... loading ...
ہم سات دہائیوں سے سماجی و معاشی ترقی کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم ایسی کسی ترقی کے لیے خود کو کبھی تیار بھی نہیں کرسکے ہیں تو پھر ایسے میں کیا کیا جائے کہ ہم ترقی کے لیے خود کو تیار کرسکیں ۔پہلے پہل تو ایسی وجوہات کی نشاندہی ہونی چاہئے جو ہمیں ترقی کی طرف بڑھنے سے روکے ہوئے ہیں ۔ اس کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ تو ملکی سیاست میں ’’عدم توازن‘‘ کا ہونا ہے یعنی سیاسی عمل’’ رسہ کشی‘‘ کا شکار ہے اور یہی رسہ کشی نہ ہی ہمیں آگے بڑھنے دیتی ہے اور نہ ہی غلطیاں سدھارنے کے لیے کچھ قدم پیچھے ہٹنے دیتی ہے۔ الغرض یہ کہ ملکی سیاست’’معلق‘‘ ہے جو ایک ہی طرح کے دور میں جی رہی ہے ۔جہاں تک ملکی سیاست کے عدم توازن کی بات ہے تو اس کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کا غیر معمولی کردار ہے ۔جیسا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے گزشتہ روز پیپلز پارٹی کی میزبانی میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں اپنے ویڈیو لنک خطاب میں واضح کیا ہے کہ اپوزیشن کی لڑائی وزیر اعظم عمران خان سے نہیں بلکہ اسے لانے والوں سے ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کا اشارہ کس طرف ہے ،یقینا اسٹیبلشمنٹ کی جانب ہوگا۔ یہاں یہ واضح رہے کہ ملکی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی اصطلاحی تعریف بیان نہیں کی جاتی کہ اسٹیبلشمنٹ سے مراد کون سی ایسی طاقت ہے جو پارلیمنٹ اور حکومت پر بھی اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن گزشتہ روز ایک خبر سامنے آئی کہ گلگت بلتستان کے معاملے پر پارلیمانی جماعتوں کے رہنمائوں سے فوج کے اعلیٰ ترین افسران نے ملاقات کی ہے اور اس کے لیے فوج کے اعلیٰ افسران کے لیے’’عسکری قیادت‘‘کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے یعنی ایک جانب سیاسی قیادت ہے تو دوسری جانب عسکری قیادت ہے ۔
بہر کیف اس سیاسی و عسکری قیادت کی ملاقات کی کہانی اب خبر بن چکی ہے جس کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ فوج کو ملکی سیاست میں نہ گھسیٹا جائے ۔اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں ایسی کون سی طاقت ہے جو فوج کو ملکی سیاست میں گھسیٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔اب یہ بحث دلچسپ مرحلے میں داخل ہورہی ہے کہ ملکی سیاست کو ایک جانب ایسی قوت کی تلاش ہے جو پارلیمنٹ اور حکومت پر اثر انداز ہونے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتی ہے جس کی جانب سابق صدر مملکت آصف علی زرداری اور سابق وزیر اعظم نواز شریف اشارے کررہے ہیں ۔دوسری جانب عسکری قیادت کو ایسی قوت کی تلاش ہے جو فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتی ہے۔جہاں تک اہل سیاست کا یہ الزام ہے کہ سیاسی عمل میں کوئی طاقت ہے جو اپنا غیر معمولی اثرورسوخ رکھتی ہے اسے اہل سیاسست اسٹیبلشمنٹ کے نام سے پکارتی ہے لیکن عسکری قیادت جس غیر معمولی قوت کا ذکر کررہی ہے اسے کیا نام دیا جائے گا اس حوالےسے سیاسی اصطلاحات کا دامن فی الوقت محدود دکھائی دیتا ہے لیکن ملکی سیاست کی مجموعی صورتحال کو ہم ’’سیاسی بیگانگی ‘‘سے تعبیر کرسکتے ہیں ۔
بات سماجی و معاشی ترقی کے حوالے سے ہوررہی تھی کہ ہم ترقی کی تلاش میں کیوں بھٹک رہے ہیں اس سوال کے جواب سے بہت کچھ لکھا اور کہا جاسکتا ہے لیکن بات اتنی سی ہے کہ جب تک ملکی سیاست میں ’’توزان‘‘ قائم نہیں ہوگا اس وقت تک ریاستی استحکام ممکن نہیں ہوگا اور جب ریاست سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار ہوگی تو ملک ترقی کے سفر پر کیونکر گامزن ہوسکتا ہے۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی سیاست میں طاقت کے توازن کو قائم کرنے کے لیے آئین اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کو ہر سطح پر تسلیم کیا جانا چاہئے تاکہ ہر ایک ریاستی ادارہ اپنی آئینی و قانونی حدود میں رہتے ہوئے اپنے فرائض کی انجام دہی دیانت داری و ایمانداری کرسکے ۔بصورت دیگر ہم سات دہائیوں سے ترقی کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں اور آگے بھی یوں ہی بھٹکتے رہیں گے ،لہذا الزام تراشیوں کی سیاست سے گریز کیا جانے چاہئے بالخصوص ریاستی اداروں پر انگلیاں نہیں اٹھنی چاہئے اور نہ ہی ریاستی اداروں کو کبھی وضاحتی پوزیشن پر ہونا چاہئے ۔ ایسے میں بر صغیر پاک و ہند(ٹیکسیلا) کے عظیم سیاسی و سماجی مفکر کوتلیہ چانکیہ کی کتاب ’’ارتھ شاشتر‘‘کا یہ مرکزی خیال یاد آگیا کہ سماجی ترقی کے لیے معاشی ترقی ضروری ہے اور معاشی ترقی کے لیے سیاسی استحکام کا ہونا ضروری ہے ۔لہٰذا سیاسی استحکام کے لیے بسا اوقات کڑوے گھونٹ بھی پینے پڑتے ہیں اور سماجی و معاشی ترقی کے لیے ہمیں یہ کڑوے گھونٹ پینے پڑتے ہیں تو پینے چاہئے جبکہ عوام کا یہ عالم ہے کہ اسے مہنگائی اور بے روزگاری کا مقابلہ کرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا گیا ہے جو بغیر کسی امید کے جی رہی ہے حالانکہ اس میں تو ایک ’’عظیم قوم ‘‘ بننے کی تمام تر صلاحیت موجود ہے لیکن اس کی اس صلاحیتوں کو توفکر معاش کی بھٹی میں جھونک دیا گیا ہے۔آخر میں بس اتنا کہ ملکی سیاست میں استحکام کے لیے وفاق اور صوبوں کے درمیان آئینی اختیارات سے تجاوز نہیں ہونا چاہئے اور ایسے ہی ریاستی اداروں کو اپنی آئینی و قانونی حدود سے باہر نہیں جانا چاہئے اگر ایسا ہوتا ہے تو سیاست میں اسٹیبلشمنٹ اور کسی بھی قسم کی دیو مالائی طاقت کا وجود باقی نہیں رہ پائے گا ۔بصورت دیگر سماجی ومعاشی ترقی کے دعوے اور نعرے محض خام خیالی اور اپنی ذات سے بیگانگی کے سوا کچھ بھی نہیں ہونگے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭