... loading ...
زبوں حال کراچی کی ازسرنوتعمیر وترقی کے لیے وزیراعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے اپنے حالیہ دورہ کراچی میں جو گیارہ سوارب سے زائد روپوں کے ترقیاتی پیکج کا اعلان کیا گیا ہے ۔ یقینا اس لحاظ سے اِسے ایک تاریخ ساز ترقیاتی پیکج قرار دیا جاسکتاہے کہ کہ آج تک کسی بھی شہر کی تعمیر و ترقی کے لیے اتنی خطیر رقم کے یکشمت ترقیاتی پیکج کا اعلان نہیںکیا گیا۔بلاشبہ یہ ترقیاتی پیکج کراچی کے باسیوں کے لیے ایک نعمت غیر متبرکہ سے کم نہیں ہے لیکن سندھ حکومت کی انتظامی قابلیت و سیاسی چال بازیوں کے ’’الم ناک ماضی ‘‘ کے تجربہ کو مدنظر رکھتے ہوئے شہر بھر میں بس یہ ہی ایک جملہ زبان زدِ عام ہے کہ ’’کتنے پیسے کراچی کی ترقی پر لگیں گے اور کتنے روپے کرپشن کی بھینٹ چڑھا دیئے جائیں گے؟‘‘۔بعض مایوس لوگوں کا خیال ہے کہ ’’ایک روپیہ بھی کراچی پر لگایا نہیں جائے گا ‘‘۔جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ ’’ترقیاتی پیکج کاستر فیصد روپیہ کرپشن کی نذر ہوجائے گا اور بقایا تیس فیصد سے شہر کراچی کی جتنی لیپاپوتی کی جاسکتی ہے وہ کردی جائے گی ‘‘۔چند شہریوں کے مطابق ’’اگر مقتدر حلقوں کی جانب سے بہت زیادہ سخت مانیٹرنگ بھی ہوئی تو پچاس فیصد پیسے کراچی پر لگا کر بقایا سے کرپشن کا کاروبار منظم کرنے کی کوشش کی جائے گی‘‘۔یعنی کتنی عجیب بات ہے کہ آپ کو پورے شہر کراچی میں کوئی ایک ایسا شہری ڈھونڈے سے بھی نہیں مل سکے گا جسے اپنی حکومت پر بس اتنا سا یقین ہو اور وہ یہ کہہ سکے کہ ’’ سندھ حکومت گیارہ سو ارب روپے کی ساری رقم کراچی کی تعمیر و ترقی پر ایمانتداری سے بھی خرچ کر سکتی ہے ‘‘۔
ہمارے حکمرانوں کی یہ وہ منفرد ’’سیاسی ساکھ ‘‘ ہے ،جس کے بل بوتے پر وہ ایک نئے کراچی کی نیو رکھنے چلے ہیں ۔ کراچی کو بچانے ،بنانے ، سنوارنے اور نکھارنے کے لایعنی دعوے سندھ پر حقِ حکمرانی رکھنے والی ہر سیاسی جماعت کی جانب سے ہرروز پوری شد و مد کے ساتھ منصہ شہود پر یکے بعد دیگرے پیش کیے جارہے ہیں ۔الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے اُفق پرشہہ شرخیوں اور بریکنگ نیوز کی صورت میں ’’سیاسی دعووں ‘‘ کی ایک ایسی بے ہنگم سیاسی دوڑ کا آغاز ہوچکا ہے ، جس میں ہر سیاسی جماعت صرف جیتنا چاہتی ہے اور اپنی مقابل حریف سیاسی جماعت کو شکستِ فاش سے دوچار کرناچاہتی ہے ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت کا سربراہ اپنی دانست میں یہ ظاہر کرنے کی بھرپور کوشش کر رہاہے کہ جیسے اُس کے دل میں کراچی کے مکینوں کے لیے جتنا دُکھ، درد اور تکلیف ہے ،اُتنی تکلیف کا احساس تو شاید اہلِ کراچی کو خود بھی اپنا نہ ہو۔ ہوسکتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے اس جذبہ میں کچھ نہ کچھ سچائی بھی ہو لیکن اہلیانِ کراچی گزشتہ چالیس برسوں میں سیاسی حکمرانوں کے وہ وہ بھیانک سیاسی روپ اور بہروپ دیکھ چکے ہیں کہ اَب انہیں اپنے سیاسی سربراہوں کی کسی سچائی پر بھی یقین نہیں رہا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ کراچی کے باسی اپنے شہر ِ خراب حال کی تعمیر و ترقی کے لیے سیاسی حل کے بجائے ایک ایسے غیر سیاسی حل یا نسخہ کے انتظار میں ہیں اور یہ غیر سیاسی حل یا نسخہ بھی ایسا ہونا چاہئے،جو نہ صرف حال کی سیاسی آلودگی سے پاک ہو بلکہ اِس میں ماضی کی سیاسی آمیزش کرنے سے بھی پرہیز ہی کیا جائے ۔
یادررہے کہ کراچی پیکج بھلے کتنا ہی خوش کن سہی ،لیکن بہرحال یہ کراچی کے دیرینہ مسائل کا حل کسی بھی صورت نہیں ہے ۔ ہاں ! یہ ضرور ہے کہ اگر کراچی پیکج پر اس کی روح کے عین مطابق ایمانت داری کے ساتھ عمل پیرا ہوا جائے تو شہر کی حالت کو از سر نو سدھارنے کے لیے انتظامی اداروں کو طویل المیعاد منصوبہ بندی کرنے کے لیے کچھ وقت ضرور مل جائے گا ،بعد ازاں جس سے استفادہ کرتے ہوئے شہر کراچی میں انتظامی نوعیت کی انقلابی تبدیلیاں کا آغاز کیا جاسکتاہے ۔ مگر پھر اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کراچی کے کون سے انتظامی ادارے کراچی پیکج پر عمل درآمد کے بنیادی طورپر ذمہ دار ہوں گے؟۔ اگر وفاقی حکومت کی راگنی سنی جائے تو معلوم ہوتاہے کہ کراچی پیکج پر 70 فیصد عمل درآمد وفاقی ادارے کریں گے اور سندھ حکومت کے ماتحت ادارے بس ضروری معاونت فراہم کریں گے۔ لیکن دوسری جانب سندھ حکومت کے ترجمانوں کے روز بروز جاری ہونے والے سیاسی بیانات کے مطابق کراچی پیکج پر سو فیصد سندھ حکومت کے ماتحت ادارے ہی عمل کریں گے اور وفاق، کراچی پیکج کی مد میں اپنے حصہ کے پیسے فراہم کرنے کے بعد بس اپنے کام سے کام رکھے۔ہمیں ڈر ہے کہ ’’کراچی پیکج ‘‘ پر سندھ حکومت اور وفاقی حکومت کی آپس کی چھینا چھپٹی اور سیاسی آپادھاپی میں کہیں ’’کراچی پیکج ‘‘ کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں نہ پھوٹ جائے اور کراچی کی عوام جس کی تمام نظریں ’’کراچی پیکج ‘‘ کی ہنڈیا سے نکلنے والے انتظامی ثمرات پر ٹکی ہوئی ہیں ۔کہیں اِس بار بھی ان کے حصہ میں سیاسی و انتظامی مایوسی کا فقط ’’ملغوبہ ‘‘ ہی نہ آئے ۔
ایک بات تو پوری طرح اظہر من الشمس ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ’’کراچی پیکج ‘‘ کے جتنا زیادہ دام بڑھتے جائیں گے ، ویسے ویسے کراچی کے عوام کو زیرِ دام لانے کے لیے ’’سیاسی صیاد‘‘ بھی نئے نئے پھندے لگاتے جائیں گے۔ جیسا کہ خبریں گرم ہیں کہ روشنیوں کے شہر کراچی کی بحالی کے لیے کئی بین الاقوامی مالیاتی ادارے بھی ’’کراچی پیکج ‘‘ میں اپنے اپنے دام شامل کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔اِس طرح کی خبروں نے بھی ’’سیاسی صیادوں ‘‘ کی اُمیدوں کو بڑھاوا دینا شروع کردیا ہے ۔ اَب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں اہالیانِ کراچی کو ’’کراچی پیکج ‘‘ سے دام ملتے ہیں یا پھر انہیں اب کی بار بھی ’’سیاسی صیاد‘‘ اپنے کسی دام میں پھانس لینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ؟۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔