... loading ...
یاد رکھیے کہ دو ملک ایک دوسرے کے ساتھ جنگ کی زبان میں اُسی وقت بات چیت کرتے ہیں، جب اُن کے پاس سفارتی زبان میں گفتگو کے لیے الفاظ کاذخیرہ ختم ہوجائے۔اس لیے آپ جنگ کو طاقت کی زبان بھی قرار دے سکتے ہیں۔ آذربائیجان اور آرمینیا کے مابین شروع ہونے والی حالیہ جنگ بھی دونوں ملکوں کے درمیانی سفارت کاری کی موت واقع ہوجانے کے بعدہی تو شروع ہوئی ہے اور اَب یہ جنگ اُس وقت تک جاری رہے گی جب تک دونوں فریقین میں سے کسی ایک فریق کے پاس طاقت کی زبان کا ذخیرہ ا لفاظ مکمل طور پر ختم نہیں ہوجاتا۔ ایسا نہیں ہے کہ آذر بائیجان اور آرمینیا کے درمیان ماضی میں جنگی جھڑپیں نہیں ہوئی ہیں۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ شکستِ روس کے بعد وجود میں آنے والی یہ دونوں ریاستیں روزِ اول سے ہی ایک دوسرے کی سخت حریف رہی ہیں اور کئی بار ایک دوسرے کے خلاف میدان ِ جنگ میں نبرد آزما بھی ہوچکی ہیں ۔ مگر پاکستانیوں کی اکثریت ماضی میں ان دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی جنگی جھڑپوں سے مکمل طورپر بے خبر ہی رہی ہے ۔
لیکن اس بار ایسا کچھ تو ایسا خاص ہوا ہے کہ اِدھر ’’ ناگور ناکارا باخ‘‘ میں جنگ کے شعلے بھڑکے نہیں کہ اُدھر اُس کی تپش پاکستان میں بھی صاف طور پر محسوس کی جانے لگی اور دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں آذربائیجان اور آرمینیا کی جنگ پر ہونے والوں تبصروں میں پاکستان کا ذکر خیر بھی بڑھ چڑھ کر پیش کیا جانے لگا۔ جبکہ نہ تو پاکستان آذربائیجان کے پڑوس میں واقع ہے اور نہ ہی آرمینیا پاکستان کی بغل میںقیام پذیر ہے۔مگر اُس کے باوجود بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں پورے شد و مد کے ساتھ دعوے کیئے جارہے ہیں کہ پاکستان نے ترکی کو خوش کرنے کے لیئے یا طیب اردوان کے اصرار پر آذربائیجان کی یک طرفہ حمایت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ علاوہ ازیں برطانوی خبر رساں ایجنسی نے اپنے ایک تجزیہ میں یہ تک بھی لکھنے سے گریز نہیں کیا ہے کہ طیب اردوان نے مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف کی جو حمایت کی ہے اُس کا احسان چکانے کے لیئے پاکستان نے آذر بائیجان کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔ آذر بائیجان اور آرمینیا کے جنگی تنازعہ کی آڑ میں پاکستان کو تنقید کا ہدف بنانے والوں کی اصل نیت کو اُس تک نہیں سمجھا جا سکتا، جب تک کہ ہم ان دو ملکوں کے درمیان ہونی والی حالیہ جنگ کا سبب بننی بنیادی وجوہات کا سراغ نہ لگالیں۔
واضح رہے کہ آذر بائیجان اور آرمینیا دو پڑوسی ممالک ہیں اور ان دونوں ممالک کی سرحدیں آپس میں بھی ملتی ہیں ۔ آذر بائیجان ایک مسلم اکثریتی ملک ہے جبکہ آرمینیا میں مسیحی مذہب کے ماننے والے اکثریت میں رہتے ہیں ۔چونکہ ترکی کے خلافت عثمانیہ کے وقت سے آرمینیا کے ساتھ سنگین نوعیت کے سیاسی ، سفارتی اور مذہبی اختلافات رہے ہیں ۔ لہٰذا ترکی آرمینیا کو تسلیم نہیں کرتا ۔لیکن اس کے برعکس جب آذر بائیجان نے اپنی آزاد مملکت کا اعلان کیا تو ترکی وہ پہلا ملک تھا جس نے اُسے تسلیم کیا تھا۔ ویسے بھی آذر بائیجان میں رہنے والی آذری قوم ترک قبیلے اوغوز کی ہی ایک شاخ ہے اور یہاں بولی جانے والی آذری زبان کو ترکوں کی قدیم ترین35 زبانوں میں سے ایک شمار کیا جاتاہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ترکی اور آذر بائیجان تاریخی لحاظ سے ’’ایک قوم دو ملک ‘‘ کے اُصول پر صحیح معنوں میں پورا اُترتے ہیں ۔ اس کے علاوہ تیل کا حصول وہ دوسری اہم ترین وجہ ہے ،جس کے باعث ترکی آذر بائیجان پر مکمل طور انحصار کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے ۔ حالیہ وقتوںمیں ترکی نے سب سے زیادہ جس ملک میں سرمایہ کاری کی ہے ،وہ آذربائیجان ہی ہے ۔ ترکی نے یہ سرمایہ کاری تیل کی پائپ لائن پر کی ہوئی ہے، جو ترکی اور آذربائیجان سے گزرتی ہوئی بحرہ کیپسین تک جاتی ہے ۔اس پائپ لائن سے تیل کا حصول شرو ع ہونے کے بعد ترکی کا انحصار روس،ایران اور دیگر مغربی اور عرب ممالک سے مکمل طور پر ختم ہوجائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ہفتے بعد اس پائپ لائن سے ترکی کو تیل کی فراہمی شروع ہونے والی تھی کہ اچانک آذربائیجان کے خلاف آرمینیا کی افواج نے جنگی محاذ کھول دیا۔
آذر بائیجان اور آرمینیا کے مابین شروع ہونی والی اس جنگ کی خاص بات یہ ہے کہ فی الحال یہ معرکہ صرف ایک محدود سرحدی علاقہ ’’ ناگور ناکارا باخ‘‘میں جاری ہے ۔یہ علاقہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق آذربائی جان کا حصہ تسلیم کیا جاتاہے ،جسے آرمینیا ایک متنازعہ علاقہ قرار دیتا ہے۔ مقامی زبان میں’’ ناگورنا‘‘ کا مطلب کالاپہاڑ اور’’کاراباخ‘‘ کا معنی باغوں کی زمین کے ہیں ۔یعنی ’’ ناگور ناکارا باخ‘‘کا مطلب ہوا کالے پہاڑوں کے بیچ باغوں کی سرزمین ۔بظاہر ’’ ناگور ناکارا باخ‘‘کا علاقہ چونکہ آذربائیجان کے وسط میں ہے ،مگر سوویت یونین کے خاتمے کے بعد 1993میں اس علاقہ پر آرمینیا نے جنگ کر کے قبضہ کرلیا تھا۔ آرمینیا نے نہ صرف اس جنگ میں ’’ ناگور نا کارا باخ‘‘ کا سارا علاقہ بلکہ ملحقہ رقبے بھی چھین لیے اور یوں آذری باشندوں کی ایک بڑی تعداد بھی آرمینیا کی ’’غلام‘‘ بن گئی۔ ’’ ناگور ناکارا باخ‘‘ کا علاقہ عالمی اداروں کے مطابق آذر بائیجان کا تسلیم شدہ علاقہ ہے لیکن اس پر آرمینیا کے قبضے کو بھی خاموشی سے تسلیم کرلیا گیا۔ صورتحال پچھلے برس سے بڑی تیزی کے ساتھ تبدیل ہونا شروع ہوئی، جب ترکی نے آذر بائیجان سے دفاعی معاہدے کئے اور اسے فوجی امداد دینا شروع کی نیز آذربائیجان کی فوج کو اس قابل بنایا کہ وہ میدان جنگ میں ڈٹ کر لڑ سکے۔لہٰذا اس بار جنگ میں آذربائیجان کو آرمینیا کے خلاف واضح برتری حاصل ہے اور اگر آرمینیا کو روس،ایران یا پھر ترکی مخالف عرب ممالک کی امداد حاصل نہ ہوتو آذربائیجان باآسانی اس علاقہ میں آرمینیا کی افواج کو شکست سے دوچار کرسکتاہے ۔ لیکن جن عجیب و غریب حالات میں آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان اچانک سے یہ جنگ شروع ہوئی ہے ۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ اس جنگ کو شروع کروانے والی عالمی طاقتوں کے دماغ میں کوئی بہت بڑا منصوبہ ہے ، جس کی مد دسے وہ یقینا اُبھرتے ہوئے ترکی کو کمزور کرنا چاہتے ہوں گے۔ چونکہ پاکستان اور ترکی کے بڑے گہرے سفارتی مراسم ہیں ،اس لیے پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے فوری طور پر آذربائیجان کی حمایت کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’’آرمینیا کی جارحیت کے خلاف آذر بائیجان کو اپنے دفاع کامکمل حق حاصل ہے ‘‘۔لیکن یہ کہہ دینا کہ فقط ترکی کی وجہ سے ہی پاکستان آذربائیجان کی حمایت کررہا ہے ایک بالکل سطحی سی بات ہے اور یہ صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جو پاکستان اور آذربائیجان کے دیرینہ برادرانہ تعلقات سے ذرہ برابر بھی واقفیت نہیں رکھتے۔
1991 میں جب آذربائیجان نے اپنی آزادی کا اعلان کیا تو ترکی کے بعد پاکستان وہ دوسرا ملک تھا جس نے اسے تسلیم کرنے کااعلان کیا تھا۔ بعض ناعاقبت اندیش لوگ اس واقعہ کو ترکی کے سفارتی دباؤ کانتیجہ قرار دیتے ہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آذر بائیجان کو پاکستان نے ایک مسلم اکثریتی ملک ہونے کی وجہ سے تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا تھااور یہ سفارتی پالیسی پاکستانی قیادت نے روس کے تسلط سے آزاد ہونے والی دیگر مسلم ریاستوں مثلاً ترکمانستان ،تاجکستان ، ازبکستان اور قازقستان وغیرہ کو تسلیم کرنے میں بھی اپنائی تھی ۔ یعنی پاکستان نے روس سے آزاد ہونے والی ہر مسلم ریاست کو تسلیم کرنے میں عجلت کا ہی مظاہر ہ کیا۔ جبکہ پاکستان نے آرمینیا کو اس لیئے تسلیم نہیں کیا کہ اس کا براہ راست تنازعہ آذربائیجان کے ساتھ جاری تھا اور پاکستان نے اس تنازع میں ایک مسلم ملک کی حیثیت سے آذربائیجان کے ساتھ کھڑا ہونے کا فیصلہ کرنا مناسب سمجھا۔ پاکستانی قیادت کی اس سفارتی عقلمندی نے آذر بائیجان کو پاکستانی قوم کے قریب آنے کا موقع فراہم کیا اور جو ممالک سب سے زیادہ پاکستان میں تیار کئے گئے اسلحہ کی خریداری کرتے ہیں ،اُن میں آذر بائیجان سرفہرست ہے۔ جبکہ پاکستان بھی اپنی تیل اور توانائی کی دیگر ضروریات کے لیے اکثر و بیشتر آذربائیجان سے رجوع کرتا رہتا ہے ۔اس کے علاوہ پاکستان کے نجی تجارتی ادارے جتنا زیادہ آذربائیجان کے شہر ’’باکو‘‘ کے پرفضا مقام پر کاروباری بیٹھکیں کرتے ہیں ،شاید ہی کہیں اور کرتے ہوں۔
پاکستان اور آذر بائیجان کے درمیان یہ اُن ذاتی نوعیت کے برادرانہ تعلقات کی چند جھلکیاں ہیں ،جن کا ترکی اور طیب اردوان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ کیونکہ پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان اُس وقت بھی مختلف شعبہ جات میں بھرپور تعاون جاری تھا،جب طیب اردوان ابھی اقتدار میں بھی نہیں آئے تھے۔ پاکستان اور آذربائیجان کے باہمی تعلقات کی شدت کو سمجھنے اور جانچنے کے لیئے سوشل میڈیا کا پیمانہ بھی ملاحظہ کیا جاسکتاہے ۔کیونکہ پاکستانی حکومت کے بارے میں آپ پھر بھی یہ نقطہ اعتراض، شکوک وشبہات کی صورت میں اُٹھاسکتے ہیں کہ شاید پاکستانی قیادت نے طیب اردوان کے کہنے پر آذربائیجان کی حمایت کا سفارتی بیان داغ دیا ہو۔ لیکن پاکستان کے سوشل میڈیا صارفین تک تو بہرکیف طیب اردوان کی رسائی نہیں ہے مگر پھر بھی آذربائی جان اور آرمینیا کے درمیان جنگ شروع ہونے کی چندگھنٹوں بعد ہی #AzerbaijanIsNotAloneکا ہیش ٹیگ پاکستان کے صفت اول کے ٹرینڈ میں شامل ہوگیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ہیش ٹیگ کے تحت کی جانی والی ٹوئٹس میں پاکستانیوں کی اکثریت آذر بائیجان کی کھل حمایت کرتی ہوئی نظر آئی ۔ یوں ذرا سی بھی عقل و دانش رکھنے والے شخص کے لیئے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہونا چاہئے کہ پاکستان اور آذربائیجان ایک دوسرے کے ساتھ جس برادرانہ تعلق کی مضبوط ڈور میں بندھے ہوئے ہیں ،اُس کا نام صرف اور صرف اسلام ہے، کچھ اور نہیں۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان بھڑکنے والے جنگ کے شعلوں کے مضر اثرات کس حد دنیا،یا ہمارے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں تو اس کے لیئے آنے والا ایک ہفتہ انتہائی اہم ہوگا ۔ اگر آذربائیجان چند روز میں ہی آرمینیا کو ’’ ناگور ناکارا باخ‘‘سے نکل جانے پر مجبور کردیتاہے تو یہ ترکی اور ہمارے خطے کے استحکام کے لیے انتہائی نیک شگون ہوگا۔ جیسا کہ اس وقت نظر بھی آرہا ہے کہ آذربائیجان کی افواج کو اپنے حریف آرمینیا کی افواج پر واضح برتری حاصل ہے اور آرمینیا کی فوج کو میدانِ جنگ میں شدید ترین جانی و مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑرہاہے ۔ لیکن اگر میدان ِجنگ کی یہ کیفیت برقرار نہیں رہ پاتی اور آرمینیا کو براستہ روس عسکری امداد میسر آجاتی ہے ۔پھر غالب امکان یہ ہے کہ اس جنگ کا دائرہ ’’ ناگور ناکارا باخ‘‘ کی حدود کو پھلانگ کر دونوں ممالک کی مکمل سرحد کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گااور اس طرح یہ جنگ غیر معمولی حد تک طول بھی کھینچ سکتی ہے۔ جنگ کا ایک یا دو ہفتوں سے زیادہ لمبے عرصہ جاری رہنا ترکی کے لیے بالخصوص اور ہمارے خطے کی لیے بالعموم انتہائی ضرر رسانی کا باعث بھی بن سکتاہے۔ کیونکہ آذر بائیجان کا علاقہ براہ راست تو نہیں لیکن بالواسطہ طور پر چین کے عظیم الشان تجارتی منصوبے ون بیلٹ ،ون روڈ کی راہ میں بھی آتا ہے ۔لہٰذا یہاں امن و امان کا قیام چین کے لیے بڑی ہی اہمیت کا حامل ہے ۔اَب دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا چین اپنے دفاعی حلیف روس اور پاکستان کی مدد سے ترکی اور آذربائیجان کو جنگ بندی پر آمادہ کرسکتاہے ؟ہمارا خیال ہے کہ چین یہ مشکل کام بہت آسانی سے کر گزرے گا اور دو ملکوں کی لڑائی کو خطے میں پھیل جانے سے روک لیا جائے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭