وجود

... loading ...

وجود

ہر وار میں مضمر تری حکمت ہے سپاہی

جمعرات 08 اکتوبر 2020 ہر وار میں مضمر تری حکمت ہے سپاہی

پاک فوج میں کیسے کیسے گوہر نایاب اور نازک آبگینے موجود ہیں ،اکثر کو تو ہم جان ہی نہیں پاتے کیونکہ افواج پاکستان کے ہاں تربیت کا پہلاقرینہ ہی یہ طے کیا گہاہے کہ’’ صلے اور ستائش کی تمنادل میں پالے بغیرپوری لگن اور اخلاص کے ساتھ وطن عزیز کی خدمت کیے جاؤ،یہاںتک کہ تم شہید ہوجاؤ یا پھر غازی بن جاؤ‘‘۔تربیت کے اسی سنہری اُصول کو حرز جاں بنا کر پاک فوج کے نہ جانے کتنے درخشندہ ستارے ملک و ملت کی قسمت کو جگمگا کر خاموشی کے ساتھ تہہ ا فلاک گم ہوگئے اور ہمیں خبر ہی نہ ہو سکی۔ہماری افواج کے لشکر جرار سے تعلق رکھنے والا ایسا ہی ایک تابندہ غازی اور پراسرار سا بندہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ مظفر عثمانی بھی تھا ۔ اگر جنرل کے طاقت ور ترین عہدے سے سبکدوش ہونے والا کوئی شخص 30 سال پرانی گاڑی چلاتے ہوئے اپنی جان ،ایک روز چپ چاپ جانِ آفرین کے سپرد کردے ۔ سادگی کے ایسے مادھو کو ہم ولی اور صوفی نہ قرار دیں تو پھر اور کیا کہیں ۔خوش قسمتی سے یہ وہ ہی جنرل عثمانی ہیں جنہوں نے اکتوبر 1998 میں کور کمانڈر کراچی کی حیثیت سے اُس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی جانب سے افواجِ پاکستان کی سا لمیت پر مارے جانے والے شب خون کو ناکام بنانے میں اپنا اہم ترین کردار ادا کیا تھا۔ واضح رہے کہ جب نواز شریف نے پرویز مشرف کا طیارہ پاکستان میں اُترنے سے روکنے کا سرکاری حکم نامہ جاری کردیا تھا تو جنرل مظفر عثمانی نے فقط چند لمحوں میں کراچی ائیرپورٹ کو اپنے زیر انتظام لے کر نہ صرف پرویز مشرف کے طیارہ کی ائیرپورٹ پر بحفاظت لینڈنگ یقینی بنائی ،بلکہ پاکستانی افواج کے خلاف ہونے والی ممکنہ بغاوت کے سانپ کا سر اس سفاکی سے کچلا کہ ریاست پاکستان کے دشمنوں نے واپس اپنے کونے ،کھدروں میں چھپ جانے میں ہی عافیت سمجھی ۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ مظفر عثمانی نے ڈپٹی چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے تک ترقی پائی اور ہلالِ امتیاز سے بھی سرفراز ہوئے ۔جنرل مظفر عثمانی حقیقی معنوں میں ایک درویش صفت سپاہی تھے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ انہوں نے پرویز مشرف کے اقتدار پر متمکن ہونے کے باوجود بھی ، اُن سے کبھی کسی اضافی مراعات یا سہولت کا تقاضا نہیں کیا۔کیونکہ جنرل مظفر عثمانی کے نزدیک پاک فوج میں ملازمت ہی وہ عظیم ترین سعادت تھی جس کے بعد کسی اور اعزاز کی حاجت باقی ہی نہ رہتی تھی ۔ بعض عاقبت نا اندیش تجزیہ کار اُن کی اس قناعت پسندی کو پرویز مشرف کے ساتھ ناراضگی سے تعبیر کرتے ہوئے کہیں بہت دور سے یہ ’’سازشی کوڑی‘‘ تلاش کر کے لے آتے ہیں کہ جنرل مظفر عثمانی کا طالبان کے ساتھ مذاکرات کے معاملہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے ساتھ سنگین ترین اختلاف ہو گیا تھا۔لہٰذجنرل (ر)ا پرویز مشرف کی جانب سے انہیں ہلال امتیاز دے کر ریٹائر کردیا گیا ۔ حالانکہ اس سازشی نظریے میں کچھ سچائی اس لیے بھی نہیں ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ مظفر عثمانی اپنی مدت ملازمت مکمل کرنے کے بعد معمول کے مطابق ہی ریٹائر ہوئے تھے اور کوئی ایسے شواہد موجود نہیں ہیں کہ ان پر ریٹائر ہونے کے لیے دباؤ ڈالا گیا ہو۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ انہوں نے سابق صدر مملکت جنرل (ر)پرویز مشرف سے اپنی ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد کسی پرکشش عہدہ یا دیگر مراعات کا تقاضا کیوں نہیں کیا ؟اس متعلق اَب آپ خود ہی فیصلہ کرلیجیے کہ کیا جنرل مظفر عثمانی کی جانب سے ریٹائر ہوجانے کے بعد خاموشی سے گھر بیٹھ جانے کو اُن کی فطری سادگی اور خوبی پر محمول کر کے اُن کی تحسین و توصیف کرنا زیادہ بہتر ہوگا؟ یا اس رائی کے دانے کا پہاڑ بناکر ایک پاک طینت شخص کی کردار کشی کرنا زیادہ مناسب طرز عمل ہوگا ؟
اصل بات یہ ہے کہ بعض لوگ پاک فوج کی نفرت میں اس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ انہیں اپنے سامنے پڑی ہوئی اظہر من الشمس ’’سچائی ‘‘ بھی دکھائی نہیں دیتی یا پھر یہ لوگ چند مفادات کے حصول کے لالچ میں جان بوجھ کر ہر سچائی کو اَن دیکھا کردیتے ہیں ۔ایسے لوگوں کے لیے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ مظفر عثمانی کی موت تکلیف اور پریشانی کا باعث اس لیے بھی تھی کہ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر جب جنرل مظفرعثمانی کی سادگی سے بھرپور زندگی اور سکون بھری موت کا تذکرہ ہوا تویہ خبر اُس’’مذموم بیانیے‘‘ سے یکسر مختلف تھی ،جس طرح کا ’’سیاسی بیانیہ ‘‘آج کل یہ بدطینت لوگ پاک فوج کے اعلیٰ افسران کے خلاف پھیلانے کی کوشش کررہے تھے۔اس لیے غالب گمان یہی ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ مظفر عثمانی کی موت کی خبر سے یقینا ان کے سینوں پر سانپ لوٹ گئے ہوں گے۔ کیونکہ پاکستانی عوام بخوبی جانتی ہے کہ پاک فوج کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کرنے والوں کے تو فرنٹ مین بھی اربوں کے اثاثے اور کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیوں میں فراٹے مارتے گھومتے ہیں ۔لیکن دوسری جانب پاک فوج کا ایک جنرل 30 سال پرانی گاڑی چلانے میں بھی کوئی عار اور شرمندگی محسوس نہیں کرتا ۔ کردار اور گفتار کا یہ وہ واضح فرق ہے ،جسے اگر ہمارے جمہوری حکمران سمجھ لیں تو وہ پھر کبھی یہ شکوہ اور شکایت نہ کریں کہ ’’پاکستانی عوام ہر بحرانی صورت حال میں مدد و اعانت کے لیئے پاک فوج کی جانب کیوں دیکھتی ہے؟‘‘۔
ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ مال و متاع کے لالچ اور اقتدار کی دلدل میں گردن تک دھنسے ہوئے نام نہاد سیاسی و انقلابی رہنما لاکھ اپنے سیاسی پنجوں پر کھڑا ہوکر خود کو بلند کرنے کی کوشش کرلیں لیکن یہ سب پاکستانی عوام کی نظروں میں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ مظفر عثمانی جیسے سپاہیوں کے سامنے پہلے بھی بوزنے تھے اور آئندہ بھی بوزنے ہی رہیں گے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ مظفر عثمانی کی سعید روح کو ریاستِ پاکستان کے تحفظ کے لیے کی جانے والی مخلصانہ کاوش کے عوض اپنی رحمت کے جلو میں مقامِ خاص عطافرمائے اور پاک فوج کے ہر سپاہی کو جنرل مظفر عثمانی کا پرتو بنا دے ۔ اس مناسبت سے معروف شاعر ضیافاروقی نے کیا خوب کہا ہے کہ
ہر وار میں مضمر تری حکمت ہے سپاہی
ہر جیت کا مژدہ ، تری تلوار سے نکلا
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر