... loading ...
دوستو، آج کل کمپیوٹر کا دور ہے اورا سکولوں میں کاغذ اور قلم کا چلن مفقود ہوتا جا رہا ہے کیونکہ بچے اب نوٹس بھی کمپیوٹر ہی پر بناتے ہیں۔تاہم اب سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں بچوں کے لیے ’لکھنے‘ کا ایسا حیران کن فائدہ بتا دیا ہے کہ سن کر والدین اپنے بچوں کو کاغذ قلم تھمانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ناروے کے سائنسدانوں نے 12سال عمر کے 12طالب علموں پر کی گئی اس تحقیق کے نتائج میں بتایا ہے کہ سیکھنے کے لیے لکھنا بچوں کے لیے پڑھنے کی نسبت کئی گنا زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے۔ اس تحقیق میں ثابت ہوا ہے کہ لکھنے سے بچوں کا دماغ مضبوط ہوتا ہے اور ان کی یادداشت تیز ہوتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق نارویجن یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے سائنسدانوں نے ان طالب علموں کو دو گروپوں میں تقسیم کرکے ایک گروپ کو پڑھنے کے لیے مواد دیا جبکہ دوسروں کو پین اور کاغذ دے کر لکھنے پر لگا دیا۔ اس دوران سائنسدان ان کے دماغ میں ہونے والی سرگرمیوں کا آلات کے ذریعے معائنہ کرتے رہے۔ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ پروفیسر اوڈرے وین ڈر میر کا کہنا تھا کہ ’’دونوں گروپوں کے دماغوں کی سرگرمیوں کے مشاہدے میں معلوم ہوا کہ جن بچوں کو لکھنے کا کام دیا گیا تھا ان کے دماغ کے سیکھنے سے منسلک حصے میں سرگرمی دوسرے گروپ کے بچوں کی نسبت بہت زیادہ دیکھی گئی۔بچوں کے لیے لکھنا مشکل ہوتا ہے اور اس طرح پڑھنے کی نسبت کم کام کرپاتے ہیں لیکن لکھنے سے ان کی دماغی صلاحیتوں میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے۔
یہ ہمارا ذاتی تجربہ بھی ہے کہ ہم کمپیوٹر پر براہ راست ٹائپنگ سے زیادہ کاغذپر لکھنے میں زیادہ راحت محسوس کرتے ہیں۔۔ کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ پر جب آپ کچھ لکھنے بیٹھتے ہیں تو اکثر سوچنے کے دوران ہاتھ بہک جاتا ہے اور کچھ غیرضروری چیزیں کھول دیتے ہیں، پھر دماغ ان غیرنصابی سرگرمیوں میں ایسا پھنستا ہے کہ منزل سے بھٹک جاتے ہیں ،جس کانتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر آج کچھ لکھنا ہوتو پھر اسے کل کے لئے رکھ چھوڑتے ہیں۔۔بچپن میں جب ہم اسکول پڑھا کرتے تھے تو ہمارا ایک کلاس فیلو کام چور تھا، اس سے ہوم ورک نہیں ہوتا تھا، وہ اکثر ہم دوستوں کی منت سماجت کرتا کہ یار میرا ہوم ورک بھی کردو، بڑی منت سماجت کے بعد جب کوئی بھی دوست اس کا ہوم ورک کرنے بیٹھتا تھا تو اس کی اگلی فرمائش ہوتی تھی کہ۔۔یار، تھوڑا گندا گندا لکھناتاکہ ٹیچر کو شک نہ ہو۔۔کبھی کبھی ہماری باتیں احباب کے سر وں سے گزرجاتی ہیں۔۔ ہم کہنا کچھ چاہ رہے ہوتے ہیں اور وہ سمجھ کچھ اور رہے ہوتے ہیں۔۔ بالکل اسی طرح جیسے ہم ٹماٹر کو سبزی سمجھا کرتے تھے، لیکن جب خریدنے کے لئے بازارگئے تو پتہ چلا کہ دوسوروپے کلو ہیں،یقین مانیں صدق دل سے یقین ہوگیا کہ ٹماٹر سبزی نہیں پھل ہے۔۔
ٹیچر نے ایک بچے کی رپورٹ بک میں لکھا۔۔ یہ بچہ نہ صرف یہ کہ اسکول کا سب سے زیادہ بد تمیز بچہ ہے۔۔۔بلکہ۔۔ کبھی غیر حاضر بھی نہیں ہوتا۔۔ہماری طرح کا ایک ذہین و فطین بچہ پہلے دن اسکول سے واپس آیا تو ماں نے خوشی خوشی پوچھا۔۔بیٹے! آج تم نے کیا کیا سیکھا؟کچھ نہیں، بیٹے نے سادگی سے جواب دیا۔۔کل پھر جانا پڑے گا۔۔ایک ننھا بچہ اسکول سے گھر آیا تو اس نے اپنی امی سے کہا! بھوک سے پیٹ میں درد ہو رہا ہے۔ اس کی امی نے جلدی سے کھانا اس کے آگے لگا دیا اور کہا، ظاہر ہے پیٹ میں کچھ ہوگا نہیں تو درد تو ہوگا۔شام کو ننھا بچہ ہوم ورک کر رہا تھا، اس کا والد گھر میں داخل ہوا اور کہا بیگم میرے سر میں درد ہو رہا ہے۔ننھے بچے نے یہ سنا تو کہا۔۔ظاہر ہے جب سر میں کچھ ہوگا ہی نہیں تو درد تو ہوگا۔۔بچے تو غیرسیاسی ہوتے ہیں۔۔جب خاتون خانہ نے بڑے چاؤکے ساتھ اپنے مجازی خدا سے پوچھا کہ۔۔ جب سے ہماری شادی ہوئی ہے آپ مجھ پر بہت کم توجہ دینے لگے ہیں؟شوہرنے بے ساختہ کہا۔۔ ارے پگلی، امتحان ختم ہونے کے بعد کون پڑھتا ہے۔۔
ہمارے کام چور کلاس فیلو کا جب ٹیچر نے ہوم ورک چیک کیا تو غصے سے کہنے لگیں۔۔اتنا گندا مضمون تو میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ ایک جملہ بھی درست نہیں لکھا۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ایک آدمی اتنی غلطیاں کیسے کرسکتا ہے۔۔’’ایک آدمی نہیں مِس‘‘ کام چور کلاس فیلو نے ڈرتے ڈرتے کہا۔۔میری امی نے بھی ابو کی ہیلپ کی تھی۔۔پھر ایک روز ہوایوں کہ جب ٹیچر نے پوچھا کہ۔۔تم نے ہوم ورک کرلیا ہے؟ وہ بولا۔ نہیں جناب۔۔ استاد نے کہا، تو پھر مار کھانے کے لیے تیار ہو جاؤ۔۔کام چور کلاس فیلو کہنے لگا۔۔جناب پہلے میں ہاتھ دھو کر آجاؤں؟؟ ٹیچر نے حیران ہوکر پوچھا، وہ کیوں؟؟ وہ بڑی معصومیت سے بولا۔جناب ، میری امی کہتی ہیں کوئی چیز کھانے سے پہلے ہاتھ ضرور دھو لیاکرو۔۔اب ہمارے پیارے دوست کی بھی سن لیجئے، بالکل ہماری طرح آئی کیو لیول ہائی الرٹ پر رہتا تھا۔۔ ٹیچر نے جب پوری کلاس سے سوال کیا۔۔ بتاؤ یہ شعر کس کا ہے؟سرہانے’’’ میر ‘‘ کے آہستہ بولو،ابھی ٹُک روتے روتے سو گیا ہے۔۔ہمارے پیارے دوست نے ترنت جواب دیا۔۔سریہ شعرمیرتقی میرکی والدہ کا ہے۔۔ ٹیچر نے چونک کر ہمارے پیارے دوست کو دیکھا،اور تفصیل جاننی چاہی۔۔ ہمارے پیارے دوست نے دلچسپ وجہ بتائی، کہنے لگے۔۔جی سر یہ اُس وقت کی بات ہے جب میر تقی میرا سکول میں پڑھتے تھے ایک دن ہوم ورک نہ کرنے کی وجہ سے استاد نے ان کی بہت پٹائی کی جس پر وہ روتے روتے گھر آئے اور سو گئے تھوڑی دیر بعد میر صاحب کے باقی بہن بھائی کمرے میں کھیلتے ہوئے شور کرنے لگے جس پر ان کی والدہ نے یہ شعر کہا۔۔سرہانے میر کے آہستہ بولو،ابھی ٹُک روتے روتے سو گیا ہے۔۔اور جو کوئی کہتا ہے کہ یہ میر تقی میر کا شعر ہے تو وہ غلط کہتا ہے کیونکہ میر تقی میر تو اس وقت سو رہے تھے اور کوئی سویا ہوا آدمی شعرکیسے کہہ سکتا ہے؟؟
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اکثر اوقات ہم اپنے ماضی کی ایسی یادوں کو اُٹھائے پھرتے ہیں جو بہت تکلیف دہ ہوتی ہیں اور یوں کل کے دُکھ ہماری آج کی خوشیوں کو بھی کھا جاتے ہیں۔ ماضی میں جو ہوگیا سو ہوگیا اور اب اُسے بدلنا بھی ممکن نہیںاور اگر اب یہ صرف تمہاری یادوں اور ذہن کے کسی گوشے میں جاگزین ہیں تو انھیں آزاد کردو اور خود بھی آزاد ہوجاؤ۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔