... loading ...
پاکستان سمیت عالم اسلام کے اکثر ممالک میں آج کل ایک تاریخی ڈراما ’’ارطغرل‘‘ نہایت مقبول ہے۔ یہ ڈراما مسلمانوں کو اُن کی تاریخ کے کچھ پہلوؤں سے آشنا کرتا ہے، مگر بعد کے مسلم ادوار کی اصل حالت کو سمجھنے کے لیے ایک اور کردار ’’لارنس آف عربیا‘‘ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ برطانوی فوج کا یہ افسر مختلف بہروپ سے خلافت عثمانیہ کی حدود میں داخل ہوا اور تنہا عربوں میں قوم پرستی کے جذبات پیدا کرکے اُنہیں خلافت عثمانیہ کے خلاف کردیا۔ یہاں تک کہ اسلامی خلافت کا خاتمہ ہوگیا۔ اس ایک شخص نے تن تنہا وہ کام کیے جو لاکھوں کی تعداد پر مبنی پوری پوری فوج نہیں کر پاتی۔ دریائے دجلہ کے کنارے مارچ 1916ء میں شکست فاش کے بعد انگریز اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کو میدان جنگ میں شکست نہیں دی جاسکتی ۔ تب انگریزوں نے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کا منصوبہ بنایا اور اس کے لیے ’’لیفٹیننٹ کرنل تھامس ایڈورڈ لارنس‘‘پر نظریں ٹہر گئیں۔ لیفٹیننٹ کرنل تھامس ایڈورڈ لارنس کو ٹی ای لارنس کے نام سے جانا جاتا ہے، مگر 1962ء میں اس پر بننے والی ایک فلم کے باعث اسے’’ لارنس آف عربیا‘‘ کے نام سے شہرت ملنے لگی۔لارنس عربی زبان سے واقف تھا، اس نے اس مقصد کی خاطر اپنا لباس ترک کیا اور عربی لباس زیب تن کرنا شروع کردیا اور بصرہ کی ایک ہوٹل سے اپنا جاسوسی نیٹ ورک منظم کرنا شروع کیا۔ اس ایک شخص کی وجہ سے دیکھتے دیکھتے خلافت عثمانیہ کمزور ہوگئی اور عرب دنیا قوم پرستی کے جذبات میں دہکنے اور بہکنے لگی۔ ایسے ہی لوگوں کو ’’ون مین آرمی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس نے مسلم دنیا میں سازشوں کی ایسی بنیاد رکھی جو آج تک ڈھ نہیں سکی۔ ارطغرل کے ساتھ لارنس آف عربیا کو سمجھنا بہت ضروری ہے ، تاکہ ہم یہ درست طور پر جان سکیں کہ مسلمانوںکے زوال وادبار کی اصل وجوہات کیا ہیں؟ لارنس آف عربیا کے گرد بہت سے افسانے او رکہانیا ں مشہور ہیں، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کے مذموم ارادوں اور مسلم دشمن کارگزاریوں کو دیکھتے ہیں تو یہ اُن چند لوگوں میں شامل ہو جاتا ہے، جو مسلمانوں کے حقیقی دشمن تصور کیے جاتے ہیں۔ ان صفحات پر لارنس آف عربیا کی زندگی پر محیط کتاب کو قسط وار یہاں شائع کیا جارہا ہے جو چشم کشا بھی ہے اور عبرت افزا بھی!!!
قسط:1
لارنس آف عربیا، بچپن کیسے گزرا؟
٭ نو عمر لڑکا تراش خراش اورعلامتوں کی مدد سے سمجھ جاتا کہ ضرور یہ کوئی عمارت رہی ہے جو سینکڑوں سال پہلے تعمیر ہوئی ہو گی اور جو ملک کی تاریخ کے کسی خاص واقعہ کا پتہ دیتی ہے
آکسفورڈ کے کسی مدرسہ کا کھیل کا میدان ہے۔ لڑکے اپنا اپنا کھیل اپنے طور پر کھیل رہے ہیں۔ ان چیختے چلاتے لڑکوں کے ہجوم سے الگ تھلگ کسی کونے میں ایک خاموش دبلا پتلا لڑکا دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا ہے۔ اس کی ناک کتاب میں چھپ گئی ہے۔
کسی کھلاڑی کی چیخ کو سن کر وہ وقتاً فوقتاً سر اٹھا لیتا ہے۔
ایک نے چلا کر کہا۔ آؤ۔ اور ہم میں مل جاؤ۔
دوسرے نے کہ۔ ’’آہاہا۔ یہ پرانا کتاب کا کیڑا۔
دوسرے کھلاڑی اس حقارت کے ساتھ جو انھیں گیند نہ کھیلنے والے ہر لڑکے سے ہوتی ہے، اس کو تن تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔
لارنس، جس کا پورا نام ٹامس ایڈورڈلارنس تھا۔ دراصل ڈرپوک نہ تھا۔ صرف کھیل اسے نا پسند تھے۔ وہ گرتا پڑتا کسی ندی نالے کے کنارے کنارے اس مقام تک پہنچ جاتا جہاں اس کو اس کے منبع کا سراغ ملتا۔ وہ ان خاک کے تودوں اور پرانے کھنڈروں کی دیکھ بھال میں گھنٹوں مصروف رہتا جہاں قدیم برطانوی باشندے اور رومی فاتح پڑاؤ ڈالا کرتے تھے۔ ان آثار کی تحقیق اس کو قدیم تاریخ کا پتہ دیتی۔ وہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا کہ یہ کھنڈر کیا ہو گا اور اپنے ذہن میں اس کا تصور جماتا کہ وہ انسان کیسا ہو گا جس نے آخری مرتبہ اس کو استعمال کیا ہو گا۔
کبھی وہ یہ کرتا کہ کندھے پر کیمر الٹکائے خاموشی سے سائیکل پر روانہ ہو جاتا اور پرانے قلعوں، کلیساؤں اور محلات کی تصویریں مختلف زاویوں سے لیتا۔ اکثر اوقات اس کا گزران کھنڈروں کی طرف ہوتا جن کو لوگ معمولی پتھروں کا ڈھیر سمجھتے۔ لیکن یہ نو عمر لڑکا تراش خراش اورعلامتوں کی مدد سے سمجھ جاتا کہ ضرور یہ کوئی عمارت رہی ہے جو سینکڑوں سال پہلے تعمیر ہوئی ہو گی اور جو ملک کی تاریخ کے کسی خاص واقعہ کا پتہ دیتی ہے۔ وہ واقعات کا سراغ لگانا چاہتا یعنی وہ کہاں سے شروع ہوئے کیسے شروع ہوئے اور کیونکر شروع ہوئے۔ وہ لڑکوں کی ہشت مشت میں بھی کبھی کبھی شریک ہو جاتا۔ اس دھما چوکڑی کی مثال ایسی ہوتی گویا کوئی ناہموار مکان یکا یک زمین سے ابھر آیا ہو اور معاً کسی ناگہانی حادثہ کے سبب مسمار ہو گیا ہو۔ ایک دفعہ یہ کھیل اسے بہت مہنگا پڑا جس نے اس کا پاؤں توڑ دیا۔ اس حادثہ کا اس پر عجیب اثر ہو۔ اس کے دوسرے بھائی بلند قامت تھے اور یقین تھا کہ جسمانی ساخت میں یہ بھی ان کا ہم عصر ہو گا لیکن پاؤں کے ٹوٹ جانے سے اس کی نشوونما رُک گئی اور وہ پانچ فٹ چار انچ سے نہ بڑھ سکا۔
قدیم تاریخ کی تحقیق کے شوق میں گاہے گاہے وہ اجنبی راستوں پر بھی چل پڑتا تھا۔ ایک دن آکسفورڈ کا ایک قدیم نقشہ اس کے ہاتھ لگا جس سے کسی زمین دوز نہر کے وجود کا پتہ ملتا تھا اس سے پہلے کسی کو اس کا خیال بھی نہ تھا کہ گیس کے کارخانے کے قریب والی نہر دراصل وہی ہے جو Fally Bridge کے قریب بہتی ہے۔ اس نقشہ نے ثابت کر دیا کہ یہ وہی ایک ہی نہرہے۔ اس پوشیدہ نہر نے اس کو ایک مہم کی راہ سمجھائی۔ وہ ایک دن عین گیس کے کارخانے کے پیچھے سے چھوٹی کشتی میں سوار ہو کر اس ارادے سے روانہ ہو گیا کہ نہر کے راستا پر چلتا ہوا Fally Bridge کے سرے تک پہنچ جائے گا۔ جب اس نے کشتی نہر میں ڈالی تو اس کے مدرسہ کے دو ایک ساتھی اس پر ہنسنے لگے۔ لیکن جب وہ کشتی کھیتا ہوا زمین میں گھس کر نظر سے غائب ہو گیا تو انھیں الجھن ہونے لگی۔
کھلی فضا کے ختم ہوتے ہی لارنس نے خود کو سخت اندھیرے میں گھرا ہوا پایا۔ ہوشیاری سے راستا کا خیال رکھتے ہوئے وہ آہستہ آہستہ کشتی کھیتا رہا۔ ایک گز کے فاصلہ پر بھی اسے کچھ نظر نہ آتا تھا لیکن سر کے اوپر آمدورفت کی مدھم آوازیں سنائی پڑتی تھیں۔ وہ ایک گلی کے نیچے تھا۔
آدھ گھنٹہ تک اس نے اپنا پر اسرار سفر جاری رکھا۔ اس سنسان جگہ میں وہ صرف چپو چلنے کی آواز سن سکتا تھا اور جب وہ ایک نامعلوم کنارے پر پہنچ چکا تو لکڑی چھیلنے کی مدھم آوازیں اس کو سنائی دینے لگیں۔ دو تین دفعہ اس نے گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز بھی سنی اور جب وہ آکسفورڈ ہی کی ایک دوسری گلی کے نیچے سے گزرا تو پہیوں کی گھڑگھڑاہٹ اس کو سنائی پڑتی تھی حتیٰ کہ بالآخر سامنے اس کو مدھم سی روشنی نظر آئی۔ اب وہ باہر آ رہا تھا اس کی ننھی منی کشتی Fally Bridgeکے قریب تیر رہی تھی۔ اسکول کے چند ساتھی کچھ سہمے ہوئے سے اس کے پر جوش استقبال کے لیے وہاں کھڑے تھے۔ اس کو کشتی کو نظروں سے اوجھل ہوتے ہوئے جنھوں نے دیکھ لیا تھا وہ گلیوں میں بے تحاشا دوڑے پھر رہے تھے اور ایک دوسرے کو چلا چلا کر کہتے جاتے تھے۔
’’لارنس سرک کے نچے والی پرانی نہر میں اپنی کشتی لیے گھس پڑا۔‘‘
پرانے کرم کتابی میں اس خطرناک سفر کی جرأت پا کر وہ سٹپٹا گئے تھے اور جب وہ تاریکی سے کشتی کے ساتھ کھیتا ہوا برآمد ہوا تو مبارکباد دینے کے لیے ان میں مسابقت ہونے لگی۔
’’اچھے لارنس۔‘‘
’’خدا کی قسم! اس کے لیے تمھیں بڑی مشقت برداشت کرنی پڑی ہو گی۔ آخر یہ مہم اتنی بے لطف تو نہ رہی۔‘‘ اسی طرح کی آوازیں فضاء میں بلند ہونے لگیں اور اب وہ اپنے انھیں یار دوستوں کی مدح و ستائش کا مرکز بن گیا جو کچھ ہی پہلے کھیلوں میں شریک نہ ہونے کے باعث اس پر آوازے کستے تھے۔
ان میں سے جو زیادہ متجسس طبیعت رکھتے تھے اس سے مزید تفصیل سننے کے مشتاق تھے۔ ایک نے پوچھا۔ یہ تم نے کیا کیا۔ کیا اس سے اپنی جرأت بتانا مقصود تھا۔
کم سن لارنس نے سر ہلا کر دبی زبان میں جواب دیا جی نہیں۔ میں تو صرف معلوم کرنا چاہتا تھا کہ آخر یہ نہر نکلتی کہاں ہے۔
سال اور مہینے گزرتے گئے۔ لیکن اس کو کھیلوں میں شریک نہ ہونا تھا نہ ہوا اور صاف صاف کہہ دیا کہ مدرسہ مجھ کو پسند نہیں۔ کتابیں اور اس قبیل کی دوسری چیزیں البتہ اس کو پسند تھیں۔ لیکن مدرسہ سے بحیثیت مدرسہ ا س کو بے لطفی ہی رہی۔
تعطیلات میں وہ برطانیہ اور فرانس کے دیہاتی علاقوں میں گھومتا پھرتا۔ جہاں اس کو سینکڑوں سال جس کے باشندوں کے متعلق ’’کیوں‘‘ اور ’’کس لیے‘‘ کی تحقیق کا شوق لے جاتا۔
وہ نہ زیادہ دراز قامت تھا اور نہ بھاری بھرکم۔ اس کے قد کی درازی صرف پانچ فٹ اور چار انچ تک پہنچ پائی تھی اور وزن میں وہ سات اسٹون سے زیادہ نہ تھا، پھر بھی وہ تھوڑا بہت مشہور ہو چکا تھا۔
جب وہ جنیرز کالج میں پڑھتا تھا تو ان تمام طالب علموں کی توجہ کا مرکز تھا جو دن رات مطالعہ کتب بینی اور مضمون نویسی میںمصروف رہتے تھے۔ وہ ان چیزوں میں سب سے بہتر و برتر تھا۔ وہ سائیکل رانوں کی جماعت اور Oxford officer’s Trainins Corps کا سر گرم ممبر تھا۔
جب کبھی گفتگو کرتا تو لوگ اس کی طرف متوجہ ہو جاتے۔ اس کے مضامین خاص خصوصیت رکھتے تھے جن سے پتہ چلتا کہ وہ ایک غیر معمولی ہوشیار طالب علم اور ایسا نوجوان ہے جو ایک نہ ایک دن نام پیدا کرے گا۔
اس کا خاص مضمون اثر یات تھا۔ اس کے مطالعہ کا یہ نتیجہ نکلا کہ بالآخر اس نے شام اور فلسطین میں مسیحی مجاہداں کے تعمیر کیے ہوئے قلعوں پر ایک مضمون ترتیب دے ڈالا۔ ان قلعوں کے متعلق اس نے کتابیں پڑھی تھیں۔ اس موضوع کے مسلم الثبوت اساتذہ کا مطالعہ بھی کر چکا تھا لیکن یہ بھی ناکافی تھا وہ بذات خود دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ ملک کیسا ہے۔ وہاں اب جو لوگ بستے ہیں وہ کیسے ہیں۔ گزری ہوئی نسلیں ان لوگوں کی زندگی اور خصلتوں پر کیا نقوش چھوڑ گئی ہیں۔
1909ء میں جب کہ اس کی عمر بیس سال تھی وہ شمالی شام کے سفر پر روانہ ہو گیا۔ وہ اسی پر چلنا چاہتا تھا جس پر سے کبھی مسیحی مجاہد گزرے تھے۔
انگلستان سے نکلتے وقت اس نے بہت قلیل رقم اپنے ساتھ رکھی تھی یعنی کم و بیش سو پونڈ۔ جوں ہی وہ بیروت پر جہاز سے اُترا، شام اور فلسطین میں اپنے خود اختیار کردہ سفر پر پاپیادہ چل پڑا۔ اپنی غذا کے لیے اس نے اہل ملک کی سیدھی سادھی مہمان نوازی کو کافی سمجھا اور بالآخر جب وہ ساحل پر واپس آیا اور وہاں سے انگلستان پہنچا تو رقم کا بڑا حصہ اس کے پاس موجود تھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭