وجود

... loading ...

وجود

حیات بلوچ اور مدثر مینگل کا بہیمانہ قتل

هفته 05 ستمبر 2020 حیات بلوچ اور مدثر مینگل کا بہیمانہ قتل

نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے درست نشان ہی کی ہے کہ صوبے میں لاپتہ افراد کا مسلہ عسکریت پسندی سے تعلق ر کھتا ہے ، شورش ختم نہ ہو،امن قائم نہ ہو ،اور مذاکرات نہ ہوں تو یہ مسائل موجود رہیں گے ۔گویا اس آگ میں بے گناہوں کے بھسم ہونے کا احتمال رہے گا ۔حیات بلوچ کسی خبطی و شقی القلب اہلکار کے ہاتھوں پیوند خاک ہو گا تو کوئی معصوم مدثر مینگل کسی سفاک اور بے درد عسکریت پسند کے بم حملے کا نشانہ بنے گا۔تضادات ہی ہوں گے ۔منفی و خلاف حقیقت ابلاغ ہو گا۔ اورعوام کے سامنے حالات و واقعات کی دھندلی تصویر ہو گی ۔طالب علم حیات بلوچ کے قتل کا سانحہ بہت ہی دردناک تھا ۔ جس کا فر نٹئیر کور کے ایک اہلکار نائیک شاہدی اللہ نے 13اگست 2020ء کو ضلع کیچ (تربت) میںآبسر کے علاقے میں بہیمانہ طور پر فائرنگ کرکے قتل کردیا۔حیات بلوچ کراچی یونیورسٹی میں شعبہ فزیالوجی میں بی ایس فائنل ایئر کا طالب علم تھا اور کورونا کی وجہ سے چھٹیوں پر اپنے آبائی علاقے آیا ہوا تھا۔ اس دن فرنٹیئر کورکی گاڑی پر بم حملہ ہوا ، نتیجے میں تین اہلکار زخمی ہوگئے۔ دھماکے کے بعد اہلکاروں نے ہوائی فائرنگ کی اور قریب کھجور کے باغ میں مشتبہ افراد کے تعاقب میں گھس گئے۔ حیات بلوچ اس وقت اپنے بوڑھے والد اور والدہ کے ساتھ باغ میں ہاتھ بٹانے میں مصروف تھا۔ اہلکار اسے پکڑ کر باغ سے باہر سڑک پر لے آئے۔ اور فریاد و التجائیں کرتے بوڑھے والدین کے سامنے جواں سال حیات پر گولیاں برسادیں ۔چناں چہ رفتہ رفتہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر لوگوں نے بولنا شروع کیا۔ کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں اور ملک کے دیگر شہروں میں مظاہرے ہوئے۔ سینیٹ آف پاکستان، بلوچستان اسمبلی اور سندھ اسمبلی میں مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین بولے۔ بجا طورمتاثرہ خاندان کو انصاف دلانے اور قاتل اہلکارکو سزا دینے کا مطالبہ کیا ۔بعض حلقوں نے یہ موقع افواج اور ریاست کے خلاف ہاتھ سے جانے نہ دیا ۔یہ بات پیش نظر رہے کہ ایف سی حکام نے ملزم اہلکار کو تحفظ دینے اور اس کی پردہ داری کرنے کی بجائے واقعہ ذرائع ابلاغ پر رپورٹ ہونے سے پہلے ہی یعنی چند گھنٹوں میں پولیس کے حوالے کردیا تھا۔مقتول کے والد مرزا نے تھانے میں ملزم کی شناخت کرلی۔20 اگست کو ملزم نے خود بھی جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے اعترافِ جرم کرلیا ۔جس کے بعد ان پر قتل اور دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج ہوا ۔پولیس تفتیش اور دیگر کارروائی پوری ہونے کے بعد ملزم ایف سی اہلکارجوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔یعنی فیصلہ تربت کی سیشن کورٹ کے سپرد ہوچکا ہے۔ یقیناً مقتول حیات بلوچ کا خاندان کیس کی پیروی کرے گا۔ ملزم نے پولیس کو تفتیش میں بیان دیا کہ وہ دو حملوں میں پہلے بھی زخمی ہوچکا ہے۔
یاد رہے کہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں بالخصوص مکران میں تعینات ایف سی اہلکاروں پر اس نوعیت کے پے درپے حملے ہورہے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں مکران میں اس طرز کے حملوں میں ایک میجر سمیت درجن سے زائد اہلکار جاں بحق ہوچکے ہیں۔ انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کور (سائوتھ) میجر جنرل سرفراز علی اور دوسرے حکام کے ساتھ مقتول کے گھر گئے۔ پیش ازیں ایس ایس پی تربت نجیب اللہ پندرانی نے واقعے سے متعلق ذرائع ابلاغ کو تفصیلات بتائیں۔ ان کے ساتھ مقتول کے بھائی، چچا اور علاقے کے دوسرے معتبرین بھی موجود تھے۔ آئی جی ایف سی نے متاثرہ خاندان کو ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔۔ فرنٹیئر کور بلوچستان سائوتھ کے ترجمان کی جانب سے بدھ19اگست کو جاری کیے گئے بیان میں بتایا کہ انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے والے ایف سی اہلکار کو فائرنگ کے فوری بعد باقی اہلکاروں نے قابو کر کے اس سے اسلحہ قبضے میں لے لیا۔اور بنیادی محکمانہ تفتیش کے بعد آئی جی ایف سی کے حکم پر ملزم اہلکار کو دو گھنٹے کے اندر ہی خود پولیس کے حوالے کیا گیا۔دیکھا جائے تو حیات بلوچ کے قاتل وہ لوگ اور گروہ بھی ہیں، جن کی پْرتشدد سیاست اور کارروائیوں نے صوبے کو امن کے مسئلے سے دوچار کر رکھا ہے۔اوراس دن ایف سی کانوائے پر بم حملہ کرنے والے بھی دراصل حیات بلوچ کے قاتل ہیں۔جنہوں نے 14اگست سے پہلے بلوچستان کے مختلف اضلاع میں دھماکے کئے ۔ کہیں پاکستان کے جھنڈے فروخت کرنے والے اسٹال اور دکانیں، اور کہیں فورسز بم دھماکوں کا نشانہ بنیں۔ حیات بلوچ کے قتل کے سانحے سے ایک دن قبل (12اگست) کوئٹہ کے بروری روڈ پر جھنڈے فروخت کرنے والی دکان پر دستی بم حملہ کیا گیا جس سے پانچ افراد زخمی ہوئے، ایک دس سالہ بچے محمد مدثر مینگل کے جسم میں بھی دستی بم کے پرزے پیوست ہوئے، اور وہ خالقِ حقیقی سے جاملا۔ یہ بچہ قرآن پاک حفظ کررہا تھا، کلی حسنی بروری کا رہائشی تھا، بلوچوں کے قبیلے مینگل سے تعلق تھا۔ والد خان محمد خود بھی حافظِ قرآن ہیں۔ لیکن اس دس سالہ معصوم بلوچ کو کسی نے یاد نہیں کیا، نہ اس کے قاتلوں پر طعن و تشنیع ہوئی، نہ مظاہرہ ہوا، نہ پلے کارڈز پر مذمت کے الفاظ تحریر کیے گئے، نہ کسی لکھاری کو اس بم دھماکے کی بھنک پڑی، نہ کسی نے اس بچے کے قتل کے سوگ و یاد میں موم بتیاں روشن کیں۔ حالانکہ 14اگست سے پہلے صوبے میں دہشت گردی کے جتنے بھی واقعات ہوئے وہ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے ترجمان جیئند بلوچ نے دھڑلے سے قبول کیے۔ حتیٰ کہ 12اگست کا دھماکا بھی تسلیم کرلیا ،جس میںاس معصوم بلوچ بچے کی جان گئی۔یہ خاموشی در حقیقت شدت پسندوں کی عسکری عملیات اور بے گناہوں کے قتل کی حمایت ہے ۔ جیسے 10اگست کو چمن میں اینٹی نارکوٹکس فورس کی گاڑی ریموٹ کنٹرول بم دھماکے کا نشانہ بنی۔ جس میں اے این ایف کے ایک اہلکار سمیت 6افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔ تو واقعے کے خلاف چمن، کوئٹہ شہر، اور صوبے کے مختلف پشتون علاقوں میں مظاہرے ہوئے۔ ان تمام مظاہروں میں سرے سے ایسا تاثر ملا ہی نہیں کہ جس میں دہشت گردوں کی مذمت کی جارہی ہو۔ گویا ملبہ یا الزام ریاست یا سیکورٹی فورسز پر ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ جبکہ یہ واقعہ افغانستان میں بیٹھے پاکستان مخالف دہشت گرد گروہوں میں سے ایک جماعت الاحرار نے قبول کیا۔ دراصل اس دورنگی اور تضادات کی حامل سیاست، صحافت اور انسانی حقوق کے جانب دارانہ دعوئوں نے بھی بلوچستان کو مسائل سے دوچار کیے رکھا ہے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات ہوں اور وہ خود بھی بات چیت کی طرف آئیں ،بلوچستان کے لوگ قتل و غارت کی سیاست کی بجائے امن چاہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر