... loading ...
بھائی دس روپے کا دودھ دینا۔۔یہ آواز سن کر میں چونک پڑا۔دیکھا کہ ایک بزرگ ہاتھ میں دس کا نوٹ دکاندار کی طرف بڑھا رہے تھے۔حلیئے سے وہ مجھے چوکیدار لگے۔پرانے لیکن صاف ستھرے لباس میں ملبوس ، ہاتھ اور چہرہ تروتازہ ، جیسے کچھ دیر پہلے ہی وضو کیا ہو۔ میں سوچنے لگا کہ دکاندار اب انہیں کیا ردعمل دیتا ہے،کیونکہ صرف ایک پاؤ دودھ بھی آج کل کم از کم تیس روپے کا آتا ہے۔میری نگاہ اب اس دکاندار پر تھی،میں سوچ رہا تھا کہ دکاندار کہیں ان سے یہ نہ کہہ دے کہ بابا جی کہیں دس روپے کا بھی دودھ آتا ہے؟ میں اس دکاندار کو کئی سال سے جانتا تھا اور شاید اس نے بھی ان بزرگ کی لاج رکھنے کا فیصلہ کیا، میں نے دیکھا کہ اس نے تھیلی میں دودھ ڈالا ، جو بہر حال دس روپیسے سے زیادہ کا تھا ، اس نے ان صاحب کو وہ دودھ پکڑادیا ،وہ بزرگ دس روپے دے کر دودھ لیکر روانہ ہوگئے۔میں نے دیکھا ایک سفید پوش آدمی کی سفید پوشی کا بھرم رہ گیا ہے۔جس نے ہاتھ پھیلانا گوارا کرنے کے بجائے جو کچھ اس کے پاس تھا،خرچ کرنے کا فیصلہ کیا۔
میں انہیں جاتے دیکھتا رہا۔اور سوچتا رہا کہ ہم کس دور میں جی رہے ہیں۔انسان کی قوت خرید کا کیا عالم ہوگیاہے،کتنے ہی خوددار لوگ ایسے بھی ہوں گے جو ضرورت کے باوجود دل مار کر خالی جیب دکانوں کا رخ نہیں کرتے ہوں گے۔
ایک طرف تو وہ غریب آدمی تھا جس نے مانگنے کے بجائے اپنی خودداری کا بھرم رکھا۔دوسری طرف ہم اکثر ایسے پیشہ ور لوگوں کو بھی دیکھتے ہیں جو غربت کا لبادہ اوڑھے در در ہاتھ پھیلاتے نظر آتے ہیں، ان لوگوں کو آپ صبح سے شام تک صرف مانگتے ہوئے ہی دیکھیں گے۔اور کتنے ہی لوگ انہیں ، دس ، بیس ، پچاس اور سو روپے پکڑا کر ، دس روپے کا دودھ لیجانے والے اْن سفید پوش صاحب،جیسے لوگوں کا حق مار دیتے ہیں۔
میں نے اس سے پہلے بھی کئی مضامین میں پیشہ ور بھکاریوں کی نشاندہی کی ہے۔ جو صرف مانگتے ہیں،اور وہ اپنے اوپر کچھ خرچ نہیں کرتے،ان کا کام صرف پیسہ جمع کرنا ہوتا ہے اور اس کام کے لیے وہ اپنے بچوں کو بھی سڑکوں ، اور بازاروں میں خوار کررہے اور مستقبل کا بھکاری بنا رہے ہوتے ہیں، اور بہت سے جذباتی لوگ ان بچوں شکل دیکھ کر تڑپ کر انہیں فوراً بھیک دے دیتے ہیں۔حالانکہ ایسے بھکاری رحم کھانے کے لائق تو کیا، الٹا سزا کے مستحق ہیں، یہ لوگ ملکی معیشت پر بھی ایک بڑا بوجھ ہوتے ہیں ، کیونکہ یہ مانگ کر پیسہ جمع تو کرتے ہیں لیکن اسے اپنے اوپر خرچ نہیں کرتے۔یہ بھکاری پیسے والے ہونے کے باوجود کھاتے بھی مانگ کر ہیں اور پہنتے بھی مانگ کر۔
دودھ کی دکان پر پیش آئے اس واقعے نے مجھے ایک بار پھر ہماری معیشت، مہنگائی اور لوگوں کی قوت خرید کا درد ناک چہرہ دکھادیا۔زرا سوچیں کہ ان حالات میں دس، بارہ ہزار روپے کمانے والے ، چوکیدار،مزدور ، سیلز مین یا دوسرے محنت کشوں کی کیا حالت ہوتی ہوگی، جب کہ ان سے کہیں زیادہ کمانے والے ملازمت پیشہ، اور چھوٹے تجارت پیشہ لوگ بھی اس مہنگائی کے دور میں اپنی جائز ضروریات پوری کرنے سے قاصرنظر آتے ہیں۔
ایک صاحب جو ساٹھ ہزار روپے سے کچھ زائد تنخواہ پاتے ہیں بتا رہے تھے کہ مہینے کے آخر میں وہ ایک روپیہ بچا نہیں پاتے، بلکہ الٹا کچھ قرضدار ہوجاتے ہیں، جبکہ ان کی تمام ضروریات صرف گھریلو اخراجات سے متعلق ہیں،جن میں کوئی مہنگا شوق یا آؤٹنگ وغیرہ شامل نہیں۔تمام تنخواہ فیملی کے روزمرہ کے ضروری اخراجات کی نذر ہوجاتی ہے۔مجھے ان صاحب کی بات پر سو فیصد یقین ہے ، کیونکہ ہم بھی اسی شہر اور اسی ملک میں رہتے ہیں اور تمام معاملات کے عینی شاہد بلکہ ان حالات کے متاثرین میں بھی شامل ہیں۔
عوام کی معاشی حالت زار کو سیاسی حکومتوں کی کرپشن ، عالمی مالیاتی اداروں سے کئے گئیتباہ کن معاہدوں اور ملک کے لیے اپنائے گئے غیر موزوں معاشی نظام کا ثمر قرار دیا جاتا ہے۔گزشتہ تین دہائیوں کے اس صورتحال میں بہتری کے بجائے بگاڑ ہی دیکھنے میں آیا ہے۔حکومتی نااہلیوں کا تمام تر بوجھ عوام پر لادا جارہا ہے۔ ہر گزرتا دن کسی سانحے کا شاہد ہوتا ہے،صورتحال مسلسل ایک خطرناک رخ کی جانب گامزن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔