... loading ...
آج سے 19 برس قبل نائن الیون کے ایک غیر معمولی واقعہ نے اچانک سے عالمی سیاست کو جو غیر ضروری وسعت اور پھیلاؤ دے دیا تھا ،اَب وہی عالمی منظر نامہ آہستہ آہستہ واپس اپنے اصل کی جانب تیزی کے ساتھ سکڑنا شروع ہو چکا ہے ۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی شخص کو اپنی چادر سے بہت زیادہ پاؤں پھیلانے کے بعد،کسی دن اچانک ہی احساس ہو جائے کہ وہ اپنے دستیاب وسائل سے کہیں زیادہ اپنی ضروریات کو بڑھا کر سنگین غلطی کرچکا ہے۔ کوئی سمجھنا چاہے تو اصل حقیقت بس،یہی ہے کہ امریکا سمیت دنیا کے بیشتر ممالک نے نائن الیون واقعہ کے بعد اپنے سیاسی مفادات کو اتنا زیادہ وسعت دے کر پھیلاؤ دے دیا تھا کہ اَب اُنہیں دنیا بھر میں جگہ جگہ اپنے پھیلائے ہوئے سیاسی مفادات کا تحفظ کرنے میں شدید مشکلات اور دشواری کا سامنا کرنا پڑرہاہے اور اَب وہ چاہتے ہیں کہ انہیں کسی نہ کسی طرح باعزت واپسی کا راستا مل جائے ۔ مگر افسوس باعزت واپسی کا راستا دینے والے ،اپنے حریفوں کی معاشی و سیاسی کمزوریوں سے نہ صرف پوری طرح سے آگاہ ہیں بلکہ وہ ان خامیوں کو استعمال کرکے اپنے لیے زیادہ سے زیادہ سیاسی فوائد اور معاشی گنجائشیں سمیٹنے کے فراق میں بھی دکھائی دیتے ہیں ۔
بظاہر افغانستان میں دیرپا امن قائم کرنے کے لیے ایک بار پھر سے طالبان اور اُس کے حریفوں کے درمیان مذاکرات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ ان مذاکرات کی کامیابی کے ساتھ فقط افغانستان کا امن ہی نہیں بلکہ امریکا سمیت دنیا کے کئی دیگر ممالک کا معاشی و سیاسی اَمن بھی وابستہ ہوچکا ہے ۔ جسے جلد ازجلد حاصل کرنے کے لیے طالبان کو جنگ کے میدان سے اُٹھا کر مذاکرت کی میز پر بٹھا کر رام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ مگر لگتا یہ ہے کہ مذاکرات کی میز پر افغان طالبان کو کوئی جلدی نہیں ہے بلکہ وہ تو اپنے حریف امریکا کی عجلت پسندی سے خوب محظوظ ہورہے ہیں ۔ اس لیے جب یہ خبریں عالمی ذرائع ابلاغ کی زینت بننے لگتی ہیں کہ افغان امن مذاکرات میں تعطل آنے لگا ہے ،تو خیال آتا ہے کہ کہیں امریکا کی سیاسی ساکھ کو زک پہنچانے کے لیے طالبان کی جانب سے جان بوجھ کر مذاکرات کو معطل تو نہیں کیا جارہاہے اور طالبان کی پشت پر موجود چین اور روس جیسے ممالک مزید کچھ وقت کے لیے امریکا کو افغانستان کی بے آب وگیاہ سرزمین پر اُلجھائے تو رکھنا نہیں چاہتے ہیں ۔
بعض سیاسی تجزیہ کاروں کو تو یہ بھی اندیشہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دوبارہ سے امریکا کا صدر بننے سے روکنے کے لیے بھی افغان امن مذاکرات میں باربار تعطل پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔تاکہ امریکی صدر ٹرمپ جب قومی مباحثہ میں امریکی عوام کے سامنے پیش ہوں تو اُن کے پاس یہ دعویٰ کرنے کو سرے سے الفاظ ہی نہ ہوں کہ ’’انہوں نے افغانستان سے امریکی افواج نکالنے کا اپنا انتخابی وعدہ پورا کردیاہے‘‘۔یادر رہے کہ حالیہ انتخابات میں صدر ٹرمپ کی جیت کے لیے افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء ایک ایسی جادوئی کلید کی حیثیت رکھتاہے،جس کی مدد کے بغیر صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر دوسری مدتِ صدارت کے لیے وائٹ ہاؤس کا دروازہ نہیں کھل سکتا ۔ کیونکہ گزشتہ چاربرسوں میں ٹرمپ نے جس وعدہ کا امریکی عوام کے سامنے باربار اعادہ کیا ہے،وہ یہ ہی وعدہ تھا کہ ’’میں بہر صورت امریکی افواج کا افغانستان سے انخلاء یقینی بناؤں گا ‘‘۔ دوسری جانب امریکی عوام کی ایک بڑی اکثریت چونکہ افغانستان کی جنگ کے ہاتھوں بہت زیادہ جانی و مالی نقصان برداشت کرچکی ہے ۔لہٰذا وہ اس جنگ کو جاری رکھنا اپنے ملک کے لیے ایک تکلیف دہ ناسور سمجھتی ہے ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ حالیہ انتخابات سے قبل افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کا وعدہ پورا کیے بغیر صدر ٹرمپ کے لیے امریکی صدارتی ا نتخاب جیتنا بہت مشکل ہوگا۔ اس مخدوش صورت حال کا ادراک خود صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی بخوبی ہے ۔شاید اسی لیے انتخابی مباحثہ کا آغاز ہونے سے قبل قطرمیں طالبان کے سامنے افغان امن مذاکرات کی میز ایک بار پھر سے سجادی گئی ہے ۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ افغان امن مذاکرات کی کامیابی کادارامدار صرف طالبان پر ہی نہیں ہے بلکہ افغان حکومت کے نامزد کردہ وفد کی مخلصانہ سنجیدگی پر بھی منحصر ہے ۔جن کے بارے میں پہلے روز سے ہی دنیا بھر میں یہ تاثر پایا جاتاہے کہ افغانستان کی موجودہ حکومت کسی بھی صورت میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی نہیں چاہتی کیونکہ اشرف غنی کی حکومت سمجھتی ہے کہ افغانستان میں طالبان کا اقتدار قائم ہوجانے کے بعد سب سے زیادہ خسارے میں و ہی رہیں گے۔ اس لیے اُن کی بھرپور کوشش ہوگی کہ جوبائیڈن کے امریکی صدر منتخب ہونے تک افغان امن مذاکرات کو طول دے دیا جائے اور پھر نئے امریکی صدر جو بائیڈن کو طالبان سے مذاکرات نہ کرنے پر آمادہ کرلیا جائے۔
دنیا بھر میں بکھرا ہوا سیاسی و عسکری سازشوں کا سامان سمیٹنے کی جلدی صرف امریکا کو ہی نہیں ہے بلکہ اسرائیل جو کہ حقیقی معنوں میں امریکا کی ایک لے پالک ریاست ہے ۔اُس کی جانب سے بھی اپنے آپ کو یک ملکی حدود تک محدود ہونے کے لیے زبردست عجلت کا مظاہرہ کیا جارہاہے۔ اسرائیل جس نے کبھی امریکی پشت پناہی سے عرب ممالک کی ناک میں دم کیا ہوا تھا ،آج کل عرب حکمرانوں کی راہ میں اپنے دیدہ و دل بچھائے نظر آتاہے۔ اسرائیل متحدہ عرب امارات اور بحرین سے اپنے مضبوط سفارتی روابط باقاعدہ استوار کرچکا ہے ۔جبکہ دیگر عرب ممالک کے ساتھ بھی سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے خفیہ طور پر سلسلۂ جنبانی جاری ہے ۔ اطلاعات یہ ہیں کہ کم ازکم مزید چارعرب ممالک اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات استوار کرنے کے لیے راضی بھی ہوچکے ہیں ۔ جو جلد ہی اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کا سرکاری سطح پر اعلان بھی کردیں گے۔
اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ سعودی عرب بھی در پردہ اسرائیل کے پلڑے میں اپنا تمام تر سفارتی وزن ڈال چکا ہے ۔ بس سعودی عرب کی آخری خواہش یہ ہے کہ تمام عرب ممالک جب اسرائیل کی سفارتی پناہ حاصل کرلیں گے تو اُس کے بعد وہ بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرکے اسرائیلی ریاست کی تخلیق پر اپنی مہر تصدیق ثبت فرمادے گا اور یوں مسلم ممالک کے منظوری کے ساتھ ہی عظیم تر اسرائیلی ریاست میں واقع بیت المقدس پر صیہونیوں کا حق ملکیت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قائم ہوجائے گا۔ لیکن صدی کی اس ڈیل میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان ہے کیونکہ تمام عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ وسیع تر سفارتی تعلقات قائم ہوجانے کے بعد بھی اگر ایک بڑی مسلم اکثریتی ریاست پاکستان نے اسرائیل کے وجود کو سرے سے تسلیم ہی نہ کیا تو اسرائیل کا وجود بہرحال ایک متنازع ریاست ہی کے ذمرے میں ہی شامل سمجھا جائے گا۔ چونکہ اسرائیل اس صورت حال کا مکمل ادراک رکھتا ہے ۔ لہٰذا اسرائیل کی بھرپور کوشش ہوگی کہ وہ عرب ممالک اور امریکا کی مدد سے پاکستان پر سیاسی ،سفارتی و معاشی دباؤ ڈال کر پاکستانیوں کو اپنے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے مجبور کرے ۔اَب یہاں آنے والے ایام میں پاکستان کی قیادت کی صلاحیتوں کا ایک مشکل امتحان شروع ہوگا کہ اسرائیل کے معاملہ پروہ دشمن ممالک کے ساتھ ساتھ حلیف اور دوست ممالک کے سیاسی و سفارتی دباؤ کو کس طرح سے برداشت کرپاتے ہیں۔
اسرائیل کو تسلیم کرنے علاوہ چین کے ساتھ اپنی دوستی پر نظر ثانی کرنا بھی ایک ایسا معاملہ ہے ،جس کے لیے امریکا ،اسرائیل اور بعض طاقت ور عرب ممالک کی جانب سے پاکستان کوقائل کرنے اور ہر طرح کا دباؤ ڈالنے کی بھرپورکوشش کی جائے گی ۔کیونکہ امریکا اور اس کے حلیف ممالک دنیا بھر میں اپنی بکھری ہوئی سیاسی و عسکری قوت کو مجتمع کرکے چین کے خلاف پورے قد کے ساتھ جنگ کے لیے کھڑا ہونا چاہتے ہیں اور یہ جب ہی ممکن ہے کہ چین دنیا بھر میں نہ سہی، کم ازکم اپنے علاقہ میں ہی کچھ دیر کے لیے تنہا و اکیلا کردیاجائے ۔ تاکہ چین کے خلاف وسیع تر عسکری اتحاد قائم کرنے والے ممالک ، اپنی پوری عسکری طاقت و صلاحیت کے ساتھ اس پر ٹوٹ پڑیں ۔ لیکن یہ شاید اُس وقت تک ممکن نہیں ہوسکے گا، جب تک چین اپنے علاقہ میں روس اور پاکستان جیسے قابلِ اعتماد حلیف رکھتاہے۔
سادہ لفظوں میں آپ سمجھ سکتے ہیں کہ افغانستان میں امن مذاکرات کا معاملہ ہویا اسرائیلی ریاست کو دنیا بھر میں مستحکم کرنے کی بات یا پھر چین کے ساتھ عسکری چھیڑ چھاڑ کے مذموم ارادے بہر حال ان تمام عالمی معاملات کی اُلجھی گتھیاں کہیں نہیں کہیں آکر براہ راست پاکستان کی سا لمیت کے ساتھ منسلک ہوجاتی ہیں ۔یعنی تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے کی بساط پر پاکستان کی حیثیت اُس اہم ترین کھلاڑی جیسی ہے ،جس کی مدد کے بغیر نہ تو کوئی پیادہ اپنی مرضی سے دو قدم آگے بڑھا سکتا ہے اور نہ بساطِ سیاست پر موجود بادشاہ اپنی حفاظت کو اپنے دشمنوںسے یقینی بناسکتاہے۔ اس لیے عالمی بساط پر اپنے مہروں کو لڑانے کے لیے اور بادشاہ کو بچانے کے لیے پاکستان کی ضرورت سب کو ہی ہوگی ،لہٰذا عالمی بساط پر مستقبل میں جیتنے کی خواہش رکھنے والوں کو بھی اور ہارنے کا ڈر پالنے والوں کوبھی کھیل ختم ہونے سے پہلے پاکستان کی جانب سے چلی جانے والی اہم ترین ،آخری چال کا ضرور انتظار کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر عالمی بساط اُلٹ بھی سکتی ہے اوربرسوں کا بنابنایا کھیل صرف چند لمحات میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم بھی ہوسکتاہے۔
٭٭٭٭٭٭٭