وجود

... loading ...

وجود

معاشی ڈائیلاگ کی ضرورت

پیر 12 اکتوبر 2020 معاشی ڈائیلاگ کی ضرورت

آپ کو یاد ہوگا کہ گیلانی کے دور میں جب چینی کا بحران پیدا ہوا تو چینی 45 سے 55 روپے تک جاپہنچی تھی، ایسے میں ہمارے معاشرے کے ایک کردار ، یعنی میڈیا ، نے اس قدر شور مچایا کہ عدالت عظمیٰ جوش میں آگئی، یعنی ازخود نوٹس لینے پر مجبور ہوگئی۔افتخار چودھری کی عدالت نے طلب اور رسد کے فارمولے کو نظر انداز کرتے ہوئے حکم صادر کیا کہ عوام کو چینی ہر حال میں 45 روپے کلو فراہم کی جائے ۔ حکم تو آگیا،لیکن اس پر عمل کیسے ہو؟ یہ سوچنا عدالتوں کا کام کہاں ہوتا ہے ۔ پھر ہوا یوں کہ شوگر ملز مالکان نے سوچا کہ بلاوجہ عبدالستار ایدھی بننے سے بہتر ہے کہ فی الحال کام ہی نہ کیا جائے ، یوں مارکیٹ میں چینی کی سپلائی شارٹ ہوگئی،وہ چینی جو 55 روپے کے مہنگے ریٹ پر مل رہی تھی وہ 65/60 تک جاپہنچی ، بلکہ کئی علاقوں میں تو ناپید ہی ہوگئی۔ کچھ دن بعد عدالتیں کسی اور معاملے پر لگ گئیں، میڈیا کو بھی کوئی نیا ایشو ہاتھ آگیا، اور رہی بات چینی کے ریٹ کی ، وہ نیچے نہیں آسکا ۔
حالیہ چینی کا بحران بھی کچھ اس سے ملتا جلتا ہی ہے ۔آپ کو یاد ہوگا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پہلے تو شوگر ملز مالکان کو حکومتی کارروائی سے بچنے کیلئے حکم امتناع دیا۔ پھر طلب اور رسد کے توازن کو نظر انداز کرتے ہوئے چینی ، جو 85 تک پہنچ گئی تھی ، اسے 70 روپے کلو میں بیچنے کا حکم دیا۔ اس معاملے میں بھی میڈیا کا کردار بی جمالو کا ہی رہا، مسئلہ کے اسباب اور اس کے حل کے بجائے ، سیاسی انداز سے ڈھول پیٹا جاتا رہا ۔ نتیجہ وہی نکلا کہ مارکیٹ میں چینی آج 85 کے بجائے 100اور 110روپے تک جاپہنچی اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے ۔ اس معاملے میں حکومتی ناہلی اور لاپروائی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔خاص طور پر طلب اور رسد پر نظر رکھنے والے اداروں اور متعلقہ وزارتیں بروقت فیصلے کرنے میں ناکام رہیں ، یہی معاملہ آٹے کے بحران میں بھی نظر آیا، یہ دونوں بحران تاحال جاری ہیں۔
ملک میں مہنگائی اس وقت اس سطح پر ہے ، جو اس سے پہلے کبھی دیکھی نہیں گئی تھی۔اور مہنگائی کے نتیجے میں جو سماجی مسائل اور جرائم پیدا ہوتے ہیں وہ بھی اس سطح پر ہیں جو اس سے پہلے کبھی دیکھے نہ گئے تھے ۔ یہ فطری بات ہے کہ جو حکومت برسر اقتدار ہوتی ہے ، وہی صورت حال پر جواب دہ ہوتی ہے ۔موجودہ حکومت اپنے پہلے دو سال میں ، اس تمام ترصورتحال پر ایک ہی جواب دیتی آئی ہے کہ یہ سب پچھلی حکومتوں کا کیا دھرا ہے ،ہم اسے ٹھیک کرنے میں لگے ہیں آپ نے گھبرانا نہیں ہے ۔ یہاں ہمیں ایک بات کا بہت اچھی طرح تجربہ ہوچکا ہے ، کہ پاکستان میں ہر نئی آنے والی حکومت کے دور کی صورتحال عوام کیلئے پچھلی حکومتوں سے بدتر ثابت ہوتی ہے ۔اسی بات کو اگر فارمولا مان لیا جائے تو ، اگر موجودہ اپوزیشن کے حوالے حکومت کردی جائے تو یقیناً پھر صورتحال مزید بدترین ہوجائے گی۔
بات اصل میں یہ نہیں ،کچھ اور بھی ہے ۔کچھ سامنے کے معاملات ایسے بھی ہیں جن پر ہم غور ہی نہیں کرتے ،یہ وہ معاملات ہیں جن کی نتائج کے مضمرات بھی کسی حاکم وقت کے سرتھونپ دیے جاتے ہیں۔یعنی عدالتوں کی دخل اندازی، میڈیا کا بچگانہ انداز،تاجروں کی بے حسی اور قانون کی عدم حکمرانی۔ ان سب باتوں کے باوجود، اب ہم آتے ہیں اصل معاملے کی طرف جس پر کوئی سیاسی جماعت ، حکومت یا ادارہ بات کرتا نظر ہی نہیں آتا۔ اور وہ ہے ہمارا نظام معیشت۔یعنی وہ بنیاد جس پر معیشت کی عمارت کھڑی کی گئی ہے ۔ہمارے ملک کی سیاسی جماعتیں (تمام) سرمایہ دارانہ نظام کی محافظ ہیں، شاید یہ بات انہیں خود بھی پتا نہ ہو، کیونکہ ان کا کوئی معاشی نظریہ ہی نہیں ہے ۔سب سے پہلے بے نظیر بھٹو نے اپنے والد کے معاشی نظریئے کو کِک لگائی ، اور سوچے سمجھے بغیر امریکا ، یورپ اور آزاد معیشت کے سنگ چلنے کا نعرہ لگایا، اس کے بعد نواز شریف نے بے نظیر کو چلتا کرایا لیکن اسی کے معاشی نظریئے کو بھی آگے بڑھایا۔یعنی آزاد معیشت اور مارکیٹ اکانومی ۔اور یہ سلسلہ آج تک بلا تعطل جاری ہے ۔
ہمارے دانشور اور میڈیا لوگوں کو بتاتے ہی نہیں کہ ہم کہاں کہاں دستخط کرکے اپنا دامن پھنسا چکے ہیں۔امریکا ، یورپ، آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک ، ایف اے ٹی ایف ہمیں ڈانٹ کر ایک رستے پر چلنے پر مجبور کرتے ہیں۔ خیر عرض یہ کرنا ہے کہ یہ بجلی، گیس ، آٹا اور چینی کی مہنگائی تو ضمنی معاملات ہیں، اصل مسئلہ تو قومی اور بین الاقوامی پالیسیوں کی ترتیب کا ہے ۔ہمارے خزانے میں اگر دو چار ارب ڈالر مزید آگئے تو ان اشیا کی قیمتیں معمولی سی نیچے تو آسکتی ہیں، لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں ہے ، کیونکہ بحیثیت ریاست ہمارا کسی معاملے پر کوئی کنٹرول ہی باقی نہیں رہا۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ بھی شمالی کوریا بن جائیں اور دنیا سے بالکل قطع تعلق کرلیں ، لیکن یہ بھی تو دیکھیں کہ وہ ملک بھی دنیا کی پابندیوں کے باوجود اپنی انٹرنل اکانومی بنا کر عوام کو روٹی ، تعلیم اور صحت کی سہولتیں ہم سے بہتر فراہم کررہا ہے ، خزانے کا خالی ہونا ان کے لیے مسئلہ نہیں،کیونکہ مہنگائی کا وہاں کوئی وجود نہیں،کیونکہ ہر چیز کے ریٹ وہاں حکومت کے ہاتھ میں ہوتے ہیں ۔ حکومتی سختی اور کنٹرول کی بنا پر عوام وہاں تعیشات کی دوڑ سے دور رہتے ہیں ، چمچماتی کاریں ، ٹی وی چینلز ، اور جدید موبائل فونز بھلے ان لوگوں کے پاس نہ ہوں ، لیکن ان کی ضرورتیں ، وہاں ضرور پوری ہوتی ہیں ،وہاں لوگ ان حالات میں بھی شام کو بے فکری سے محفلیں سجاتے ہیں،ایک کماتا ہے اور پورا کنبہ کھاتا ہے ۔ ایک زمانے میں (سن 90 سے پہلے تک)ایسا ہی دور ہمارے ہاں بھی تھا،جسے ہم آج بھی یاد کرتے ہیں۔
عرض یہی کرنا تھا کہ ملک میں، معاشی پالیسیوں پر بھی ڈائیلاگ شروع کیا جائے ، صرف کارخانوں کی بے حساب پیداوار اور اشیائے تعیشات کی بھر مار کو اقتصادی ترقی نہ سمجھا جائے ۔بلکہ ملک کی معاشی خودمختاری کو ہی سب سے اہم مانا جائے ۔ حکومت ، سیاسی جماعتیں ، عدلیہ اور فوج معاشی ماہرین کے ہمراہ مل کر بیٹھیں ، سب سے پہلے تو ’’معاشی ترقی ‘‘کی تعریف پر متفق ہوا جائے ۔پھر اس امر کا تعین کریں کہ معاشی پالیسی کے بنیادی ستون کیا ہونے چاہئے اور کون سا ادارہ ان کا محافظ ہو۔تاکہ ملک میں ایک بار پھر اسی بے فکری کا دور دورہ ہو ، جب ایک کماتا اور پورا کنبہ کھاتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر