... loading ...
دوستو، ایک خبرکے مطابق دیگر افراد کے مقابلے میں بچپن یا جوانی میں کسی بڑے صدمے، استحصال یا حادثے کے شکار ہونے والے افراد میں عمر کے ساتھ ساتھ سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت کم ہوسکتی ہے، نئی ریسرچ کے مطابق بچپن کے مقابلے میں جوانی میں اس صورتحال کا اثر قدرے سخت ہوتا ہے اور بعض اقسام کے اکتساب اور ذہنی صلاحیتوں میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔برینڈائس یونیورسٹی کے تحقیق دانوں کا کہنا ہے کہ، اگر والدین میں سے کوئی ایک فوت ہوجائے یا والدین کی علیحدگی ہوجائے تو اس کا گہرا نفسیاتی اثر ہوتا ہے، اسی تناسب سے ذہنی صلاحیت ماند پڑسکتی ہے لیکن یہ عمل یکدم ہونے کے بجائے پوری زندگی برقرار رہ سکتا ہے۔اس ضمن میں انہوں نے سال دوہزار چار سے دوہزار تیرہ کے درمیان اٹھائیس سے چوراسی سال کے ڈھائی ہزار مردوخواتین کا جائزہ لیا، تمام شرکا سے بارہ اقسام کے صدمات کی بابت پوچھا گیا، ان میں والدین کی طلاق یا موت، ذہنی یا جسمانی زیادتی اور مارپیٹ، گھریلو ناچاقیاں، آتشزدگی، شراب اور منشیات کی لت، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کو بھی شامل کیاگیا، یہ تمام کیفیات وقتی طور پر شدید نفسیاتی کوفت کی وجہ بنتی ہیں۔۔اس ضمن میں شرکا سے تفصیلی سوال نامے بھی بھروائے گئے اور اس کا دو دماغی کیفیات پر اثر دیکھاگیا، ان میں دماغ کی ایگزیکٹیو فنکشننگ (ای ایف) یا ایپی سوڈک میموری (ای ایم) شامل ہے، ای ایف کا عمل توجہ، منصوبہ بندی، مسائل کے حل اور ملٹی ٹاسکنگ کو ممکن بناتا ہے، جب کہ ای ایم میں ہم حال ہی میں یاد کی ہوئی یا دیکھی ہوئی معلومات کو دہراتے ہیں۔مسلسل نو برس تک تمام شرکاکودیکھاگیا،جو لوگ حادثات کے شکار ہوئے یا صدموں سے گزرے ان میں ای ایف اور ای ایم شدید متاثر دیکھی گئی اور وقت کے ساتھ ساتھ سیکھنے اور سمجھنے والی ان دودماغی کیفیات میں تبدیلی ہوتی رہی اور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں کمی واقع ہوتی جاتی ہے۔اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہاگیا کہ صدمہ،ڈپریشن اور دباو کو جنم دیتا ہے جس سے ذہنی صلاحیت کو دھچکا لگتا ہے، اس کے ساستھ صدمات جسم میں اندرونی سوزش اور امنیاتی نظام کو بھی متاثر کرتے ہیں جس سے دماغ مزید کمزور ہوتا ہے۔
کہتے ہیں کہ جھوٹے کا حافظہ نہیں ہوتا کیوں کہ اسے یاد ہی نہیں رہتا کہ اس نے کہا کیا تھا۔۔باباجی فرماتے ہیں ایک نارمل انسان کا حافظہ کمزور ہونا چاہیئے، اسے چھوٹی چھوٹی باتیں لازمی بھول جانی چاہئیں، مثال کے طور پر کل صبح ناشتے میں کیا کھایا تھا۔اے ٹی ایم سے دوہزار روپے نکالے تو خرچ کہاں اور کدھر کردیئے؟ ایک ہفتے پہلے پیر کے روز آفس کس لباس میں گئے تھے؟ اس طرح کی چھوٹی باتیں اگر ذہن میں نقش ہونے لگ جائیں تو زندگی اجیرن بن جائے۔۔وہ مزید فرماتے ہیں کہ بھولنے کی عادت بھی خدا کی طرف سے انسانوں کے لیے ایک بڑی نعمت ہے، جب باباجی سے اس کی وجہ دریافت کی تو کہنے لگے، خود سوچو، انسان کو سب سے زیادہ پیار اور انسیت اپنے والدین سے ہوتی ہے، والدین اگر انتقال کرجائیں تو کتنا شدید صدمہ ہوتا ہے؟ یہ اللہ کی بڑی نعمت ہے کہ زیادہ سے زیادہ تین دن میں صبر آجاتا ہے اور انسان اپنے والدین کی موت کو بھول کر دنیاداری میں لگ جاتا ہے۔۔اسی طرح اگر کسی کی اولاد مرجائے تو یہ ایسا غم ہے کہ قبر تک ساتھ نہ چھوڑے لیکن اللہ اسے بھی دماغ سے آہستہ آہستہ مٹا دیتا ہے۔۔باباجی کی ’’حافظے‘‘ سے متعلق باتیں ’’ہاضمے دار‘‘تھیں اس لیے ہم نے مزید سوالات سے گریز کیا۔۔
بھولنا، بھول جانا، یاد نہ آنا۔۔یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن جب کہیں جائیں یا کسی سے ملاقات کریں تو دماغ حاضر رکھیں، ورنہ بڑا نقصان بھی ہوسکتا ہے۔۔ ایک صاحب کے گھر ان کی بیٹی کا رشتہ آیا، پھر ایک روزلڑکے والوں نے کہا کہ لڑکی دیکھنے آرہے ہیں۔۔ان صاحب نے اپنی لڑکی کے حوالے سے بتایا تھا کہ لڑکی کی عمر اکیس سال ہے اور ڈاکٹری کا آخری سال ہے۔۔لڑکے والے گھر آگئے، ان کی تواضح کے لیے خاصا اہتمام کیاگیا،بات چیت کا مرحلہ شروع ہوا، لڑکی کے باپ نے اپنی صاحبزادی کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کی قلابیں ملا ڈالیں۔۔کہنے لگے۔۔ ہماری بیٹی امور خانہ داری میں طاق، پکوان میں ماہر، پڑھائی میں شروع سے آج تک ہمیشہ پہلی پوزیشن حاصل کرتی رہی، اسپورٹس میں بھی کئی ٹرافیاں جیت کر لائی، بس کیا کیا بتائوں آپ کو اپنی لڑکی کے بارے میں، یہ تو ہیرا ہے ہیرا، اور آپ جیسا جوہری ہی اس ہیرے کو شناخت کرسکتا ہے۔۔لڑکے والدین نے خاموشی سے لڑکی کے والد کی ساری باتیں سنیں،لڑکے کی ماں نے اچانک بے تکی سی بات کردی، کہنے لگی۔۔لڑکی سے متعلق اور کچھ بتانا چاہیں توہمیں اچھا لگے گا۔۔لڑکی کے والد ترنگ میں آگئے(شاید چائے کا اثر ہوگیا تھا)کہنے لگا۔۔ یہ لڑکی بہت لکی ہے، ایسی خوش قسمت بچی ہے کہ کیا بتائوں آپ کو، بس یوں سمجھ لیں کہ جب یہ لڑکی پیدا تو مجھے سرکاری ملازمت ملی تھی اور کل ہی پینتیس برس ہونے پر باعزت ریٹائرڈ ہوگیا۔۔اور آج ہماری بچی کا رشتہ ہوگیا۔۔بس یہ سننا تھا لڑکے کے گھر والوں نے بھاگنے میں منٹ نہیں لگایا۔۔ اسی لیے سیانے کہتے ہیں کہ بولنے سے پہلے تول لیا کرو۔۔ لیکن کچھ لوگوں کے ترازو یا پیمانے میں گڑبڑ ہوتی ہے،اس لیے وہ بولنے کے بعد جب تولتے ہیں تو محسوس کرتے ہیں کچھ زیادہ ہی بول گئے۔۔
باباجی ایک بار فرمانے لگے۔۔ میاں حافظے کے حوالے سے غالب نے کیا خوب کہا تھا۔۔ کبھی میں سوچتا ہوں، کچھ نہ کچھ کہوں،پھر یہ سوچتا ہوں کیوں نہ چپ رہوں۔۔ہم نے انہیں ٹوکا، باباجی پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ غالب کی کوئی غزل یا شعر نہیں بلکہ ایک فلمی گانا ہے، جسے مہدی حسن نے گایا، دوسری بات یہ کہ۔۔کبھی میں سوچتا ہوں، کچھ نہ کچھ کہوں،پھر یہ سوچتاہوں کیوں نہ چپ رہوں۔۔ اس میں ’’حافظہ‘‘ کا ذکر کہاں ہے؟؟ باباجی نے ہماری بات کا رتی برابر بھی برانہ منایا، حسب عادت تھوڑا سا مسکرائے اور کہنے لگے۔۔بیٹا جی، جب شاعر یہ شعر کہہ رہا تھا تو سمجھ لو کہ اس کا حافظہ کتنی تیزی سے کام کررہا تھا۔۔ یعنی کہ پہلے اس نے سوچا کہ کچھ نہ کچھ بولے، پھر اچانک یہ سوچنے پر مجبور پر ہوگیا کہ کیوں نہ چپ رہے۔۔ممکن ہے،شاعر اس وقت اپنی زوجہ ماجدہ سے بات چیت میں مصروف رہا ہو۔۔یا اباجی یا اماں جی سے کسی بات پر شدید اختلاف ہو لیکن والدین کی بے ادبی یا ان کا تقدس پامال ہونے کے ڈر سے اس نے مزید کوئی بحث کرنے سے گریز کیا ہو۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔زمین کے اوپر عاجزی سے رہنا سیکھ لو، زمین کے نیچے سکون سے رہ پائوگے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔