وجود

... loading ...

وجود

کراچی جیساہے ویسا ہی رہے گا؟

جمعرات 17 ستمبر 2020 کراچی جیساہے ویسا ہی رہے گا؟

کتنی افسوس ناک بات ہے کہ کراچی جب تک بارش کے پانی میں ڈوبا ہوا تھا ،اُس وقت تک پاکستان پیپلزپارٹی اور سندھ حکومت کے ترجمانوں کے کراچی کو بچانے ،بنانے اور سنوارنے کے بلند بانگ دعوے سننے والے تھے ۔لیکن جیسے ہی شہر کراچی پر سے بارشوں کا زور کم ہونا شروع ہوا ،ویسے ہی سندھ حکومت ایک بار پھر سے کراچی کو نظر انداز کرنے کی اپنی برسوں پرانی پالیسی پر عمل پیرا ہونا شروع ہوگئی ہے۔ لگتا ہے کہ کراچی پیکیج کی مختصر سی زندگی بھی بس تب تک ہی تھی جب تک کراچی کے بے بس و لاچار شہری بارش کے گندے پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ شہر میں معمولاتِ زندگی ،ذرا سے بحال کیا ہوئے کہ کراچی پیکج کے نام پر بھی نت نئی کمیٹیاں قائم ہونا شروع ہوچکی ہیں اور ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ ہمارے ملک میں حکمرانوں کی جانب سے قائم کی جانے والی کمیٹیوں کی تاریخ کتنی زیادہ تلخ ہے۔ اَب تو پاکستانی سیاست میں یہ مثل زبان زدِ عام ہوچکی ہے کہ ’’حکومت وقت نے جس کا م کو نہ کرنا ہو،اُس کے لیے حکمران ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کردیتے ہیں‘‘۔ کراچی پیکیج پر یکے بعد دیگرے مشاورتی کمیٹیوں کا اعلان، عام آدمی کے ذہن میں شکوک و شبہات پیدا کررہا ہے کہ کیا بہت جلد کراچی پیکیج کے لیے اعلان کردہ اربوں روپے بھی سندھ حکومت کی انتظامی اور سیاسی سرگرمیوں کی نذر ہوجائیں گے اورشہر کراچی کی قسمت میں فقط چند اعلیٰ سطحی کمیٹیاں ہی رہ جائیں گی؟
کراچی کے دیرینہ مسائل اگر حکمرانوں کی قائم کردہ کمیٹیوں ہی سے حل ہونے ہوتے تو نہ جانے کب کے حل ہوچکے ہوتے ،کیونکہ سرکلر ریلوے کی تعمیر سے لے کر سیوریج لائن کی تنصیب تک اور عوامی ٹرانسپورٹ کی بحالی سے لے کرپینے کے صاف پانی کی فراہمی سمیت کراچی کا وہ کون سا ایسا مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے ماضی میں اعلیٰ سطحی کمیٹیاں نہ قائم کی گئی ہوں۔مگر کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ کراچی شہر کے جس مسئلہ کے حل کے لیے بھی حکمرانوں نے کمیٹی قائم کی ،وہ مسئلہ پہلے سے بھی زیادہ گنجلک اور پیچیدہ تر ہوتا گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ کراچی کے مسائل حل کرنے کے لیئے اعلیٰ سطحی کمیٹیوں کی جگہ بس ذرہ برابر خلوص نیت کی ضرورت تھی لیکن افسوس صد افسوس کہ یہ ہی وہ نایاب ترین شے ہے ،جو ہمیشہ سے کراچی پر حکمرانی کرنے والوں میں عنقا رہی ہے۔ کراچی کی بدترین زبوں حالی کے بعد بھی حکمرانوں کی سیاسی و انتظامی خلوص نیت کا یہ عالم ہے کہ وہ آج کے بدترین حالات میں بھی اس شہر کے باسیوں کو انتظامی اختیارات دینے کے بجائے ،اُلٹا ان کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں ۔ کراچی کے وسائل پر زیادہ سے زیادہ قبضہ کی سیاسی خواہش نے شہر کے حکمرانوں کوذہنی طور پر قائل کیا ہوا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے مگر وہ کسی بھی صورت اہلیانِ کراچی تک انتظامی اختیارات پہنچنے نہیں دیں گے۔
تاریخ گواہ ہے کہ کراچی کے تمام مسائل کے حل لیے فقط ایک عدد منتخب میئر ہی کافی و شافی ہے ،بشرطے کہ وہ میئر، شہر کراچی کا صحیح معنوں میں نہ صرف انتخابی مینڈیٹ رکھتا ہو بلکہ اس کا تعلق کراچی سے بھی ہو۔سابق میئر کراچی نعمت اللہ خان اور مصطفی کمال اس کی دو بہترین مثالیں ہیں ۔چونکہ یہ دونوں میئر ، شہر کراچی کے ساتھ ایک خاص قلبی تعلق رکھتے تھے ۔لہٰذا ان کے دورِ نظامت میں شہر کراچی کے باسیوں نے اپنے مسائل حقیقی معنوں میں حل ہوتے ہوئے بھی دیکھے ۔ حالانکہ ان دونوں شخصیات کے پاس نہ تو جادو کی کوئی چھڑی تھی اور نہ ان کی پشت پر اعلیٰ سطحی کمیٹیوں کا تام جھام تھالیکن اس کے باوجودیہ نابغہ روزگار افراد فقط اس لیے کراچی کے دیرینہ مسائل کسی نہ کسی حد تک حل کرنے میں کامیاب رہے کہ یہ دونوں کم از کم خلوص نیت سے پوری طرح لبریز تھے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اہلیان کراچی نعمت اللہ خان اور مصطفی کمال کے دورِ نظامت کو آج بھی بڑی شدت کے ساتھ یاد کرتے ہیں جبکہ ان کے مقابلہ میں کراچی پر حکمرانی کرنے والے حالیہ نام نہاد حکمرانوں کو جن القابات سے شہر کے گلی محلوں میں نوازا جاتاہے ،اُن کا ہلکا سا بھی تذکرہ مذکورہ کالم اس لیے نہیں برداشت کرسکتا کہ زبان ِ خلق کی جانب سے کراچی کے حالیہ حکمرانوں کی شان میں ادا کیے جانے والے الفاظ، دبستانِ اخلاق کے ذمرے میںشمارنہیں کیے جا سکتے۔
ویسے تو کراچی کی زبان خلق سے ادا ہونے والے الفاظ کی اس شہر پر حکومت کرنے والوں کو کوئی خاص پرواہ بھی نہیں ہے ۔کیونکہ ان کا خیال ہے کہ جس شہر کے باسی اُن کی سیاسی جماعت کو ووٹ ہی نہ دیتے ہوں ،اُن بدبختوں کو اپنی اٹھارویں ترمیم کی طاقت میں آخر بلاوجہ ہی کیوں شریک کیا جائے؟ صرف اس ڈر اور خوف میں کہ کہیں کراچی شہر کے حقیقی بلدیاتی نمائندے منتخب ہوکر شہر کی نظامت تک نہ پہنچ جائیں ،سندھ حکومت نے صوبہ بھر میں فی الفور بلدیاتی انتخابات کروانے سے صاف انکار کردیا ہے ۔ حالانکہ اگر آج صوبہ بھر میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن ہوجائے تو پاکستان پیپلزپارٹی کراچی کے علاوہ صوبے بھر میں اپنے بلدیاتی نمائندے منتخب کروانے میں بآسانی کامیاب ہوجائے گی لیکن چونکہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات میں جیت پانا،فی الحال پیپلزپارٹی کو کم و بیش ناممکن ہی نظر آتا ہے ۔لہٰذا مردم شماری کے نتائج کا بہانا بناکر ہر ممکن طریقہ سے سندھ میں اگلے دو سال تک بلدیاتی انتخابات کروانے سے اجتناب برتا جائے گا اور بھرپور سیاسی و انتظامی کوشش کی جائے گی کہ اس عرصہ میں کراچی کو اپنے نامزد کردہ ایڈمنسٹریٹر کی مدد سے ہی جب تک ممکن ہو سکتا ہے، اپنے قابو میں ہی رکھا جائے ۔حالانکہ ہمیں پیپلزپارٹی کی اس سیاسی حکمت عملی پرقطعاً کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن کبھی کبھی بس دل میں یہ ہول سا اُٹھتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی کراچی پر قبضہ کی یہ بے پناہ خواہش ،کہیں اگلے سال ایک بار پھر سے کراچی کو بارشوں میں ڈبو نہ دے۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
مریم نواز کا مصافحہ! وجود هفته 11 جنوری 2025
مریم نواز کا مصافحہ!

ڈونلڈ ٹرمپ کا ارادہ اور گرین لینڈ وجود هفته 11 جنوری 2025
ڈونلڈ ٹرمپ کا ارادہ اور گرین لینڈ

جمہور اور جمہوریت وجود هفته 11 جنوری 2025
جمہور اور جمہوریت

خود کو بدلیں! وجود جمعه 10 جنوری 2025
خود کو بدلیں!

امریکہ میں مقیم مسلمانوں میں بے چینی وجود جمعه 10 جنوری 2025
امریکہ میں مقیم مسلمانوں میں بے چینی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر