... loading ...
دوستو،آج آپ سے روٹین کی اوٹ پٹانگ باتوں کے ساتھ ساتھ کوشش کریں گے کہ آپ کو کچھ’’ معلوم آتی‘‘باتیں بھی شیئر کریں، آپ نے آج تک معلوم آتی کو ’’معلوماتی‘‘ ہی پڑھا بھی ہوگا اور لکھتے بھی ایسا ہی ہوں گے، لیکن ہم اسے ’’معلوم آتی‘‘ ہی کہتے ہیں کیوں کہ جب بھی ہم کسی بھی انسان سے کسی واقعہ کے بارے میں بتاتے ہیں تو اسے پہلے سے ہی علم ہوتا ہے۔۔ آپ کو اکثر ایسے لوگ ضرور ملتے ہوں گے کہ آپ کی بریکنگ نیوز اس کے سامنے زیرو ہوجاتی ہوگی۔۔ کیوں کہ اس کے چہرے کے تاثرات اور باڈی لینگویج سے لگتا ہے کہ جو کچھ آپ نے اسے بتایا وہ تو اسے پہلے سے ہی معلوم تھا۔۔ تو چلئے کچھ نئی باتیں جو ہمارے علم میں آئیں آپ سے شیئر کرتے چلیں۔۔
دوسروں کے لیے حسد، بغض اور کینہ رکھنے اور طنز کرنے سے ہمارا دین اسلام بھی سختی سے منع کرتا ہے اور اب سائنسدانوں نے بھی ان منفی عادات کے متعلق ایسا تشویشناک انکشاف کر دیا ہے کہ ان عادات کے مالک لوگ اپنے روئیے پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ امریکہ کی یونیورسٹی آف ٹینسی کے سائنسدانوں نے اپنی تحقیق میں بتایا ہے کہ دوسروں پر طنزکرنے، حسد، بغض اور کینہ جیسے منفی جذبات رکھنے والے لوگوں کی قبل از وقت موت ہونے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں دل کی بیماریوں میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں اور انہیں ہارٹ اٹیک زیادہ آتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس تحقیق میں سائنسدانوں نے ہارٹ اٹیک سے بچ نکلنے والے 2ہزار 300لوگوں میں روئیے کی عادات کا معائنہ کیا۔ نتائج میں معلوم ہوا کہ جو لوگ مذکورہ منفی عادات کے مالک تھے ان کو اگلے دو سال کے اندر ہی دوسری بار ہارٹ اٹیک آنے اور اس سے ان کی موت ہونے کا خطرہ مثبت جذبات رکھنے والے لوگوں کی نسبت کئی گنا زیادہ تھا۔ تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ ٹریسی ویٹوری کا کہنا تھا کہ ہماری تحقیق میں اس بات کے شواہد سامنے آئے ہیں کہ انسان کا ہمیشہ منفی سوچ اور منفی رویہ اپنائے رکھنا اس کی ذہنی و جسمانی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں میں اپنی دیکھ بھال کرنے کا رجحان بہت کم ہوتا ہے اور یہ لوگ سگریٹ و شراب نوشی کی طرف زیادہ راغب ہوتے ہیں۔ ان کی خوراک اور طرز زندگی انتہائی ناقص ہوتا ہے۔ یہی وہ وجوہات ہیں جو ان لوگوں میں دل کے عارضے سمیت دیگر امراض کا سبب بنتی ہیں اور ان کی جلد موت ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ماہرین فیس ماسک کی پابندی پر تو زور دیتے آ رہے تھے۔ اب انہوں نے عینک پہننے کے متعلق بھی نئی تحقیق میں ایک حیران کن انکشاف کر دیا ہے۔ چینی ماہرین نے اپنی اس تحقیق میں بتایا ہے کہ جو لوگ باہر نکلتے وقت ہمیشہ عینک پہنے رکھتے ہیں، ان کو کورونا وائرس لاحق ہونے کا خطرہ دوسروں کی نسبت کئی گنا کم ہوتا ہے۔ اس تحقیق میں جو مردوخواتین دن میں آٹھ گھنٹے نظر کی عینک پہنتے تھے انہیں وائرس لاحق ہونے کا خطرہ 5.8فیصد کم پایا گیا۔اس تحقیق میں نن چینگ یونیورسٹی کے ماہرین نے چینی صوبے ہیوبی میں ماہرین نے ہزاروں لوگوں کے چشمہ پہننے کی عادت اور ان کو وائرس لاحق ہونے کے امکان کا تجزیہ کرکے نتائج مرتب کیے ہیں۔۔رپورٹ کے مطابق کئی سابقہ تحقیقات میں بھی ثابت ہو چکا ہے کہ بیشتر لوگوں کو کورونا وائرس آنکھوں کے ذریعے لاحق ہوتا ہے۔ وائرس ان کی آنکھوں میں ہوا میں معلق لعاب کے قطروں سے یا ہاتھوں سے آنکھوں کو چھونے سے داخل ہوتا ہے۔ چنانچہ جن لوگوں نے عینک پہن رکھی ہو، وہ ان دونوں طریقوں سے آنکھوں میں وائرس داخل ہونے سے محفوظ رہتے ہیں۔
ٹرینوں کی جب ابتدا ہوئی تو اس وقت کسی بھی ٹرین میں واش روم نہیں ہوتا تھا۔۔ لگا ناں جھٹکا۔۔؟؟ٹرین کے اندر واش روم کب شروع ہوا؟یہ انیس سو نو کی بات ہے ، ٹرین میں سفر کرنے والے ایک بنگالی ہندو مسافر’’اوکھیل چندراسین‘‘ نے ریلوے افسر کو دلچسپ شکایتی مراسلہ لکھا، جو کچھ یوں تھا۔۔جناب ڈویژنل ریلوے آفیسر!میں ریل پہ سفر کررہا تھا۔ بسیار خوراکی کے سبب میرے پیٹ میں شدید مروڑ اٹھنے لگے۔ ریل احمد پورا سٹیشن پر رکی تو میں حاجت کے لیے اترگیا۔ابھی حاجت روائی جاری تھی کہ ناس پیٹے گارڈ نے سیٹی بجادی۔ سیٹی سن کر میں سٹپٹاگیا اور اس عالم میں دوڑ لگائی کہ ایک ہاتھ میں لوٹا اور دوسرے ہاتھ سے میں نے لنگوٹ پکڑا ہوا تھا۔ریل کو جا لینے کی تگ و دو میں دھڑام سے گر پڑا۔ ریلوے اسٹیشن پر موجود کیا خواتین اور کیا حضرات سبھی نے میرے کھلے پچھواڑے کے خوب خوب نظارے کیے۔ یوں دیکھتے دیکھتے ہاتھ سے عزت بھی گئی اور ریل بھی گئی۔محترم!میرے اس ہمہ جہت نقصان کا ذمہ دار وہ ناہنجار گارڈ ہے جس نے بے وقت سیٹی بجائی۔میری درخواست ہے کہ اس گارڈ پر تگڑا جرمانہ عائد کریں۔ اگر نہیں، تو پھر میں اخبارات کو واقعے سے متعلق تگڑی خبریں دینے والا ہوں۔۔فضل الرحمن قاضی صاحب اپنی کتاب ۔۔وداد ریل کی۔۔ میں لکھتے ہیں کہ اوکھیل چندراسین کا یہ خط دہلی میں ریلوے کے عجائب گھر میں آج بھی محفوظ ہے۔یہ وہ تاریخی خط ہے جس کے نتیجے میں انگریز سرکار نے ہندوستان میں پہلی بار ریل کے اندر واش روم کی سہولت شروع کرنے کا حکم جاری کیا۔
موبائل فون بلاشبہ یہ وہ واحد سائنسی ایجاد ہے جو خریدکر،چھین کریاچوری کرکے بھی استعمال کی جاتی ہے،ہمارے پیارے دوست سے ان کے ایک دوست نے شکوہ کیا،تم میرا فون نہیں اٹھاتے،اب اُن کے دوست کا موبائل ہمارے پیارے دوست کے پاس ہوتا ہے کیوں کہ وہ اگلے ہی روز اس کا فون ’’اٹھا‘‘ لائے۔۔ذرا ایک منٹ کے لئے تصورکریں، اگر موبائل فون ’’ میڈان لہور‘‘ ہوتا تواس کے ’’فیچرز‘‘ کس طرح کے ہوتے ؟؟۔۔ پلے اسٹور پر لکھا ہوتا، مفت دا مال۔۔کانٹیکٹ کی جگہ لکھاہوتا، یارسجن۔۔ ڈائل پہ ہوتا، خرچ کر۔۔ اسکائپ پہ لکھاہوتا، فری چہ گلاں۔۔ واٹس ایپ کی جگہ ہوتا،لگا رہ۔۔سیٹنگ کی جگہ ہوتا، مکینکی کر،۔۔ گیلری کی جگہ تصویراں ہوتا، یوٹیوب پر ہوتا،گانے ویکھ،براؤزر کی جگہ لکھاہوتا، نیٹ کھول، فیس بک کی جگہ ہوتا، ویکھ دا رہ اور میپ کی جگہ ہوتا، رُلدا رے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔جن لوگوں کا کہیں بھی جی نہیں لگتا وہ میرے نام کے آگے جی لگاسکتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔