تخریب و دہشتگردی کے واقعات کا پاکستان کو برسوں سے سامنا ہے ۔ جس میںیقینا ملک بھاری نقصان اُٹھاچکا ہے ۔ عوام اور فورسز کی جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔ لہٰذ اگر کسی منصب دار پر تنقید ہوتی ہے تو اس کا ہر گز مطلب ملک دشمن عناصر کی مدد کرنا نہیں ہو سکتا۔البتہ حکومت مخالف اتحاد میں شامل سرکردہ رہنما اپنے ارشادات میں محتاط رہیں کہ ریاست کے مفادات کا سوال نہ اُبھرے ۔ مشترکات موضوع ہوتو پی ڈی ایم متنازعہ ہوگی نہ اتحاد وقتی ثابت ہو گا ۔چوں کہ ملک کو دہشت گردی کاسامنا ہے ۔اس لیے یہ اتحاد کالعدم گروہوں سے متعلق خواہ وہ بلوچستان کی ہوں سندھ کی یا سابقہ فاٹا سے کے بارے واضح موقف پیش کریں ۔ الغر ض اورماڑہ کا واقعہ غیر معمولی ہے جس میں تیل اور گیس کی تلاش کرنے والی سرکاری کمپنی او جی ڈی سی ایل کے کانوائے کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ کانوائے گوادر سے او جی ڈی سی ایل کے ملازمین کو ایف سی اور کمپنی کے اپنے نجی سیکورٹی گارڈز کی حفاظت میں کراچی لے جارہا تھا۔ جسے گوادر کے علاقے اورماڑہ سے پچاس کلومیٹر دور مکران کوسٹل ہائی وے پر’’ سربٹ ‘‘کے مقام پر عسکریت پسندوں نے گھیر لیا ، خود کار اسلحہ سے اندھا دھند فائرنگ کی، راکٹ کے گولے بھی داغے۔ او جی ڈی سی ایل کے ملازمین کی گاڑی تو بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئی۔ مگر ان کی حفاظت پر مامور اہلکار گولیوں کا نشانہ بنے ۔ ایک گاڑی کی فیول ٹینک پھٹنے سے آگ لگ گئی ،جس میں سوار اہلکار جھلس گئے۔ ایف سی کے حوالدار سمیت سات اہلکار اور اتنی ہی تعداد میں او جی ڈی سی ایل کے نجی محافظ بھی جاں بحق ہوگئے۔ حملے کے بعد قریبی علاقوں اور پہاڑوں میں آپریشن غالباً تین دن تک جاری رہا ۔تاہم آپریشن کس قدر نتیجہ خیز تھا کی تفصیلات اب تک معلوم نہیں ہو سکی ہیں۔

حملہ آور مشکل پہاڑی سلسلوں میں کئی کلومیٹر پید ل سفر کرکے ہدف کے لیے آتے ہیںاس بنا ان کا تعاقب مشکل ہوتا ہے۔ اسی مقام پر اپریل2019ء میں بھی عسکریت پسندوں کے اسی اتحاد’ ’براس‘ ‘نے رات کے اندھیرے میںمکران کوسٹل ہائی وے پر مسافربسوں کو روکا تھا۔ شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد پنجاب اور دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے 14غیر بلوچستانیوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ ان میں 11پاک بحریہ اور کوسٹ گارڈز کے اہلکار تھے۔ پاکستان نے اس واقعہ پر باقاعدہ ہمسایہ ملک ایران کی حکومت سے احتجاج کیا تھا ،کہ تیس سے چالیس کی تعداد میں یہ حملہ آور ایران کی حدود سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے اور حملہ کرکے واپس وہیں چلے گئے۔ یہ بھی کہ ان تنظیموں کے کارندوں نے پاکستانی سرحد کے قریب ایرانی حدود میں پناہ لے رکھی ہے۔ یقینا اس نوع کے واقعات آئندہ بھی قوی اندیشہ ہے ۔ لہذا بلوچستان کے تناضر میں کسی قسم کے اغراض و مقاصد سے ہٹ کر بات چیت کی راہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر